کہکشائیں ۔۔۔۔زہیر عباس

ہم ملکی وے کہکشاں (Milky Way Galaxy) میں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم اسی کہکشاں کے باشندے ہیں۔ یہ کہکشاں ارب ہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔ اکثرہمارا واسطہ اس قسم کے سوالوں سے پڑتا ہے کہ ہم انسان یہاں کیسے آئے؛ اور یہ کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا وغیرہ۔ انسانیت کا مستقبل اورمقدّرتو اسی کہکشاں کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات (Observable Universe) میں لگ بھگ دو کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔ (یہ ایک محتاط اندازہ ہے بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد چار کھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہے۔ مترجم) ان میں سے ہر کہکشاں اپنی اپنی جگہ منفرد، متحرک، اور نہایت عظیم الشان ہے۔ کہکشاؤں کی پوری زندگی بہت ہنگامہ خیز ہوتی ہے۔ ان کا جنم، ان کا ارتقاء اور ان کی موت، غرض سب ہی کچھ نہایت پُرہنگام اور خوفناک حالات میں ہوتا ہے۔ کہکشاؤں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ وہ کیسے ارتقاء پذیر ہوتی ہیں؟ ان کا مستقبل کیا ہے؟ اوران کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ یہ سوالات وہ ہیں جو اکثرہمارے ذہنوں میں آتے ہیں؛ اور جن کے جوابات جاننے کےلئے ہم بے چین رہتے ہیں۔

ہماری اپنی کہکشاں کی عمر تقریباً بارہ ارب سال ہے۔ یہ ایک عظیم الشان ٹکیہ (Disk) کی مانند ہے جس کے مرغولہ نما (Spiral) دیوہیکل بازو ہیں؛ اور ٹکیہ کے بیچوں بیچ ایک گومڑ (Bulge) سا موجود ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١)۔ یہ اُن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جو ہماری کائنات میں موجود ہیں… وہ کہکشائیں جن میں سے کئی کے بارے میں جاننے کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔

ہر کہکشاں دراصل ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب (۱۰۰ اَرب) ستارے ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کا زچہ خانہ اور قبرستان، دونوں ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ ستارے کسی کہکشاں کے اُس حصّے میں بنتے ہیں جہاں گرد اور گیس (Dust and Gas) کے عظیم الشان بادل موجود ہوتے ہیں؛ جنہیں ہم ‘‘سحابیہ’’ (Nebulae) کہتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں بھی ارب ہا ارب ستارے ہیں؛ اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں… یعنی ہمارے نظامِ شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ تو پھر پوری کائنات کا کیا عالم ہوگا؟

خیر! خاصے عرصے تک ہمیں کہکشاؤں کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ایک صدی پہلے ہی کی بات ہے جب ہم صرف ملکی وے کہکشاں ہی کو ساری کی ساری کائنات سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں نے اس کا نام ‘‘جزیرہ کائنات’’ رکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق کوئی دوسری کہکشاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی! ۱۹۲۴ء میں ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) کی دریافت نے ہر چیز بدل کر رکھ دی۔ ہبل اس وقت کی جدید ترین دوربین سے خلائے بسیط کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اس دوربین کے آئینے کا قطر ۱۰۰ اِنچ تھا؛ اور یہ امریکی شہر لاس اینجلس کے نزدیک، ماؤنٹ ولسن (Mount Wilson) پر ایک رصدگاہ میں نصب تھی۔ اس نے خلاء میں، دور بہت ہی دور، روشنی کے دھندلے سے گولے دیکھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی ستارے نہیں۔ ہماری کہکشاں سے بہت زیادہ فاصلے پر، یہ تو ستاروں کی پوری کی پوری بستیاں تھیں۔

ماہرین فلکیات کےلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ صرف ایک سال پہلے تک ہماری پوری کائنات صرف ملکی وے پر مشتمل تھی؛ مگر اب وہ لاتعداد کہکشاؤں کا گھر بن گئی تھی۔ ہبل نے فلکیات کے میدان میں ایک عظیم الشان دریافت کرلی تھی۔ کائنات میں صرف ایک نہیں بلکہ لاتعداد کہکشائیں تھیں!

کہکشاؤں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ گردابی کہکشاں (Whirlpool Galaxy)، بیضوی کہکشاں (Elliptical Galaxy)، چھلے (Ring) کی شکل والی کہکشاں، مرغولہ نما (Spiral) کہکشاں وغیرہ۔ مثلاً ایک کہکشاں جسے ‘‘میسنر کٹیلاگ کی 87 ویں کہکشاں’’ یا مختصراً صرف M-87 کہا جاتا ہے، ایک بیضوی کہکشاں ہے۔ یہ اب تک دریافت ہونے والی، قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کے ستاروں کی روشنی سنہری مائل ہے۔ ایک اور کہکشاں ‘‘سومبریرو’’ (Sombrero) کہلاتی ہے۔ اس کا نظارہ نہایت شاندار ہے۔ اس کا مرکز نہایت بڑا اور روشن ہے جس کے اطراف گیس اور گرد کے بادلوں کا ایک بڑا سا ہالا بنا ہوا ہے۔ کہکشائیں دیکھنے میں بے حد حسین نظر آتی ہیں۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھرکیوں کی طرح چکراتی اور وسیع و عریض خلاء میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسی شاندار آتش بازی کا نمونہ لگتی ہیں جو صنّاعِ فطرت نے گویا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصاویر نمبر٢،٣ اور ٤۔)

IDL TIFF file

ہمارے لئے کہکشائوں کی وسعت کا تصور کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں۔ مگر خلاء میں فاصلہ ‘‘نوری سال’’ میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال (Light Year) کہلاتا ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل سے ذرا ہی کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز (کہکشانی مرکز) سے خود ہمارا فاصلہ بھی پچیس ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر ملکی وے کی ہی بات کریں، جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشائوں میں ہوتا ہے، تو اس کی چوڑائی بھی تقریباً ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائناتی صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرّے کی مانند ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی لگتی ہے، لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں خاصی چھوٹی ہے۔ مثلاً اینڈرومیڈا (Andromeda) کہکشاں جسے عربی میں ‘‘مراۃ المسلسلہ’’ بھی کہا جاتا ہے، اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے، اس کی چوڑائی (قطر) تقریباً دو لاکھ نوری ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔

M-87 کا تذکرہ ہم کچھ پہلے کرچکے ہیں۔ یہ ایک بیضوی کہکشاں ہے جو اینڈرومیڈا کے مقابلے میں بھی خاصی بڑی ہے۔ لیکن پھر بھی IC-1101 نامی کہکشاں کے مقابلے میں نہایت چھوٹی سی ہے۔ IC-1101 کہکشاں اب تک کی دریافت ہونے والی، سب سے بڑی کہکشاں ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے تقریباً ساٹھ گنا بڑی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٥۔)

اب تک ہم جان چکے ہیں کہ کہکشائیں بہت وسیع و عریض ہوتی ہیں؛ اور یہ خلاء میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ فلکی طبیعیات کا اہم سوال ہے کہ کہکشائیں کہاں سے آئی ہیں۔ ہم اب تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ یہ انتہائی گرم اور بے انتہاء کثافت والا مرحلہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ تب کہکشاں جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوسکتی تھی۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ کہکشائیں بہت بعد ہی میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اپنے آپ میں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے؛ اور کائنات میں اوّلین ستارہ، بگ بینگ کے بیس کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔ قوتِ ثقل (Gravity) نے ایسے اربوں اوّلین ستاروں کو بتدریج یکجا کرنا شروع کیا… اور آخرکار کائنات میں اوّلین کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) ہمیں ماضی کے اس اوّلین دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ جب کہکشائیں وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔ آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں، وہ دراصل ان کا ستاروں کا ماضی ہوتا ہے: وہ ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے، آج کی تاریخ میں اُن سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہوگی… اور وہ روشنی ہمیں ان ستاروں کے اتنے ہی قدیم ماضی کی خبر دے رہی ہوگی۔ جب ہم ‘‘ہبل ڈیپ فیلڈ’’ (Hubble Deep Field) نامی دوربین میں جھانکتے ہیں (جو ہبل خلائی دوربین ہی کا ایک اہم حصہ ہے) تو ہمیں کہکشائیں چھوٹے چھوٹے دھبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

وہ دور دراز ماضی کی کہکشائیں، آج کی قریبی کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہکشائیں روشنی کے چھوٹے دھبوں جیسی لگتی ہیں جن میں ہم بمشکل فرق کر پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٦)۔ ایسے ہر دھبے میں کروڑوں یا اربوں ستارے ہیں، جنہوں نے قوّت ثقل کے زیر اثر ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ یہ دھندلے دھبے اوّلین کہکشائیں ہیں؛ جو بگ بینگ کے لگ بھگ ایک ارب سال بعد بننا شروع ہوئیں۔ لیکن ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائناتی ماضی میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے۔ اس میں اور زیادہ آگے تک، کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہمیں مزید دور تک ماضی میں جھانکنا ہو، تو اس کیلئے ہمیں مختلف قسم کی، اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور دوربین کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک ایسی دوربین ہونی چاہئے جو اب تک کی سب سے بڑی دوربین ہو۔

فی الحال تو ایک دوربین چلی (Chile) کے شمالی ریگستانی علاقے میں نصب ہے۔ اسکا نام ‘‘ایکٹ’’ (Atacama Cosmology Telescope) یعنی ‘‘اٹاکاما کونیاتی دوربین’’ ہے۔ 17,000 فٹ کی بلندی پر نصب، یہ اب تک کی سب سے اونچی زمینی دوربین بھی ہے۔ یہاں کا موسم بہت سرد رہتا ہے اور اکثر ہوا بھی طوفانی رفتار سے چلتی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں آسمان سال کے بیشتر حصے میں صاف رہتا ہے۔ صاف شفاف، بادلوں اور گرد و غبار سے خالی آسمان، ایکٹ دوربین کے شیشوں کےلئے نہایت اہم ہے۔ اس کے بغیر وہ آسمان میں قدیمی کہکشاؤں کو مرکز نگاہ نہیں بناسکتے۔ آسمان کی جتنی مفصل معلومات اس دوربین کے ذریعے حاصل ہوئیں، وہ اس سے پہلے کسی اور زمینی دوربین سے حاصل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے ذریعے ہم کہکشاؤں اور ان کے جھرمٹوں کی ارتقاء کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔

ایکٹ، عام بصری روشنی کے بجائے اُن کائناتی خرد موجوں (Cosmic Microwaves) کا سراغ لگاتی ہے جو کائنات کی پیدائش کے صرف چند لاکھ سال بعد وجود پذیر ہوگئی تھیں۔ یہ اس صلاحیت کی حامل ہے کہ نہ صرف ان کہکشاؤں کو دیکھ سکے بلکہ ان کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کا ارتقاء ہوتے ہوئے بھی مشاہدہ کرسکے۔ اس دوربین کے ذریعے ہم اس قابل ہوچکے ہیں کہ کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کے مرحلہ وار ارتقاء کا جائزہ لے سکیں؛ ہم ان کہکشاؤں کی نشوونما کا مطالعہ ابتدائے وقت کے کچھ ہی عرصے بعد سے لے کر دورِ حاضر تک کرسکیں۔

ایکٹ نے ہمیں کہکشانی ارتقاء کو زمان و مکان کی تقریباً ابتداء سے سمجھنے کا زبردست موقعہ فراہم کیا ہے۔ اب ہم یہ بتانے کے قابل ہیں کہ کہکشائیں، قدیم کائنات میں کیسی تھیں… اور ساتھ ہی ساتھ ہم ان قدیم کہکشاؤں کا موازنہ، عصر حاضر کی کہکشاؤں سے بھی کرسکتے ہیں۔ ماہرین فلکیات، کہکشاؤں کو ستاروں کے بے ہنگم جھرمٹوں سے دورِ حاضر کی منظم و مرتب شکلوں میں (باضابطہ کہکشائوں میں) ڈھلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

اب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ستارے، کہکشاؤں کو تشکیل دیتے ہیں؛ کہکشائیں، کہکشانی جھرمٹوں (Clusters) کو؛ اور یہ کہکشانی جھرمٹ بھی باہم منظم و مربوط ہوکر جھرمٹوں کے جھرمٹوں یعنی ‘‘سپر کلسٹرز’’ (Super Cluster) کو جنم دیتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧ اور ٨۔) یہ سپر کلسٹرز، ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں سب سے بڑی ساختیں (Structures) ہیں۔

کہکشائیں شروع میں ستاروں، گیس اور گرد کے بے ہنگم مجموعے تھیں۔ مگر آج کہکشائیں بڑی منظم اور ترتیب وار حالت میں ہیں۔ قوّت ثقل نے ستاروں کی اس بے ترتیبی کو ختم کرکے ان میں سے کچھ کو مرغولہ نما کہکشاؤں کی شکل دی، اور کچھ کہکشاؤں کو دوسری شکلوں میں ڈھال دیا۔ کہکشاؤں کی ساخت اور ان کا مقدر بھی قوّت ثقل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ناقابل یقین حد تک طاقتور ہے؛ اور اس کا اصل منبع کہکشاں کے مرکز میں ہوتا ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں بھی ایک خوفناک اور تباہ کن طاقت موجود ہے۔ کہکشائیں بارہ اَرب سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ ان کی وسیع سلطنت میں چکر کھاتی مرغولہ نما کہکشائوں سے لے کر عظیم الشان ستاروں کی گیند جیسی گول کہکشائیں تک؛ ہر شکل اور ہر جسامت کی کہکشائیں موجود ہیں۔

اب بھی کہکشاؤں کے بارے میں بہت سارے سوالوں کے جوابات جاننا باقی ہیں۔ کہکشاؤں کے بارے میں ہمارا موجودہ علم اب بھی تشنہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی شکل مرغولہ نما کیوں ہوتی ہے؟ اور کیا یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھیں؟ البتہ، اتنا تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ یہ ہمیشہ سےایسی نہیں تھیں۔ نوعمر کہکشائیں ستاروں، گیس اور دھول کا بے ترتیب اور بے ہنگم مجموعہ تھیں۔ مگراربوں سال پہلے انہوں نے صاف ستھرے منظم طریقے سے اپنی ساخت استوار کرلی تھی۔ جیسے کہ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا پھر ہماری اپنی مرغولہ نما کہکشاں ملکی وے۔

ہماری کہکشاں ہمیشہ سے سالم حالت میں ایک کہکشاں نہیں تھی۔ بلکہ اپنی ابتداء میں یہ بہت ساری، چھوٹی چھوٹی ‘‘بچہ کہکشاؤں’’ پر مشتمل تھی۔ اس وقت ان کہکشاؤں کی شکل عجیب بے تکی اور غیر منظم سی تھی۔ پھر ان تمام کہکشاؤں نے قوت ثقل کے زیرِ اثر آپس میں ضم ہونا شروع کردیا۔ ہماری ملکی وے کہکشاں تشکیل پانے لگی۔ آہستہ آہستہ اس نے ستاروں کو اندر کی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ پھر اس کے گھومنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی؛ اوراس نے چپٹی (Flat) ہوکر ایک ٹکیہ جیسی شکل بنالی۔ ستاروں اور گیس کے بادلوں نے عظیم الجثہ گھومنے والے بازو بنائے ۔ یہ چکر تمام کائنات میں ارب ہا ارب مرتبہ چلا ہوگا۔

اگرچہ کہکشائیں ایک دوسرے سے مختلف لگتی ہیں، مگر ان سب ایک قدرِ مشترک ہے: یہ سب کی سب اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔ ان میں موجود ستارے، کہکشانی مرکز میں موجود کسی نادیدہ چیز کے گرد، دیوانہ وار رقص میں مصروف ہیں۔ بہت مدت سے سائنس دان یہ جاننے کی جستجو میں تھے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کہکشاؤں کو مختلف شکلیں اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اب انہوں نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔ کہکشانی مرکز میں موجود بلیک ہول (Black Hole) انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ہر قسم کا بلیک ہول نہیں بلکہ صرف ‘‘فوق ضخیم بلیک ہول’’ (Super-massive Black Hole) ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کہکشانی مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہونے کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ کہکشانی مرکز سے زبردست توانائی نکل رہی ہوتی ہے۔ اس توانائی کا سرچشمہ بلیک ہول ہی ہوتے ہیں۔

یہ مرکز میں موجود رہ کر آس پاس کی کے مادّے کی ضیافت اڑانے میں ایسے مصروف رہتے ہیں جیسے ہم بقرعید پر گوشت کی دعوت اڑاتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کا کھانا، گیسی بادل اور ستارے ہوتے ہیں۔ بلیک ہول بننے کے دوران واقعاتی افق کے پاس ایک پرت دار ٹکیہ بن جاتی ہے۔ اس وقت یہ بلیک ہول کو بہت ہی مختصر وقت میں اتنی مقدار میں مادّہ مہیا کرتی ہے جو اس کی ہضم کرنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ جس سے انہیں کبھی کبھی بدہضمی بھی ہوجاتی ہے اور واقعاتی افق، مادّے سے لبریز ہوجاتی ہے۔ بلیک ہول کی برداشت کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور وہ مزید مادّہ ہضم کرنے کے بجائے اسے زبردست توانائی کے ساتھ، خلاء میں دور دور تک پھینک دیتا ہے۔ روشن، توانا اور زبردست مقدار والے، اس مادّے کے اخراج کو جب ہم بہت دور سے – کروڑوں نوری سال کے فاصلے سے – دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں روشنی کے عظیم الشان فوارے لگتے ہیں۔ بلیک ہول کے اس مظہر کو ‘‘کوزار’’ (Quasars) کہتے ہیں۔ جب سائنس دان کسی کہکشاں کے مرکز سے توانائی کے یہ فوارے دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ وہاں کوئی کوزار گھات لگائے بیٹھا ہے۔ (بلیک ہول اور کوزار کے بارے میں ہم گزشتہ باب میں تفصیل سے بات کرچکے ہیں۔ مترجم)

مگر کیا کوئی کوزار ملکی وے کے مرکز میں تو آرام نہیں فرمارہا؟ اینڈریا گیز (Andrea Ghez) اور ان کی ٹیم پچھلے پندرہ سال سے اسی کی کھوج میں ہیں۔ ان کی یہ جستجو تب ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے جب وہ کہکشاں کے مرکز میں ستاروں کی حرکت دیکھ سکیں۔ ستارے، قوت ثقل کی وجہ سے حرکت کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سیارے، سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ ستارے جو کہکشانی مرکز کے بہت قریب ہیں، وہ گرد و غبار کے بادلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا گیز ایک دیوقامت دوربین سے ان کا جائزہ لے رہی ہیں، جس کا نام ‘‘کیک’’ (Keck) ہے۔ کہکشانی مرکز کے قرب و جوار کا یہ علاقہ، کہکشاں کی انتہائی خطرناک اور بے رحم جگہوں میں سے ایک ہے۔ کہکشانی مرکز کے پاس ہر چیز اپنی انتہاء پر ہے۔ ستارے ناقابل یقین حد تک تیزی سے حرکت کررہے ہیں؛ یہاں ہر دوسرا ستارہ گویا ایک زنّاٹے دار رفتار سے دوڑے جارہا ہے۔ یہ مقام، کہکشاں کی کسی بھی دوسری جگہ کے مقابلے میں نہایت طوفانی اور خطرناک ہے۔

گیز اور ان کی ٹیم نے چند ستاروں کی تصاویر لیں جو کہکشانی مرکز کے قریب رہتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ اس کے بعد ان کا کام ان تصویروں سے متحرک فلم بنانا تھا۔ اس کےلئے بہت زیادہ صبر کی ضرورت تھی۔ پہلے انہیں بہت ساری تصاویر لینا تھیں۔ پھر ان تصاویر کو متحرک کرنا تھا۔ ان کی ٹیم جب یہ کام کرکے فارغ ہوئی تو انہیں بہت ہی زبردست نتیجہ ملا۔

کہکشانی مرکز کے قریب، مدار میں ستارے کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگارہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ ستارے اتنی تیزی سے صرف اور صرف کسی فوق ضخیم بلیک ہول ہی کی وجہ سے چکر کاٹ رہے تھے۔ گیز اور ان کی ٹیم نے مرکز میں موجود ستاروں کا تعاقب کیا؛ اور اس جگہ کی نشاندہی کی جس کے گرد یہ ستارے چکر کاٹ رہے تھے۔ کہکشاں میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول ہی وہ چیز ہوسکتی تھی جو ستاروں کو اس طرح چکر پہ چکر دے سکے۔ یہ بلیک ہول ہی کی ثقل تھی جو ستاروں کو اس طرح اپنے گرد چکر لگانے پر مجبور کررہی تھی۔ ستاروں کے راستوں میں خم، اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ کہکشاں کے مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول واقعی موجود ہے۔ علاوہ ازیں، انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ تقریباً پندرہ کروڑ قطر پر پھیلا ہوا ہے۔ اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس فوق ضخیم بلیک ہول سے ہمیں کوئی خطرہ ہے؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ نہیں۔ یہ فوق ضخیم بلیک ہول ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ کئی ہزار کھرب میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ فی الحال تو زمین محفوظ ہے۔

فوق ضخیم بلیک ہولز شاندار توانائی کا منبع تو ہوسکتے ہیں، مگر پھر بھی یہ اتنےطاقتور نہیں کہ کسی کہکشاں کے تمام ستاروں کو یکجا کرکے، ایک باقاعدہ کہکشاں کی صورت میں، باندھ کر رکھ سکیں۔ اگر ہم کسی کہکشاں میں صرف قابلِ مشاہدہ مادّے ہی کی بات کریں، تو پھر صرف اس میں تو اتنی کشش ثقل نہیں کہ وہ پوری کی پوری کہکشاں کو – ارب ہا ارب ستاروں کے مجموعے کو – اس شکل میں رکھ سکے کہ جس میں وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اگر کہکشائوں میں صرف وہی مادّہ ہوتا کہ جس کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں، تو پھر قوانین طبیعیات کی روشنی میں انہیں بکھر کر ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہکشائیں اپنی حالت پر اربوں سال سے قائم و دائم ہیں۔ اتنی زیادہ کششِ ثقل، فوق ضخیم بلیک ہول کے ذریعے بھی ممکن نہیں۔ تو پھر وہ نادیدہ چیز کیا ہے جس نے ہر کہکشاں کو اتنی خوبصورتی سے سنبھالا ہوا ہے؟ ہم نے اس غیر مرئی چیز کو ‘‘تاریک مادّہ’’ (Dark Matter) کا نام دیا ہے؛ اور یہ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔

ماہرینِ فلکیات معلوم کرچکے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہولز، کہکشاؤں کے مرکز میں واقع ہوتے ہیں اور ان ہی کی بدولت مرکز سے قریب ستارے اس قدر تیز رفتاری سے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ مگرپھر بھی یہ اس قدرطاقتور نہیں ہوتے کہ کہکشاں کے سارے ستاروں کو آپس میں جوڑکررکھیں۔ یہ راز اس وقت تک نہیں کھلا تھا جب تک ایک سرپھرے سائنس دان نے یہ خیال پیش نہیں کیا: ضرور کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہے جسے ہم اب تک نہیں جانتے، مگر وہ اپنا کام کررہی ہے۔ یہ سوئٹزرلینڈ کا فلکیات داں، فرٹز زوئکی (Fritz Zwicky) تھا۔

اس نے 1930ء کے عشرے میں اس نکتے پر غور شروع کیا کہ آخر کہکشائیں، گروپوں کی شکل میں کیوں ہیں۔ قابلِ مشاہدہ مادّے اور توانائی کی بنیاد پر اس نے حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ مادّہ اتنی کششِ ثقل پیدا ہی نہیں کرسکتا کہ جو ان کہکشائوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھ سکے۔ اگر یہ مادّہ صرف اتنا ہی ہے کہ جتنا ہم دیکھ سکتے ہیں، تو پھر کہکشائوں کو ایک دوسرے سے دور بھاگنا چاہئے تھے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ یقیناً کوئی نہ کوئی چیز ایسی ضرور تھی جو ہر کہکشاں میں اربوں ستاروں کو، اور ہر کہکشانی جھرمٹ میں درجنوں بلکہ سینکڑوں کہکشائوں کو ایک ساتھ رکھے ہوئے تھی۔ مگر وہ چیز ہماری جانی پہچانی قوّت ثقل نہیں ہوسکتی تھی؛ کیونکہ قابلِ مشاہدہ مادّہ اتنی قوتِ ثقل پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور کوئی ایسی چیز موجود ہے جسے ہم نے اب تک نہیں دیکھا، اور نہ ہی کسی نے ابھی تک اس کے بارے میں سوچا ہے۔ اس نادیدہ اور پراسرار چیز کو اس نے ‘‘تاریک مادّہ’’ کا نام دے دیا۔

واقعی، یہ خداداد ذہانت کے مالک انسان ہی کا کام ہوسکتا تھا۔ فرٹز ژویکی اپنے عہد سے بہت آگے تھا۔ لہٰذا اس کی بات کو اس وقت کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر وہ بالکل صحیح تھا۔ ان کا تجویز کردہ تاریک مادّہ اگر کہکشاؤں کو جوڑ کر جھرمٹ میں رکھ سکتا تھا، تو وہ کہکشاؤں میں ستاروں کو بھی دور بھاگنے سے روک سکتا تھا۔

تاریک مادّے کا وجود ثابت کرنے کےلئے سائنس دانوں نے کمپیوٹر میں مجازی کہکشائیں بنائیں، جن میں مجازی ستارے اور مجازی قوت ثقل بھی موجود تھی۔ سائنس دانوں نے کہکشاں بننے کے عمل کو سمیولیشن کے ذریعے دوہرایا جس میں بہت سارے ذرّات ایک چپٹی ٹکیہ کے مدار میں ڈالے، بالکل اسی طرح جیسے ہماری کہکشاں کی شکل ہے۔ سائنس دان یہ امید کررہے تھے کہ وہ بالکل ایسی ہی ایک کہکشاں حاصل کرلیں گے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ایک مرغولہ نما شکل کی کہکشاں بنے گی۔ مگر جب نتیجہ آیا تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی؛ کیونکہ وہاں اتنی قوّت ثقل موجود ہی نہیں تھی جو ان سب ستاروں کو تھام کرایک کہکشاں کی شکل دے سکے۔ لہٰذا سائنس دانوں نے اپنے اس ماڈل میں ثقلی قوت بڑھادی، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ تاریک مادّہ ڈال دیا… اور اس کے ڈالتے ہی مسئلہ حل ہوگیا۔ تاریک مادّے نے کہکشاں کو تھام لیا۔ تاریک مادّہ دراصل ایک بند کا کام دیتا ہے جو کہکشاؤں کے ستاروں کو ایک دوسرے سے دور ہٹنے نہیں دیتا اور انہیں ان کی جگہ پر ٹکا کر رکھتا ہے۔

اب سائنس دان یہ دریافت کررہے ہیں کہ تاریک مادّہ نہ صرف کہکشاؤں کو جوڑ کر رکھتا ہے بلکہ یہی وہ چیز بھی ہے جس کی بدولت کہکشاؤں کے بننے کی ابتداء ہوئی تھی۔ ان سائنس دانوں کا خیال ہے کہ تاریک مادّے شاید بگ بینگ کے فوراً بعد ہی تخلیق ہوگیا تھا؛ اور اس نے ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ آخرکار یہ ایسے مرکزوں میں تبدیل ہوگیا جنہوں نے بعد ازاں وجود پذیر ہونے والی کہکشاؤں کےلئے بیجوں کا کام کیا۔ مگر سائنس دان اب تک یہ نہیں جان پائے ہیں کہ آخر یہ تاریک مادّہ ہے کیا چیز۔ ہمیں یہ سب اس لئے عجیب لگتا ہے کیونکہ ہم اب تک اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ اب تک تو یہ تاریک مادّہ، اس مادّے سے بالکل مختلف لگتا ہے کہ جس سے میں اور آپ بنے ہیں۔ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، پکڑ نہیں سکتے؛ مگر پھر بھی یہ ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ یہ ماورائے عقل قسم کا مادّہ ہے جو ہمارے جسم میں سے یوں گزر سکتا ہے جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ ہم شاید اس کے بارے میں زیادہ نہ جان پائیں۔ لیکن کائنات اس سے بھری پڑی ہے۔ شاید یہ عام مادّے سے، جس سے میں اور آپ بنے ہیں، لگ بھگ چھ گنا زیادہ مقدار میں ہے۔ اس کے بغیر کائنات اس طرح چل ہی نہیں سکتی تھی کہ جس طرح یہ آج چل رہی ہے۔ اور چونکہ کائنات ایسے ہی چل رہی ہے، لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی موجود ہے۔

تاریک مادّہ پراسرار بھی ہے۔ لیکن اسے حال ہی میں دریافت کرلیا گیا ہے۔ براہِ راست دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کے ثقلی اثرات کا مشاہدہ کرکے! جی ہاں، تاریک مادّے کی کشش ثقل ہی وہ واحد نشانی ہے جس کی بدولت ہم اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ تاریک مادّے کی دریافت، ثقلی عدسہ (Gravitational Lens) کہلانے والے ایک مظہرِ قدرت کے طفیل ممکن ہوسکی ہے۔ اس اثر کے تحت، بہت دور کسی جسم (مثلاً کسی کہکشاں) سے آنے والی روشنی کے راستے میں کوئی نادیدہ کمیت (جو بلیک ہول یا پھر تاریک مادّے پر مشتمل ہو) آجاتی ہے۔ اس نادیدہ کمیت کے ثقلی اثرات، دور سے آنے والی روشنی کو اس انداز سے موڑتے ہیں جیسے عام زندگی میں کوئی عدسہ روشنی کو اس کے راستے سے منحرف کردیتا ہے۔ انحراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو ہمیں وہ دور دراز جسم عجیب سا، بگڑا ہوا سا دکھائی دیتا ہے تو کبھی ایک کے دو نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری نظر کا فتور نہیں؛ بلکہ یہ ساری کارستانی، بہت دُور سے آنی والی روشنی کے راستے میں حائل، عظیم و جسیم نادیدہ کمیت کی ہوتی ہے۔ ثقلی عدسے کی مختصر اور آسان داستان بس اتنی سی ہے۔ لیکن یہی ثقلی عدسہ ہمیں تاریک مادّے کو کھوجنے کا نایاب موقعہ فراہم کرتا ہے: جب روشنی کی کرنیں کسی دور دراز کہکشاں سے سفر کرتی ہوئی ہماری طرف آتی ہیں اور راستے میں تاریک مادّے کے کسی بڑے جمگھٹ کے قریب سے گزرتی ہیں تو روشنی کی ان کرنوں کا راستہ، تاریک مادّے کی قوّت ثقل کی وجہ سے، تبدیل ہوجاتا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩)۔

جب ہبل دوربین نے خلائے بسیط میں جھانکا، تو اسے بہت دور کی کچھ کہکشائیں بدشکل اور عجیب طرح سے کھنچی ہوئی نظر آئیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠)۔ ان کی شکل خم کھاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی مچھلی کو شیشے کے جار میں باہر سے دیکیں تو اکثر جب وہ جار کے شیشے کے قریب آتی ہے تو اس کی شکل، زاویئے کے اعتبار سے اپنے اصل حجم سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے۔ ہم ان کہکشاؤں کی اصل ممکنہ ساخت اور ظاہری بدشکلی میں موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جس تاریک مادّے نے ان کہکشائوں کی شکل مسخ کی ہے، وہ اپنی کمیت کے اعتبار سے کتنا ہوگا۔ اب یہ بات بالکل صاف ہے کہ تاریک مادّہ، کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ زمان و مکان (کائنات) کی ابتداء ہی سے کارفرما رہا ہے۔ اس کا اثر ہر جگہ اور ہر چیز پر ہورہا ہے۔ اس نے کہکشاؤں کی تخلیق شروع کی، اور ستاروں کو کہکشاؤں میں باندھ رکھا ہے۔ ہم نہ تو اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا پیچھا کرسکتے ہیں؛ لیکن پھر بھی وہ اس کائنات کا ایک اہم حصّہ ہے۔

ہمیں کہکشائیں ایک دوسرے سے خاصی دورالگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ ان کے درمیان کھربوں میل کا فاصلہ ہے۔ لیکن اصل میں گروپوں کی شکل میں ہی رہتی ہیں، جنہیں ہم ‘‘کہکشانی جھرمٹ’’ (Cluster) کہتے ہیں۔ اور پھر یہ کہکشانی جھرمٹ، آپس میں مربوط و منظم ہوکر جھرمٹوں کے جھرمٹ (Super-clusters) بناتے ہیں۔ ایسے ہر سپر کلسٹر میں ہزاروں کہکشائیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنے تصور کے کینواس کو تھوڑا سا اور بڑا کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں بھی ایک کہکشانی جھرمٹ کا حصہ ہے جسے ہم ‘‘لوکل گروپ’’ (Local Group) کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔ اس کہکشانی جھرمٹ میں ہماری کہکشاں اور اینڈرومیڈا سب سے بڑی کہکشائیں ہیں۔ اگر ہم اور بڑے پیمانے پر دیکھیں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہم ‘‘سنبلہ سپر کلسٹر’’ (Virgo Super-cluster) کہلانے والے، جھرمٹوں کے ایک جھرمٹ کا حصہ ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩)۔

سائنس دان اب کائنات کا نقشہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں کہکشانی جھرمٹوں اورکہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کے محل وقوع بھی شامل ہیں۔ اپاچی پوائنٹ رصدگاہ (Apache Point Observatory) نیومیکسیکو میں واقع ہے۔ یہاں ‘‘سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے’’ (Sloan Digital Sky Survey) نامی ایک چھوٹی مگر انتہائی مہنگی دوربین ایک نہایت منفرد کام کررہی ہے۔ یہ پہلا سہ جہتی آسمانی نقشہ بنارہی ہے جس میں ارب ہا ارب کہکشاؤں کے محل وقوع کی بالکل صحیح صحیح نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے تمام کہکشاؤں کو ڈھونڈ نکالنے کےلئے خلائے بسیط میں بہت دور تک جھانکنا ہوگا۔ یہ کہکشاؤں کا محل وقوع حاصل کرنے کے بعد اس مواد کو المونیم کی ڈسک پر منتقل کرتی ہے۔ ٣٠ انچ قطر کی ایسی ہر المونیم ڈسک پر ٦٤٠ سوراخ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر سوراخ ایک کہکشاں کی (اس کے محل وقوع سمیت) نمائندگی کرتا ہے۔ روشنی کہکشاؤں سے ہوتی ہوئی فائبر آپٹک تاروں میں سے گزرتی ہے۔ اس طریقے کے تحت کہکشاؤں کی دوری اور ان کے محل وقوع کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے؛ اور پھر، اسی ریکارڈ کی بنیاد پر، کہکشائوں کا ایک تفصیلی سہ جہتی نقشہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس نقشے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کہکشاؤں کی ساخت کیا ہے، یہ کس سے بنی ہیں اور کائنات میں کس طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تمام باتیں فلکیات اور تفہیمِ کائنات کےلئے بہت اہم ہیں۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا سہ جہتی کائناتی نقشہ ہے۔ اس نقشے نے ہم پر وہ باتیں اجاگر کی ہیں جو ہمیں اس سے پہلے معلوم نہیں تھیں۔ یہ نقشہ نہ صرف کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کا محل وقوع بیان کرتا ہے، بلکہ اور بھی بڑے پیمانے پر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ بہت ہی بڑی ساختیں تشکیل دیتے ہیں جو (اس عظیم الشان پیمانے پر) ریشوں (Filaments) کی مانند ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں۔

سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے نے ایک ارب چالیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ایسا ہی ایک فلامنٹ دریافت کیا ہے۔ یہ کائنات میں اب تک مشاہدہ کی گئی، سب سے بڑی ساخت بھی ہے۔ اس کا نام ‘‘سلون کی عظیم دیوار’’ (Sloan Great Wall) رکھا گیا ہے۔ اس دیوار کو دیکھ کر ہمیں صحیح معنوں میں وسعتِ کائنات کا احساس ہوجاتا ہے۔ اور آپ پر جب یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس فلامنٹ کا ہر چھوٹا سا نقطہ اپنے آپ میں ایک کہکشاں ہے – ستارہ نہیں بلکہ کھربوں ستاروں والی کہکشاں ہے – تو آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ سروے دراصل بہت ہی بڑے پیمانے پر کائناتی جغرافیہ کو بیان کرتا ہے۔

سائنس دانوں نے ایک بہت ہی وسیع کائنات، سپرکمپیوٹر پر نقل کی ہے۔ اس میں آپ کوئی کہکشاں نہیں دیکھ سکتے؛ بلکہ اس میں تو آپ کو کہکشانی جھرمٹ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اس میں صرف اور صرف جھرمٹوں کے جھرمٹ، یعنی سپر کلسٹرز دکھائی دیتے ہیں جو آپس میں ایسے جڑے ہیں کہ ان سے مل کر ایک کائناتی جال بن گیا ہے۔ اس پیمانے پرکہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ ایک ریشے کی طرح کی ساخت بناتے ہوئے، ایک ایسا کائناتی جال بناتے ہیں جس میں کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ، کائنات کو ہر جگہ اور ہر سمت سے روشن کررہے ہیں۔ اصل میں کائنات بڑے پیمانے پر ایک اسفنج کی طرح نظر آتی ہے، جس کا ہر ایک ریشہ لاکھوں کہکشانی جھرمٹوں کا گھر ہے جنہیں تاریک مادّے نے باندھ کر رکھا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١١)۔ اس کمپیوٹر سمیولیشن میں تاریک مادّہ، ہر ریشے کے ساتھ جگہ جگہ موجود ہے۔ جہاں کہکشائیں ہیں، وہاں یہ تاریک مادّہ بھی اثر انداز ہورہا ہے۔

جب ہم کہکشاؤں کو کائناتی پیمانے پر دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں بس یونہی، اٹکل سے بکھری ہوئی نہیں ملتیں بلکہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا رکھے ہوتے ہیں، جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تاریک مادّہ، کائنات میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاریک مادّہ ایک ایسے گوند کا کردار ادا کرتا ہے جس نے کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کو باندھ رکھا ہے۔ وہ سب ایک ریشے کے بنے ہوئے جال جیسے لگتےہیں۔ تاریک مادّے کے بغیر کہکشانی جھرمٹ، کائنات میں اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے۔ غرض کہ کائنات کی بڑے پیمانے پر تصویر ایک کائناتی جال (Cosmic Web) کی مانند نظر آتی ہے۔

ان ہی میں سے ایک ریشے میں چھپی ہوئی، ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے بھی ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ بارہ اَرب سال ہے۔ مگر اب یہ ایک کہکشانی تصادم میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ کہکشائیں ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہوتی ہیں۔ کچھ کہکشائیں چھلے کی مانند گول، تو کچھ مرغولہ نما پیچیدہ ساخت کی ہوتی ہیں۔ مگر ان کی ساخت ہمیشہ ایک ہی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہم اپنی کہکشاں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ ہماری کہکشاں ایک متحرک جگہ ہے۔ اس کی بنیادی نوعیت اور ساخت، کونیاتی عرصۂ وقت میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کہکشائیں صرف ساخت ہی نہیں بدلتیں بلکہ وہ مسلسل حرکت میں بھی رہتی ہیں۔ اور نتیجتاً وہ دوسری کہکشاں سے جاٹکراتی ہیں۔ جب کبھی کسی کہکشاں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، تو ‘‘مارو یا مرجاؤ’’ والی کیفیت پیدا ہوتی ہے: یا تو مدمقابل کہکشاں کو ہڑپ کرلو، یا پھر اس میں ضم ہوجائو!

کائنات، کہکشاؤں کا ایک بھرپور جنگل ہے۔ اور اس جنگل میں پائے جانے والے حیوان، یہ کہکشائیں، کسی بھی وقت ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا سکتی ہیں۔ یعنی کبھی کبھی کوئی کہکشاں کسی دوسری کہکشاں کے ساتھ بغلگیر بھی ہوجاتی ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک کہکشاں (NGC-2207) دیکھی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان دوہری مرغولہ نما کہکشاں (Double Spiral Galaxy) لگتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ دو کہکشائیں ہیں جو ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو ٹکرا رہی ہیں۔ یہ تصادم ابھی کئی کروڑ سال تک چلے گا۔ اور آخرکار یہ دونوں کہکشائیں ایک دوسرے میں مدغم (Merge) ہوجائیں گی (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٢)… دونوں مل کر ایک ہوجائیں گی۔

اس قسم کے کہکشانی تصادم کائنات میں عام ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے بھی اس قسم کی صورتحال سے مبرّا نہیں ۔ ہماری کہکشاں دراصل ایک ‘‘کہکشاں خور’’ ہے؛ اوراب تک کئی چھوٹی کہکشائیں ہضم کرچکی ہے۔ آج ہم ان ہضم شدہ کہکشائوں کی باقیات کو، ان کے بچے کچھے ستاروں کو چھوٹی سی لکیروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہم جس آنے والے تصادم کا تذکرہ کررہے ہیں، اس کے سامنے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا کے ساتھ ٹکرانے جارہے ہیں؛ اور یہ ہماری اپنی کہکشاں کےلئے بہت بری خبر ہے۔ ہماری کہکشاں لگ بھگ 250,000 میل (ڈھائی لاکھ میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے اینڈرومیڈا کی طرف بھاگی چلی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ پانچ سے چھ اَرب سال میں ہماری ملکی وے کہکشاں کا قصہ بھی تمام ہوچکا ہوگا۔ اینڈرومیڈا بھی بہت تیزی سے ہماری کہکشاں کے ساتھ ٹکرانے کےلئے سیدھی ہماری طرف بڑھتی آرہی ہے۔ جیسے ہی ان دونوں کہکشاؤں میں تصادم ہوگا، ویسے ہی یہ دونوں کہکشائیں مضطرب ہوکر ایک دوسرے سے قریب تر ہوتی جائیں گی۔ دونوں کہکشائیں اپنی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہوجائیں گی۔

سائنس دانوں نے اس سارے عمل کو کمپیوٹر سمیولیشن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣)۔ اس میں انہوں نے دیکھا کہ کہکشاں کے تصادم کے ساتھ ہی گیسی بادل اور غبار ہر طرف پھیل گیا۔ ثقلی قوت نے ستاروں کو انکے مداروں سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک دیا۔ یہ قیامت خیز نظارہ حشر کا سامان برپا کردے گا ۔ اس جنگ میں ہم صف اول میں موجود ہوں گے۔

آخرکار دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے آرپار ہوجائیں گی؛ اور پھر واپس آکر ایک عظیم الجثہ کہکشاں کی شکل میں ابھریں گی۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس سارے معرکے میں کوئی بھی ستارہ، دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرائے گا۔ ستارے اس وقت بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر ہوں گے۔ ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کا امکان صفر ہے۔ بہرحال، گیس اور غبار کے بادل، جو ستاروں کے درمیان ہوں گے، وہ گرم ہونا شروع ہوجائیں گے؛ اور آخرکار جل اٹھیں گے۔ نئی کہکشاں میں ہر جگہ سفید گرم روشنی پھیل جائی گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آسمان، آگ سے روشن ہوگا۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے انضمام سے شاید ‘‘ملکومیڈا’’ کہلانے والی کہکشاں کا جنم ہوگا۔ اور یہ ایک نئی طرح کی کہکشاں کی مانند دکھائی دے گی۔ یہ نئی کہکشاں ایک بہت ہی بڑی، بیضوی شکل کی کہکشاں ہوگی جو بغیر مرغولہ نما بازئووں کے ہوگی۔ یہ تصادم ناگزیر ہے؛ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی بننے والی کہکشاں میں ہماری جگہ کہاں ہوگی؟ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈالے گی؟ اس کا جواب بڑا ہی بھیانک ہے۔ اُس دوران کہ جب یہ ٹکراؤ شروع ہوگا، ہم شاید خلائے بسیط میں دور پھینک دیئے جائیں۔ یا پھر ہم اس نئی بننے والی کہکشاں کے مرکز میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ شاید وہ دن، کرہ ارض کےلئے قیامت کا دن ہی ہوگا۔

کہکشائیں تو کائنات میں ایک دوسرے سے ٹکرانا جاری رکھیں گی؛ اوران کے اس عمل کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ یہ کہکشانی تصادم تو آخرکار گزر ہی جاتے ہیں۔

مگر اس سے بھی بڑا ایک اور خطرہ کائنات میں موجود ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ خطرہ آخرکار کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل دے گا۔ کہکشائیں اتنا دور دھکیل دی جائیں گی کہ کائنات کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا۔ کہکشائیں ستاروں، نظام ہائے شمسی، سیاروں، اورچاندوں کا گھر ہوتی ہیں۔ ہر اہم چیز کہکشاں میں ہی واقع ہے۔ کہکشائیں کائنات کی جان ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، وہ کہکشاؤں میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ کہکشائیں نہایت ہی نازک ہوتی ہیں، جنہیں تاریک مادّے نے باندھ رکھا ہے۔ اب سائنس دانوں نے ایک اور کائناتی قوت دریافت کرلی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) رکھا ہے۔

تاریک توانائی کا اثر، تاریک مادّے کے بالکل الٹ ہے۔ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل رہا ہے۔ تاریک توانائی، جسے ہم نے بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ہی دریافت کیا ہے، کائنات میں ایک بڑی اثر و رسوخ رکھنے والی قوّت بن کر ابھری ہے۔ یہ بھی نہایت پراسرار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے! مگر کیوں ہے اور کیا کررہی ہے؟ ہمیں واقعی اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔

تاریک تونائی واقعی میں نہایت عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خلاء میں اسپرنگ سے لگادیئے ہوں، جو ہر چیز کو ایک دوسرے سے دور پرے دھکیل رہے ہوں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقل بعید تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے درمیان (کشش اوردفع کی) جنگ کا اختتام، تاریک توانائی کے حق میں ہوگا۔ وہ جیت جائے گی۔ اور اس جیت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ تاریک توانائی، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا زیادہ دور کردے گی کہ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں نظر ہی نہیں آئے گی۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے دور ہورہی ہوں گی ۔ باقی ماندہ کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ یہ سب نہ آج ہوگا اور نہ ہی آنے والے میں؛ البتہ یہ سب کچھ شاید آج سے دس کھرب سال بعد ہوگا۔ اور تب ہماری کہکشاں بالکل تنہا رہ جائے گی۔

فی الوقت تو کائنات میں کہکشاؤں کی نشوونما اور ان میں زندگی پروان چڑھنے والے عوامل بالکل درست طور پر، بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زمین پر زندگی کا ارتقاء ہوا؛ کیونکہ ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی، کہکشاں میں بالکل اس مقام پر ہے جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اگر ہم کہکشانی مرکز سے ذرا بھی قریب ہوتے، تو شاید ہم پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے۔ کہکشانی مرکز میں انتہاء درجے کا شدید ماحول ہوتا ہے؛ اور وہاں بہت زیادہ ریڈیائی لہریں سرگرم ہوتی ہیں۔ تاہم، مرکز سے زیادہ دور ہونا بھی اتنا ہی برا ہوتا کہ جتنا مرکز سے قریب ہونا۔ مرکز سے بہت زیادہ دور وہ ستارے بھی اتنی کافی تعداد میں موجود نہ ہوتے جنہوں نے ہماری زندگی کےلئے درکار، بنیادی عناصر تشکیل دیئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم اپنی کہکشاں کے ہم ‘‘گولڈی لاکس زون’’ (Goldilocks Zone) میں ہیں: نہ مرکز سے زیادہ دور نہ اس سے زیادہ قریب؛ بالکل مناسب فاصلے پر!

سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اس کہکشانی گولڈی لاکس زون میں لاکھوں کروڑوں ستارے اور بھی موجود ہوں گے؛ جو نہ صرف ہمارے سورج کی مانند ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں ویسے ہی نظامِ شمسی موجود ہوں گے کہ جیسا ہمارا اپنا نظامِ شمسی ہے۔ لہٰذا، یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے امکانات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ہمارے نظامِ شمسی میں، ہماری زمین پر چلے آرہے ہیں۔ ہماری کہکشاں جیسے گولڈی لاکس زون – یعنی زندگی کی ابتداء، نشوونما اور ارتقاء کےلئے سازگار ماحول کے حامل علاقے جنہیں اصطلاحاً ‘‘قابلِ رہائش علاقے’’ بھی کہا جاتا ہے – دوسری کہکشائوں میں بھی تو موجود ہوسکتے ہیں۔

کائنات بہت بڑی ہے؛ اور ہم اس کائنات میں ہمیشہ نت نئی چیزیں دریافت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہر بار جب ہم کسی نئے راز کا پردہ فاش کرتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ پہیلی ہمارے سامنے سامنے آن دھمکتی ہے۔ ماہرین کےلئے یہ بات تو قطعی طور پر نہایت پُرجوش ہے کہ ملکی وے کہکشاں اور کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں سے متعلق ان کے سامنے ختم نہ ہونے والے سوالات ہیں؛ اور نہ سلجھنے والی پہیلیوں کے انبار لگے ہیں۔

صرف ایک دہائی پہلے تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہولز موجود ہوں گے؛ نہ ہم یہی سوچ سکتے تھے کہ ماہرین فلکیات، تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے وجود پر یقین کرلیں گے۔ جیسے جیسے ان کی تحقیق کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے، ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور وہ کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر سے بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔

ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم اس سنہرے دور میں، اور ایک ایسے نایاب سیارے پر موجود ہیں جو ایک کہکشاں کے مضافات میں واقع ہے۔ جہاں رہتے ہوئے نہ صرف ہم کائنات کی تخلیق پر سوچ بچار کرسکتے ہیں، بلکہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں؛ اور کائنات کی ابتداء اور زماں و مکان کے آغاز کو سمجھ سکتے ہیں۔

کہکشائیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہورہا ہے۔ وہ نشوونما پارہی ہیں؛ اور ختم بھی ہوجائیں گی۔ کہکشاؤں کی اہمیت، سائنس کی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ ہر ماہر فلکیات کی اپنی پسند کی ایک کہکشاں ہوتی ہے۔ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا چھلے دار کہکشاں، بیضوی کہکشاں یا گیند کی طرح گول نظر انے والی کہکشاں۔ بہرحال ہماری تو سب سے پسندیدہ کہکشاں ہماری اپنی ملکی وے ہے، جو ہمارا گھر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ملکی وے نے زندگی کے پنپنے کےلئے ہمیں بالکل مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔ ہمارا مقدر اسی کہکشاں سے وابستہ ہے؛ اور ہمارا مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جہان سائنس

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply