پہلی جنگ عظیم(تیسری قسط)سمندری جنگ۔۔۔۔آصف خان بنگش

جنگ عظیم کے شروع سے ہی جرمنی نے برطانیہ کی سب سے بڑی کمزوری پر ہاتھ ڈالا تھا، اس کی وسیع سلطنت، جس کا دفاع کرنا مشکل تھا اور اسے کھویا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جرمنی کا خیال تھا کہ برطانیہ اپنی سلطنت کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جائے گا، شاید مغربی محاذ پر شکست بھی برداشت کر لے۔ یورپ کیلئے جنگ دنیا پر حکمرانی کی جنگ تھی، جرمنی یہ جنگ یورپ سے باہر لیجانا چاہتا تھا لیکن اس کا مقصد سلطنت کو پھیلانا نہیں تھا بلکہ برطانیہ کی قوت تقسیم کر کے یورپ پر قبضہ تھا۔ برطانیہ بھی مزید اپنی سلطنت کے پھیلاؤکی بجائے اپنی موجودہ کالونیاں بچانے کے چکر میں تھا۔ مورس ہینکی (Maurice Hankey) سیکرٹری ایمپیرئل ڈیفنس نے یہ جانچا کہ برطانیہ کی سلطنت اس کی (Achilles heel) کمزوری ہے اور جرمنی اسے جنگی مقاصد کیلئے استعمال کرے گا۔ برطانیہ کسی بھی صورت اپنی افواج کو پھیلانا نہیں چاہتا تھا اس کا مرکزی مسئلہ یورپ کا دفاع اور اپنی تجارتی گزرگاہوں کی حفاظت تھی۔

جرمنی ایک آبی طاقت کے طور پر بیسویں صدی میں اُترا تھا، برنارڈ وان بولو نے ایک نئی پالیسی متعارف کرائی تھی (Weltpolitik)۔ جس کے مطابق جرمنی کی سلطنت کو پھیلانا تھا۔ جرمنی ایمپائز گیمز میں کافی دیر سے کودا تھا لیکن 1900 کے اوائل تک وہ ٹوگولینڈ (Togoland) کیمرون (Cameroon)، جرمن جنوب مغربی افریقہ جو اب نیمیبیہ (Namibia) ہے اور مشرقی افریقہ (Tanzania) جو اب تنزانیہ ہے پر قبضہ جما چکا تھا۔ بحرالکاہل (Pacific) میں اس کا جھنڈا نیو گنی (New Guinea سامووا (Samoa) اور مائکرونیشیا (Micronesia) پر لہرا رہا تھا۔ چائنا میں سنگ تاو (Tsingtao) میں بھی اس نے پاؤں جمائے تھے جہاں سے جہازوں کو ایندھن ملتا تھا۔ اب جرمنی کی نظریں پورتا ریکو (Puerta Rico) اور پانامہ کینال (Panama Canal) پر تھیں۔ لیکن کائزر کی سب سے خطرناک سکیم (Operational Plan 3) آپریشنل پلان 3 تھی جس کے مطابق امریکی مشرقی ساحل پرنیویارک شہر پر حملہ تھا۔ اس کے قلب پر حملہ کر کے امریکہ کو مذاکرات پر آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ خفیہ مشن کے مطابق مین ہیٹن (Manhattan) شہر پر بمباری اور بوسٹن (Boston) پر قبضہ تھا جس کیلئے 60 جہاز اور 1 لاکھ فوج تیار کرنی تھی۔ کائزر کا ماننا تھا کہ (Capitalism) سرمایہ دارانہ نظام پر حملہ ان کے مرکز کو نقصان پہنچا کر کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کے تجارتی مراکز پر وار ہوا تو یہ نظام دھڑام سے نیچے آئے گا۔ بعد ازاں یہ منصوبہ تو استعمال نہیں ہوا لیکن سرمایہ دارانہ ریاستوں کی دشمنی برقرار رہی۔ 1912 میں جرمن پالیسی نے ایک حقیقت پسندانہ رخ اختیار کیا اب اس کی نظریں یورپ پر تھیں بجائے پوری دنیا پر پھیلی سلطنت کے اس لئے آرمی کے بجٹ میں اضافہ ہوا بجائے نیوی کے۔ اب برطانوی طاقتور نیوی کو مات دینے کیلئے جرمنی کے پاس صرف 17 کروزر تھے جو کہ مختلف سمندروں میں پھیلے ہوئے تھے۔ جن میں مشرقی افریقہ میں (Konigsberg) بحیرہ روم میں (Goeben and Breslau) ویسٹ انڈیز میں (Dresden and Karlsruhe) امریکی مغربی ساحل پر (Leipzig) لیکن سب سے طاقتور بیڑا ایڈمرل گراف وان شپی (Graf von Spee) کی قیادت میں سنگ تاو چین میں موجود تھا۔

سنگ تاو سے جرمنی کو جنوبی چینی سمندر (South China Sea) اور بحر الکاہل (Pacific) میں آپریشن کرنے میں   مدد دیتا تھا۔ سنگ تاو پر قبضہ شپی (Spee) کے سکواڈرن کو مات دینے جیسا تھا۔ برطانیہ کو اس معاملے کا فہم تھا لیکن سنگ تاو کو ہتھیانے کیلئے اتنے وسائل نہیں تھے اس لئے اس نے جاپان سے مدد طلب کی۔ جاپان برطانیہ کا اتحادی اور ایک ابھرتی طاقت تھا۔ برطانیہ کا جاپان سے مدد طلب کرنا اس کے عزائم کو تقویت دینے جیسا تھا۔ 2 ستمبر 1914 کو 60 ہزار جاپانیوں نے چائنا کی غیرجانبداری کو توڑتے ہوئے 2000 برطانوی فوجیوں کے ساتھ مل کر 4500 جرمنوں کو سرنگوں کیا۔ برطانوی فوج نے اس فتح میں کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن وکٹری پریڈ میں آگے آگے تھے۔ جرمنوں نے اس پر ان کا مذاق اڑایا کہ کیا بہادر فوج ہے جو دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلاتی ہے۔ سنگ تاو پر قبضہ کے ساتھ ہی جاپان کو وہ لانچ پیڈ مل گیا تھا جسے استعمال کر کے  وہ اپنی سلطنت کو دوام دے سکتی تھی۔ کچھ ہی ہفتوں میں اس نے چین سے مزید علاقہ اور تجارتی حقوق مانگے۔ برطانوی اقدام نے جاپان کو (Pacific) میں امریکہ کیلئے ایک خطرہ بنا دیا تھا اور اس کا نتیجہ 25 سال بعد پرل ہاربر (Pearl Harbor) کی صورت میں سامنے آئے گا۔

سنگ تاو میں جرمن شکست بھی شپی سکواڈرن کا رستہ نہ روک سکی اور اب اسکی دہشت ناک طاقت تمام عالم کیلئے درد سر بننے والی تھی۔ شپی جرمن کا سب سے بہترین کروز کمانڈر تھا جو کہ جنگ میں ایک ہیرو کے طور پر سامنے آیا تھا۔ کائزر نے انہیں جنگ میں فیصلہ سازی کا اختیار دیا تھا۔ اب شپی اپنی مکمل طاقت اور دہشت کے ساتھ سمندر میں آگ برسانے کیلئے تیار تھا۔ اسکا حدف دشمن پر کاری سے کاری ضرب لگانا تھی۔ لائٹ کروزر Emden کپتان کارل میولر (Karl von Mueller) کی نگرانی میں خلیج بنگال (Bay of Bengal) میں موجود تھا۔ شپی (Scharnhorst) میں باقی جہازوں کی قیادت کر رہا تھا لیکن اسے ہر 8 سے 9 دن میں جہازوں کیلئے ایندھن چاہئے تھا ورنہ وہ پانی میں ہی مر جاتے۔ اس نے چلی (Chile) کا رخ کیا جہاں کوئلہ حاصل کیا گیا۔ 1 نومبر 1914 کو شپی کا سامنا برطانوی ایڈمرل سر کرسٹوفر کریڈک سے ہوا۔ اس لڑائی میں اس نے اپنی ہی بتائے اصول کی خلاف ورزی کی۔ (A naval officer should never let his boat go faster than his brain) ایک بحری افسر کو اپنی کشتی کبھی بھی اپنے دماغ سے تیز نہیں چلانی چاہیے۔ اگلے ہی لمحے برطانوی جہاز شپی کے جہاز کی ذد میں تھا۔ آگ کے شعلے 200 فٹ تک لپک رہے تھے۔ برطانیہ نے اس دن 1600 ملاح کھوئے تھے۔ یہ برطانیہ کی 250 سال میں بدترین بحری شکست تھی۔ عالمگیر جنگ جرمنی کے حق میں جا رہی تھی۔

کروزر ایمڈن(Emden) کی قیادت میولر (Mueller)کر رہا تھا جو کہ ایک کمال کا کمانڈر تھا اور اس کا تمام عملہ اس پر جان نچھاور کرتا تھا۔ یہ کبھی ایک چوتھا سٹیمر (Dummy Funnel) ڈمی فنل ظاہر کرتا جس سے یہ ایک انگلش جہاز معلوم ہوتا تھا۔ اس نے انڈین پورٹ مدراس پر بھی22 ستمبر کو بمباری کی اور وہاں ایک برطانوی جہاز کو بھی دھول چٹائی۔ 23 ستمبر کو ایمڈم 100 میل دور تھی لیکن مدراس سے شعلے بلند ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ لندن میں جہازوں کے کرائے اور انشورنس آسمان کو چھو گئی تھی۔ اور ایک وقت میں (Bay of Bengal) میں تمام برطانوی بیڑا ساحل پر ہی رُکا رہا اور کپتان میولر کی سمندر میں دہشت سے خوفزدہ رہا۔ برطانوی جنگی کاز کو جرمن بے لگام کروزرز نے شدید دھچکا دیا تھا۔ انڈیا برطانوی معیشت میں اہمیت کا حامل تھا ایمڈم کے خوف سے کلکتہ سے جنگ کے لئے سامان رسد پہنچانا مشکل ہو گیا تھا۔ جب کہ دوسری طرف 25 رائل نیوی جنگی جہاز شپی کی تلاش میں تھے جس نے زانزیبر(Zanzibar) میں ایک چھوٹا برطانوی جہاز مار گرایا تھا۔ 2 نومبر کو پورٹ آف ٹانگہ پر انڈین رائل فورس نے دھاوا بول دیا جہاں جرمن کمانڈر پال لیٹو (Paul von Lettow) کی قیادت میں 2500 سپاہی موجود تھے۔ لیٹو ایک زیرک سپاہی تھا جو سائیکل پر سوار کبھی خود بھی دشمن کی پوزیشن کے بارے میں معلوم کرتا۔ 4 نومبر کو اس کی انڈین فوج سے مڈبھیڑ ہوئی۔ آدھی 13 راجپوت تو فورا ڈھیر ہوگئی۔ 2 دن کی لڑائی کے بعد برطانوی فوج نے جرمن کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ برطانوی افسر (Richard Meinertzhagen) لکھتا ہے کہ جرمنز نے میری بہت خاطر مدارت کی اور ناشتہ دیا جس کی مجھے سخت ضرورت تھی۔ مجھے بہت عجیب لگا کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں لڑ رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ بہت غلط لگا، مجھے لگا کہ کیا یہ واقعی ایک جنگ ہے یا ہم بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔

برطانیہ ٹانگہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا تھا اور اسے 700 افراد سے ہاتھ دھونا پڑا تھا، لیٹو کو صرف 65 لوگوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ جرمنی نے اسے ہیرو قرار دیا تھا اور اسے رسد روانہ کیا لیکن برطانوی ناکہ بندی کی وجہ سے وہ افریقہ نہیں پہنچ سکے۔

جرمن بیڑے کا انجام اور افریقی میدان جنگ

بحیرہ ہند کے پار میولر اب بھی تباہی مچا رہا تھا۔ اس نے 2 جنگی اور 23 مرچنٹ جہاز قبضہ کر لئے تھے۔ 9 نومبر کو ایمڈن کوکوز آئی لینڈ (coco) Islands میں لنگرانداز ہوا یہاں اس کا حدف برطانوی وائرلیس سٹیشن کی تباہی تھی۔ یہاں سٹیشن آپریٹر نے ایمڈن کا بوگس فنل دیکھ لیا اور مدد کے لئے کال کی۔ ایک آسٹریلین کروزر نے یہ پیغام وصول کیا اور ایمڈن کا کیریئر ختم کر دیا۔ کیپٹن میولر کو قیدی بنا لیا گیا۔ اب ایڈمرل شپی کی قسمت بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ برطانیہ نے اپنے 2 جدید کروزر کو بحیرہ شمال کی ناکابندی سے ہٹا کر شپی کو ٹھکانے لگانے کا جوکھم اٹھایا۔ 8 دسمبر 1914 کو دونوں کا فالکلینڈز میں سامنا ہوا۔ اب جرمن جدید برطانوی جہازوں کے زد میں تھے۔ سکارن ہورسٹ ایڈمرل شپی سمیت سمندر برد ہو گیا۔ شپی کے دو بیٹے باقی کے دو جہازوں میں مارے گئے۔ جرمن سکواڈرن کے حوصلے کا یہ عالم تھا کہ ڈوبتے وقت ان کے سپاہیوں کو ڈیک پر جرمن پرچم لہراتے ہوئے پانی میں ڈوبتا دیکھا گیا۔ اور اس لڑائی کے ساتھ جرمنی کے کروزر کمپین اپنے اختتام کو پہنچی۔

اب جرمنی کی جنگ زمین پر ہی لڑی جانی تھی، اس کے کمانڈرز نے کوئی حربہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے برطانیہ کو تگنی کا ناچ نچایا جائے۔ سویز کینال (Suez Canal) برطانیہ کے لئے اہمیت کا حامل تھا لیکن جرمنی مغربی محاذ سے اپنی سپاہی وہاں نہیں لا سکتا تھا۔ اس لئے جرمنوں نے عثمانیوں سے مدد مانگی، نومبر 1914 سے عثمانیوں کا جرمنی سے اتحاد تھا۔ ترکوں کی 4 فورتھ آرمی فلسطین میں سٹیشن تھی جو کہ سویز کینال سے صرف 150 میل کے فاصلے پر تھا۔ ترکوں نے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور 19000 سپاہی روانہ کئے۔ کمال پاشا فورتھ آرمی کے کمانڈر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ مصر اور لیبیا کو فتح کرنے کی پہلی سیڑھی تھی۔ ترک صحرائے سینا سے گزرتے ہوئے 3 فروری کو سویز کینال پہنچ گئے۔ برطانوی کینال کی حفاظت 9 جنگی جہازوں سے کر رہا تھا۔ اور 30 ہزار انڈین فوجی مورچہ زن تھے۔ یہ کمپین ترکوں کے لئے مہنگی ثابت ہوئی۔ انگریز فوج کی ترکوں پر شدید بمباری سے 1200 ترک ہلاک و زخمی ہوئے۔ اور باقی کے صحرا کی طرف پسپا ہو گئے۔ یہ حملہ ناکام ہو گیا تھا لیکن افریقہ اب اس عالمی جنگ کا حصہ بن چکا تھا۔ جرمن کے پاس تین آپریشن بیس تھے جن میں کیمرون، مشرقی افریقہ اور جنوب مغربی افریقہ تھا۔ برطانیہ کی یہاں صرف ایک کالونی تھی، یونین آف ساؤتھ افریقہ۔ لیکن یہاں کے لوگوں سے برطانوی تعلقات بہتر نہیں تھے 15 سال قبال بویرز قوم کے خلاف جنگ لڑی جا چکی تھی۔ اور وہاں کے لوگ کسی بھی طاقت کا ساتھ دینے میں الجھن کا شکار تھے۔ لیکن انگریز کے لالچ میں کہ اگر وہ جرمن علاقوں پر حملہ کرتی ہے تو وہاں کا انتظام ساؤتھ افریقہ کو دے دیا جائے گا اس نے انگریز کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ 14 ستمبر کو ساؤتھ افریقی فوج جنوب مغربی جرمن حصے پر حملہ آور ہوئیں لیکن انہوں نے جرمنز کو ایک ہاتھ آگے ہی پایا۔ ساؤتھ افریقہ کو شکست ہوئی لیکن اب آدھا ساؤتھ افریقہ بغاوت پر اتر آیا۔ شمالی کیپ کی فورس کی قیادت مانی مارٹز (Manie Mauritz) کر رہا تھا، جو ایک نڈر بیباک اور گوریلا جنگ کا ماہر تھا۔ جرمن گورنر نے انہیں ہتھیار دیئے اور انگریز کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔ وہاں لندن میں کالونیل سیکٹری لیویس کو ڈر تھا کہ ساوتھ افریقی یونین ہاتھ سے گیا۔ اس نے خفیہ طور پر 30 ہزار آسٹریلوی فوجی مانی مارٹز کے مقابلے میں بھیج دیئے، جن کو مقامی ساوتھ افریقیوں کا ساتھ حاصل تھا۔ 1914 کی سردیوں تک مارٹز کی فورس کو شکست ہو چکی تھی۔ لیکن وہ کبھی مارٹز کو نہیں پکڑ سکے۔ جولائی 1915 تک ساوتھ افریقہ نے جرمنوں کی جنوب میں کالونی کو ہتھیا لیا، جرمنز وہاں سرنڈر ہوگئے۔

اب انہی فوجوں نے شمالی افریقہ کا رخ کیا جہاں وان لیٹو اب بھی موجود تھا۔ لیٹو نہایت چالاک افسر تھا۔ اس کا مقصد دشمن کو افریقہ میں الجھائے رکھنا تھا تا کہ جرمن فوجیں فرانس پر فتح حاصل کر سکیں۔ اس کے تعاقب میں برطانوی افسر سمٹس (Smuts) تھا۔ لیٹو کے پاس 15000 کی فوج تھی جو تقریبا سیاہ فام تھی۔ انہی کی مدد سے وہ انگریز کو افریقہ میں ناچ نچاتا رہا۔ مارچ 1916 تک وہ دشمن کو الجھائے رہا لیکن اس کے بعد جرمنی سے وہاں کمک بھیجنا بند ہوگئی۔ جب اس کے کپڑوں اور اسلحہ کے بارے میں سوال ہوتا تو کہتا کہ دشمن سے چھین لو۔ جہاں لیٹو جنگ انتہائی کم خرچ پر لڑ رہا تھا وہیں سمٹس برطانیہ کا کروڑوں پاونڈ اور ہزاروں جانوں کا نقصان کر رہا تھا۔ لیٹو ایک مقام پر جنگ سے کتراتا ہوا برطانوی افواج کو بیچ افریقہ پھراتا رہا جس کے بارے میں اس کی فوج نے کہا کہ ہم ایسے رستوں پر گئے جہاں پہلے کوئی گورا نہیں گیا ہوگا۔ شدید بارشیں، کیچڑ، گھوڑوں کی بگڑتی حالت کچھ اچھے آثار نہیں تھے۔ صرف لیٹو کے خلاف کمپین کے لئے انگریزوں نے 10 لاکھ سیاہ فام پورٹر(Porters) بھرتی کئے جو سامان رسد لیجاتے۔ جس نے 2 لاکھ تک ہلاک ہوئے، بیماری اور خوراک کی کمی کی وجہ سے۔ یہاں کی شرح اموات فرانس کے محاذ پر جنگ میں مرنے والوں کے تقریبا ً برابر تھی۔ لیکن یہ خاموشی سے سہتے رہے۔ ان کے حقوق برطانوی فوج نے غصب کر رکھے تھے۔ ظلم و جبر کی ایک ناقابل بیان داستان افریقہ کے ان صحراوں میں لکھی جارہی تھی۔ 20000 ساؤتھ افریقی فوجیوں میں 10 ہزار لڑنے کے قابل نہ رہے تھے۔ ان کی جگہ گھانا اور نائجیریا سے لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔ یہی حال مشرقی افریقہ میں بھی رہا جہاں کنگز رائفلز میں جوانوں کی تعداد 35000 تک پہنچ گئے۔ چوہے بلی کا یہ کھیل جنگ کے اواخر تک جاری رہا لیکن لیٹو ناقابل شکست رہا۔ اور وہ 1919 میں فاتحانہ انداز میں برلن جرمنی واپس ہوا۔

فرانس اور برطانیہ کو ان کی کالونیوں سے اتنی افرادی قوت میسر تھی کہ انہیں مغربی محاذ پر بھی لایا گیا۔ فرانسیسی جرنل چارلس مینگن نے جب کہا کہ ہم اپنی کالونیوں سے 3 لاکھ فوجی بھرتی کر سکتے ہیں تو کسی نے اس کا یقین نہیں کیا لیکن وہ اس سے دگنی تعداد میں فوجی مغربی محاذ پر لائے۔ سیاہ فام فوجیوں میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو جنگ کیلئے ضروری تھیں، وہ نڈر تھے خطروں سے کھیلنے والے اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ انڈیا نے برطانیہ کو 17 لاکھ فوجی بھرتی کر کے دیئے۔ جنہوں نے بعض سخت ترین محاذوں پر اپنی خدمات پیش کیں۔ ایک انڈین فوجی نے اپنے دوست کو لکھا کہ ایسی جنگ ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھی نہ آئندہ دیکھیں گے۔ نہ رات میں نیند آتی ہے نہ دن میں سکون ہے۔ ہم نے اپنی بلی خود چڑھائی ہے۔ چار ماہ سے سورج نہیں دیکھا۔ اور سردی بیان سے باہر ہے۔

سلطنتیں جن کو بچانے کی جنگ لڑی گئی اب کھنڈرات میں تبدیل تھیں۔ جو بھی فوج کوئی علاقہ چھوڑ کر جاتی پیچھے تباہی مچا جاتی اور وہاں کے مکینوں کو بھوک و افلاس کا تحفہ دیتی جاتیں۔ ایک فوجی لکھتا ہے کہ ہمارے رستوں پر موت رقص کرتی نظر آتی ہے۔ ہم اب تمدن کے رکھوالے نہیں رہے۔ 1914 میں ایک افریقی جان کلمبوے (JohnChilembwe) نے جنگ کے مقاصد کو چیلنچ کیا اور یہ کہ افریقہ کا اس میں کیا کردار ہے۔ اس کے یہ الفاظ کالونیل افسروں کو سالوں چبھتے رہیں گے۔ “مالداروں، بینکرز، دکانداروں، کسانوں اور دمینداروں کو جنگ میں جا کر مرنا چاہیے۔ بجائے غریب افریقی جن کے پاس اس دنیا میں کچھ بھی نہیں۔ جو مرنے کے بعد صرف یتیموں اور بیواوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں ایسی جنگ میں مار دیا جاتا ہے جس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔”

جرمنی نے ایک شاندار عالمی جنگ لڑی لیکن اس کے بدلے اسے اپنے کروزر، اپنا وائرلیس نیٹورک اور تمام کالونیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن بدلے میں اس نے فرانس اور برطانیہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنے اتحادیوں اور اپنی کالونیوں سے مدد لیں۔ جس کے نتیجے میں اس کے اتحادیوں نے اپنی سلطنتوں کو طول دینے کی حکمت عملی اپنائی۔

اگلی قسط میں عثمانیوں کا اعلان جہاد، مشرق وسطی میں جنگ اور گلیپولی کی لڑائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلی جنگ عظیم(دوسری قسط)جرمن کی بیلجیم اور فرانس پر یلغار۔۔۔آصف خان بنگش

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply