قادیانیت اور قومی حساسیت۔۔۔۔ہارون الرشید

عاطف میاں کی تقرری کو تو منسوخ ہونا ہی تھا اور وہ ہو گئی لیکن اِس سارے معاملے میں جہاں بہت سے “مذہب پسند” دانشور بےنقاب ہو گئے وہیں جن سے حسنِ ظن تھا کہ وہ اِس حساس معاملے پر بولیں گے وہ صرف ٹویٹر پر اپنے نام سے بنے فیک اکاؤنٹ کی وضاحت دیتے ہی پائے گئے لہذا اُن سے وابستہ حسنِ ظن بھی جاتا رہا۔ فواد چوہدری  جیسوں کے مؤقف پر تو کوئی حیرت نہیں ہوئی لیکن آپا نثار فاطمہ کے فرزند بھی کیسے موقعے پر “روشن خیالی” کی رَو میں بہہ گئے، اس پر ضرور حیرت ہوئی اور مزید حیرت اِس پر ہوئی کہ کیا میرٹ آج ہی کی دنیا کا اصول ہے، ماضی میں کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی؟

قادیانیوں کا معاملہ باقی اقلیتوں کے معاملے سے مختلف ہے لہٰذا جو احباب عاطف میاں کا نام واپس لیے جانے پر اقلیتوں سے معذرت خواہ ہو رہے ہیں انہیں اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اور اگر معذرت کرنے کا بہت شوق ہو رہا ہو تو جنرلائزڈ معذرت کی بجائے ہمت پیدا کریں اور براہِ راست قادیانیوں سے معذرت کریں اور اِس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ قادیانیوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے نمائندے اس ملک میں پہلے بھی کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے لہٰذا قادیانیوں کی آڑ لے کر باقی اقلیتوں میں ریاست کے حوالے سے زہر بھرنے سے گریز کریں۔

اِس بات کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب جب حضورنبیِ کریم ﷺ کی مبارک ذات کا معاملہ آئے گا، وہاں دلیلیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ ایسے موقعوں پر عوام کو کثرت سے جھوٹ بولنے کے، دودھ اور مرچوں میں ملاوٹ کرنے کے، ناپ تول میں کمی کرنے کے، بے ایمانی کے حوالے سے جاری ممالک کی فہرست میں پہلے چند نمبروں پر آنے کے اور باقی دنیا کے چاند اور خلاء میں پہنچ جانے کے اور اپنی بحثوں کے معیار اور موضوعات دیکھنے کے طعنے بےسُود رہتے ہیں۔ میں اَن مسائل کی موجودگی کا انکار نہیں کر رہا، یہ اور اِن جیسے بےشمار دوسرے مسائل ہمارے معاشرے کو گھُن کی طرح چاٹ رہے ہیں لیکن اِن سب یا اِن میں سے کسی ایک دو برائیوں میں ملوث مسلمان کے دِل کے اندر بھی کسی  کونے میں آقا ﷺ کی محبت کہیں بُکل مارے دبکی رہتی ہے جو ایسے موقعوں پر کھُل کر سامنے آ جاتی ہے اور کیا عجب کہ اللہ اِس محبت کے صدقے لوگوں کو اِن برائیوں سے نجات ہی دلا دیں۔ اس لیے جو مسئلہ پیشِ نظر  ہو اُسی مسئلے پر بات کرنی چاہیے خواہ مخواہ مسئلے کو غلط  بحث میں الجھانے سے گریز کرنا چاہیے۔

ایک بات لبرل طبقے کو بھی سمجھ لینی چاہیے کہ آقا کریم ﷺ سے جُڑے جذبات انتہائی شدید ہیں اور ملک کی اکثریت اِس معاملے پر بےحد حساس بھی ہے لہٰذا جمہوری قدروں کا احترام کرتے ہوئے ملک کی اکثریتی آبادی کے جذبات کا خیال کیا کریں۔ عاطف میاں کی تقرری عوام کے اسی حساس رویے کو جانچنے کی ایک اور کوشش تھی جو کہ نہ ایسی پہلی کوشش تھی اور نہ آخری ہو گی۔ لبرل طبقے نے ماضی میں بھی ایسے موقعوں پر ہمیشہ شکست کھائی ہے اور آئندہ بھی ایسی کوششوں پر شکست اُن کا مقدر رہے گی۔  ایک اور بات جو لبرل ہوں یا مذہب پسند، سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ آئینِ پاکستان کی رُو سے قادیانی غیرمسلم اقلیت ہیں، قادیانی چاہے خود اِس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ قادیانیوں کو بھی ضد چھوڑ کر ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کی طرح خود کو اقلیت تسلیم کر لینا چاہیے۔ یہ انتہائی غیر فطری ہے کہ ملک کی اکثریت کو وہ غیر مسلم کہیں، آئینِ پاکستان کو تسلیم نہ کریں اور ساتھ ہی حقوق نہ ملنے کی دہائی بھی دیں۔ اِس سب کے ساتھ ساتھ قادیانی انسان بھی ہیں اورپاکستانی شہری بھی ہیں۔ ریاست باقی شہریوں کی طرح قادیانیوں کی بھی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اوراِس معاملے میں ریاست کو کسی غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اِس سے زیادہ مزید حقوق چاہئیں تو آئینِ پاکستان کو تسلیم کریں، انتخابات میں باقی اقلیتوں کی طرح حصہ لیں، ایوانوں میں بیٹھیں، اپنے خلیفہ کی بجائے آئین سے وفاداری کے حلف اٹھائیں، پھر چاہے وزیر بنیں یا مشیر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ رہی بات شخصی حقوق کی تو وہ تو یہاں اکثریت سے تعلق رکھنے والوں کو بھی کب ملتے ہیں؟ جو طاقتور ہوتا ہے، اُس کا تعلق اکثریت سے ہو یا اقلیت سے، وہ اپنا حق جائز یا ناجائز طریقے سے بزور لے لیتا ہے اور جو کمزور ہے اور معاشرے میں کوئی قابلِ ذکر مقام نہیں رکھتا وہ کتنی ہی کوشش کر لے، اُس کیلیے اپنا حق لینا ناممکن ہی رہتا ہے اور اِس کا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ اکثریتی آبادی کا حصہ ہے یا اقلیتی آبادی کا ، یہ رونا تو اکثریت اور اقلیت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

کچھ دوستوں کا  اِس بات پر بھی اصرار ہے کہ ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے غیرمسلموں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیے نہ کہ ہر وقت اُن پر لعن طعن، شکوک وشبہات  اور جلی کٹی سنا سنا کر اُن کو خود سے خود ہی دور کرتے رہیں۔ اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن یہ رویہ ایک تو تمام غیر مسلموں کے ساتھ روا نہیں رکھا جاتا اور جب قادیانی حضرات سے بھی رکھا جاتا ہے تو اُس کے پیچھے عاطف میاں کی تقرری جیسا ہی کوئی نہ کوئی مشکوک عمل ہوتا ہے وگرنہ عام حالات  میں کب قادیانیوں کے بارے میں بھی ایسا عمل دیکھنے میں آتا ہے اور اِس رویے کی وجہ  کہیں نہ کہیں قادیانیوں کا اپنا طرزِعمل بھی ہے۔ یار لوگ یہ تو بتاتے ہیں کہ بانئ پاکستان نے پہلا وزیرِ خارجہ ظفراللہ خان کو لگایا جو قادیانی تھے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ موصوف نے جواباً کیا رویہ اختیار کیا؟ موصوف نے قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھا کیونکہ وہ قائداعظم کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے تھے، اُن کے عقیدے میں ہر غیراحمدی دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اُس کا جنازہ پڑھنا  بھی درست نہیں ہے اور جنازہ نہ پڑھنے کا بہانہ یہ بنایا کہ قائداعطم کے سامنے ہمارے خلاف فتویٰ دیا گیا اور قائداعظم خاموش رہے۔ (اِس واقعے کی تفصیل اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کی اسمبلی فلور پر قادیانی  رہنما مرزا ناصر پر کی گئی کئی دنوں پر مشتمل طویل جرح میں دیکھی جا سکتی ہے)۔ اب اگر اکثریت کو اُس کے رویے کی وجہ سے آپ قصوروار سمجھتے ہیں تو برابر کا نہیں تو کچھ قصور قادیانیوں کے رویے کو بھی تو ٹھہرائیے، کم ازکم انصاف کا بھی یہی تقاضا  ہے۔  اور اُن کے اس رویے کے ساتھ آپ کتنے بھی بااخلاق ہو جائیں ، آپ غیر احمدی ہیں تو اُن کے لیے ناقابلِ قبول ہی رہیں گے لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن کے یا کسی کے بھی ساتھ بداخلاق ہونا درست ہے۔

ایک آخری بات فیصلہ ساز اداروں سے بھی عرض کردوں کہ ہر کچھ عرصے بعد اکثریتی مسلمانوں کی ایسے معاملات پر حساسیت کو جانچنے کی کوششیں کرنا بند کر دیں۔ ستر سال گزرنے کے باوجود اُن کی ایک بھی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو وہ عوام کے موڈ کواب سمجھ جائیں اور ہر کچھ عرصے بعد بلی چوہے کا کھیل کھیلنا بند کر دیں۔ قوم جو پہلے ہی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اُسے بنامِ رسول ﷺ مزید تقسیم کرنے کی کوششیں انتہائی مذموم ہیں جو اب بند ہو جانی چاہئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عامر ہاشم خاکوانی صاحب جیسے صاحبانِ عزیمت کہ جنہوں نے عوام کی اکثریت کے مؤقف کو بغیر کسی معذرت خواہانہ انداز میں اور انتہائی جرات کے ساتھ پیش کیا، اُن کے اس جذبے کو بھی سلام ۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply