حصولِ کامیابی کے لیے خواب دیکھیے ۔۔۔۔۔ حبیب خواجہ

مسجد قرطبہ کے صحن میں بیٹھا ایک طالبعلم اپنے خیالوں میں عجیب مگن تھا ، انتہا کی سنجیدگی اس کے چہرے سے عیاں تھی . استغراق کے عالم میں اچانک اس کے دوستوں کی اس پر نظر پڑی . ایک نے اچانک سوال داغا ، “عامر تم کن خیالوں میں ڈوبے ہوئے ہو ؟ ” . ” تم آخر کس دنیا میں کھو گئے ہو ؟ ” دوسرے نے وار کیا . تیسرے نے شوخی سے کہا عامر دن کے خواب دیکھ رہا ہے . اس پر تمام لڑکے ایک بار پھر خوب ہنسے . سنجیدہ طالبعلم کا جواب اتنا غیر متوقع اور عجیب تھا کہ سب لڑکے ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنسنے اور اس سے خوب مستیاں کرنے لگے . لگتا تھا کہ آج انہیں ایک نیا شغل ہاتھ آیا ہے . اس کا جواب پڑھ کر آپ بھی سمجھیں گے کہ وہ شاید دیوانہ ہو چلا تھا جو بڑے بڑے خواب دیکھنے بیٹھا تھا . مگر ایسا نہیں تھا . دراصل وہ اپنے تخیلات کی مدد سے ایک خواب بُن رہا تھا .
سنجیدگی میں ڈوبے اپنے خیالوں کے بارے میں اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا : ” ایک دن میں اندلس کا وزیراعظم بن کر رہوں گا . اندلس کو درپیش مسائل کو اپنے دور حکومت کے دوران حل کرنے کیلیے میں سوچ و بچار میں مصروف تھا ” . اسکے دوستوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہونے لگا . مستقبل کے وزیراعظم نے غصے سے انہیں چپ کرایا اور کمال شاہی جلال سے انہیں کہا کہ جلد وہ مناصب بتاؤ جو تم لوگ میرے دورِ وزارتِ عظمی میں حاصل کرنا چاہو گے . یعنی مانگ لو جو مانگنا ہے . ہنسی تھمی ، دوستوں نے چہروں پہ سنجیدگی طاری کی اور یکے بعد دیگرے گویا ہوئے .
ایک دوست نے ایک شہر کا قاضی بننا چاہا ، دوسرے نے خواہش ظاہر کی کہ اسے داروغہ بنایا جائے ، تیسرے نے قرطبہ کے سرکاری باغات کے نگران بننے میں دلچسپی لی جبکہ چوتھے نے بدستور غیر سنجیدگی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہی جلال کو غضبناک کیا اور کہا کہ “جب کبھی یہ انہونی ہو کہ تم بادشاہ بنائے جاؤ تو میں چاہوں گا کہ میرا چہرہ سیاہ کر کے گدھے پر بٹھا کر پورے قرطبہ کا گشت کرایا جائے” .
تاریخ گواہ ہے کہ اس سنجیدہ طالبعلم کے آخرالذکر ساتھی نے آخر ایک دن اپنی مجوزہ سزا پائی . وہ یوں کہ محمد ابی عامر المنصور جب وزیراعظم بنا تو اسکے بچپن کے گستاخ اور بدتمیز ساتھی کو گدھے پر سوار کر کے بچوں کے بڑے جلوس میں قرطبہ بھر کا گشت کرایا گیا . آخر یہ انہونی ممکن ہوئی کیسے ؟
مضبوط تخیل ، بلندی ءِ پرواز ، خواب بینی اور مسلسل جدوجہد ہی اسکی معلوم وجوہات ہیں اور یہی سب کچھ اور دیگر تفصیلات ہمارے موضوع یعنی ” قوتِ تحت الشعور ” کا حصہ ہونگے جنہیں آنیوالی دیگر پوسٹوں میں تفصیل کیساتھ پیش کیا جائیگا .
ابی عامر پڑھائی سے فارغ ہوا تو اس نے شاہی دربار کے باہر ڈیڑہ ڈالا اور معاش کے لیے عرضی نویسی کا کام شروع کر دیا . وکیل کا بیٹا تھا ، بلا کا ذہین تھا . وہ جو بھی عرضی لکھتا ، مضمون میں شائستگی اور اسلوب کی چاشنی کیوجہ سے شرفِ قبولیت پاتی . یہانتک کہ علاقہ میں شہرت ہو گئی کہ وکیل کا بیٹا جس کی بھی عرضی لکھتا ہے ، وہ عرضی دربار میں منظور ہوتی ہے . آخر ایک دن بادشاہ کو بھی محسوس ھوا کہ اس خوبصورت قرینے و خوشخطی سے عرضیاں لکھنے والا انجان و غیر معلوم عرضی نویس اس کے دل میں گھر کر چکا ہے . جلد ہی اندر بلا لیا گیا اور شاہی خطوط نویسی پر مامور ہوا .
دربار میں داخلہ تو بس ایک بہانہ بنا . کمال کی زہانت سے دربار کے درجات اس کیلیے بلند ہوتے گئے . دربار میں دوستیاں کیں اور حلیف بنائے جبکہ محل میں ہمدردیاں پائیں اور آشنائیاں استوار کیں یہانتک کہ تمام رکاوٹیں ہٹتی چلی گئیں اور قصہ مختصر ، ایک دن وزیراعظم کا منصبِ جلیلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا . وزیراعظم بھی ایسا طاقتور کہ خلیفہ کے منجملہ اختیارات بھی اس نے اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے .
اس کے بائیس سالہ دور میں اندلس نے ترقی کی وہ رفعتیں حاصل کیں جن کا اس سے قبل اندلس کا عظیم حکمران خلیفہ عبدالرحمن سوم صرف خواب ہی دیکھ سکا تھا مگر کامیابی اس کے نصیب میں بھی نہ تھی . ابی عامر نے تقریباً ساٹھ جنگیں کیں اور سب میں فتوحات حاصل کیں جس کیوجہ سے المنصور یعنی فاتح کے نام سے مشہور ہوا . اسپین کی ایک بلند پہاڑی چوٹی اس کے نام کی نسبت سے ” المنصور” کے نام سے آج بھی جانی جاتی ہے . تاریخ اسے مدبر سیاستدان اور بہترین سپہ سالار مانتی ہے . وہ اندلس کا ایک طاقتور وزیر اعظم تھا جو حقیقت میں ڈیفیکٹو خلیفہ بھی تھا .
مضبوط تخیل پر مبنی بُنے گئے خواب دیوانے کی بڑ نہیں ہوتے . زمانہ چاہے مذاق بنائے خواب بین حضرات ریاضِ مسلسل و کمال لگن کے ذریعے اپنے بُنے گئے خواب کی تعبیر حاصل کر کے رہتے ہیں . ایسی بیشمار مثالیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں جبکہ اردو گرد کے ماحول میں نظر دوڑائیں تو بیسیوں مثالیں آج بھی مل سکتی ہیں جن پر اگلی پوسٹوں میں بات ہو گی .
فی الحال تاریخ کے اس سچے واقعے کی بعد موجودہ تاریخ کا ایک نیا حوالہ پیش کرونگا جس میں بنی عامر المنصور سے کافی مماثلت پائی جاتی ہے . ایک ایسی شخصیت جس کے طریقہءِ سیاست سے ہزار اختلافات کے باوجود ، اپنے موضوع کیساتھ انصاف کرنے کے لیے یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے ابی عامر کی طرح کئی خواب دیکھے اور ہر خواب کی تعبیر اپنی بلندیءِ پرواز ، اور جہدِ مسلسل کے زریعے حاصل کی اور نا ممکنات کو ممکن جبکہ خود پر ہونے والی ہر تنقید و استہزاء کو باطل ثابت کر دکھایا .
جی ہاں یہ شخصیت اور کوئی نہیں بلکہ یہ ہے نو منتخب وزیراعظم عمران خان نیازی .
قوتِ تحت الشعور کے ضمن میں خواب بینی پر میری معروضات سنتے ہوئے بزرگ صحافی و کالم نگار مسیح اللہ جامپوری اگر ہسپانوی تاریخ کے مذکورہ بالا گوشے کو اچانک سامنے نہ لاتے تو عمران خان کی ابی عامر سے خواب بینی پر مطابقت و مماثلت پر بات کرنا ہی محال تھا .
عمران خان نے کرکٹ چیمپئن بننے کا خواب دیکھا اور انتہائی مخدوش حالات میں جب گیم تقریباً ہاتھ سے نکل چکی تھی ، اسکی تعبیر حاصل کی . ماں کینسر سے کیا اللہ کو پیاری ہوئی کہ کینسر کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا اور پاکستان میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ایک جدید مگر پرائیویٹ ہسپتال بنانے کا خواب دیکھا . اس کے بقول لوگ اس پر ہنستے تھے ، اس کا مذاق اڑاتے تھے . ایک ایسے ہسپتال کا پاکستان میں حصول ناممکن سمجھتے تھے . مگر اس نے جو چاہا ، آخر کار حاصل کر دکھایا . مگر اس ارفع مقصد کے حصول کے لیے اس نے اپنی شاہانہ طرز کی زندگی کو خیر باد کہا اور شہر شہر ، قریہ قریہ میں بازاروں ، گلیوں ، سکولوں و کالجوں غرضیکہ ہر جگہ چندہ اکٹھا کرنے جا پہنچا . اس طرح اس نے عوام میں خیرات کے نیک جزبات اور ملک کی ترقی کے ارمان دیکھے جس نے اسے پاکستان کے لیے خواب دیکھنے پر مائل کیا . اس خواب کے حصول کے لیے مقصود عنان اقتدار کے لیے اسے سیاست کے میدان کارزار میں اترنا پڑا .
بائیس سال کی مسلسل سیاسی جدوجہد جو ہرگز آسان نہیں تھی . کیا کیا گڑھے مردے نکالے گئے . کیا کیا رکاوٹیں کھڑی کی گئیں . کہا گیا کہ اس کے ہاتھ پر تو وزارت عظمی کی لکیر ہی نہیں . سارا گاؤں مر جائے مگر مراثی کا بیٹا نمبردار نہیں بن سکتا . مگر اسکی استقامت کے سامنے نظر آنے والی بظاہر ہر کنکریٹ کی دیوار ریت کا ڈھیڑھ ثابت ہوئی .
اس نے تقریباً ناممکن کو ممکن بنا دیا . ناقدین و مخالفین کو ساتھ ملاتا رہا اور اپنا راستہ صاف کرتا گیا . یہانتک کہ آخر کار اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ، نہ اسکے ہاتھ پہ وزارت عظمی کی لکیر تھی نہ وہ چوہدری یا نمبردار کا بیٹا تھا . مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کی مخالفت کے باوجود آج وہ وزیراعظم ہے . بنی عامر کی طرح اس نے بھی انہونی کو ممکن بنایا . یہ سب اسکی خواب بینی کی صلاحیت ، لگن ، مقصد سے گرمجوش وابستگی اور جہد کے تسلسل کی بدولت ممکن ہوا . فوج اور قانون کا ساتھ تو بس بہانے بن گئے .
اسکی کامیابی کے پیچھے اصل قوت اعلی پائے کا تخیل ، تحت الشعور کو چینلائز کرنے کی خوابیدہ صلاحیت ہے جو کہ ہمارا اس وقت موضوع اور اس تحریر کا اولین مقصد ہے ، سیاسی مباحث میں الجھنا تو ہمارا یہاں مقصد ہی نہیں … میری ان سلسلے وار تحاریر میں موٹیویشنل اسپیکرز ، مربیان ، مینٹرز حضرات اور بچوں کی گرومنگ ، کونسلنگ اور یوتھ کو اورئینٹیشن دینے والے حضرات کیلیے دلچسپی کا سامان ہو گا . گفتگو کے ماخذ و اقتباسات پر بھی انشاءاللہ بات ہوتی رہیگی .
یار زندہ ، صحبت باقی !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply