• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لِینا اب الاسکا میں ہے،سورس آف انسپریشن ہے دعائیں ۔۔۔۔۔ ہمایوں ایم تارڑ

لِینا اب الاسکا میں ہے،سورس آف انسپریشن ہے دعائیں ۔۔۔۔۔ ہمایوں ایم تارڑ

ِلینا اب Alaska میں ہے۔ سورس آف انسپیریشن ہے ـــ دعائیں!
لِینا (بھتیجی) تب گریڈ 4، 5 میں تھی۔ جب جب اسلام آباد کا وِزٹ لگتا، یہ اپنی ذہین اور شوخ آنکھوں میں ستارے بھر بھر، پلٹ پلٹ میرے پاس آتی۔ کبھی ایک سوال تو کبھی دوسرا:Chachu, can you tell me any 5 words beginning with ‘oa’?
میں ایک دو لفظ بتا دیتا، اور پھر لاجواب ہو کر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ وہ اپنے چیلنج کے مقابل مجھے کمزور پا کر خوش ہو جاتی۔ زبان اور آنکھوں کی گُھمن  گھیریوں سے تھوڑا مذاق بناتی۔ پھر اپنا ریڈی میڈ جواب بتا کر ”انکشاف” کر دیا کرتی۔ اس پر میں حیرت سے آنکھیں پھیلا کر مزید شکست خوردہ ہونے کا تاثر دیتا تو اس کی فتح کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔ اِس بچّی کے انداز جداگانہ تھے۔ ذرا تیز reflexes رکھنے والی۔ اعتماد ایک نارمل انسان سے تھوڑا بلند تر۔ بعض لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں۔ ہم کہا کرتے ‘ِلینا سٹائلش ہے’۔ میری امّی اس کی کئی باتیں نوٹ کیا کرتیں:
“دیکھو، اُبلا ہوا انڈا کیسے چھیلتی ہے! انڈے کی طرف ایک نظر نہیں دیکھا۔ دھیان میری طرف تھا۔ مجھے دیکھ دیکھ پُرجوش باتیں کیے جاتی، اور بغیر دیکھے سیکنڈز میں انڈا چھیل کر نائف سے کاٹ ڈالا” ۔۔۔ وغیرہ۔

بیچ کے مہ و سال سخت محنت وریاضت کے ہیں۔ اِس کمر توڑ تعلیمی نظام میں سے کسی طور سُرخرو ہو گذرنے کی تگ و دو سے بھرپور۔ خوش قسمتی بہرحال ساتھ رہی۔ شہر کھیوڑہ کے سب سے اچھے ادارے “وننگٹن سکول” میں پڑھی۔ میٹرک کے امتحان سے کچھ ماہ قبل امریکی YES پروگرام آف سٹوڈنٹ سکالرشپ یعنی Youth Exchange and Study Program میں اپلائی کیا تو سلیکٹ ہو گئی۔ یہ ایک بڑی اچیومنٹ تھی ـــ کہ پاکستان بھر سے appear ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات میں سے کُل 70 سٹوڈنٹس کو لیا جاتا ہے۔ بنیادی سیلیکشن کے بعد ایک طویل اور تھکا دینے والا پراسیس تھا جس میں طرح طرح کے سکریننگ ٹیسٹوں اور انٹرویوز میں سے گذارا گیا۔ یوں لگتا جیسے ناسا کے لئے سیلیکشن ہو گئی ہو۔ خیر، بیچ میں میٹرک کے امتحان کا مرحلہ بھی درپیش تھا۔ لینا ایک ایتھلیٹ ایسی سپرٹ اور صلاحیت کیساتھ ان تمام آزمائشی مرحلوں میں سُرخرُو ہو گذری۔

 

 

اسلام آباد کے بیسیوں وزٹس کے دوران کچھ روز رائٹنگ سکِل پر رہنمائی لینے کو اپنے اِس چاچُو سے بھی رابطے میں رہی۔ تاہم، بیشتر وقت چھوٹی چھوٹی apprenticeships اور دیگر جزئیات کوَر کرتے میں گذر گیا۔ گذشتہ ماہ، یعنی اگست کے پہلے ہفتے میں لِینا نے واشنگٹن کے لئے پرواز پکڑی تو مجھے وہ دن یاد آئے جب وہ 4 اور 5 گریڈ میں ارفع کریم کی طرح شوخ و شریر، بہت vibrant اور vivacious ہوا کرتی۔ اب اس پر تھکن کا عنصر غالب تھا۔
میری خواہش ہے اب لینا اپنا بلاگ لکھا کرے، اور جب وطن لوٹے تو امریکن ایکسنٹ میں رواں انگریزی بول کر دکھائے۔ نیزاپنی مابعد اکیڈیمکس میں بھی فارن ریفرینس کا لشکارا ذرا مزید بڑھائے کہ یہ سکالر شپ تو بس سال بھر میں ختم ہو جائے گی ــــ جس میں مختلف ممالک سے منتخب ہوئے یہ ہائی سکول کی سطح کے بچے ایک پورا academic year یونائیٹڈ سٹیٹس میں رہ کر گذارتے ہیں۔ وہاں کے سکولز میں باقاعدہ کلاسز اٹینڈ کرتے، مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لیتے، امریکی سماج کی اقدار کا مطالعہ کرتے، لیڈرشپ اور پریذنٹیشن سکِلز ڈویلپ کرتے، امریکی زبان پر حسبِ ذوق اور حسبِ صلاحیت دسترس پیدا کرتے، اور خود امریکیوں کو اپنے اپنے کلچر سے متعلق ایجوکیٹ کیا کرتے ہیں۔ اِس مخصوص سکالرشپ کا آغاز اکتوبر 2002 میں ہوا تھا۔ اب تک تقریباً 1200 پاکستانی بچے اس سے مستفیض ہو چکے ہیں۔


اِن سب بچوں کے رہن سہن، قیام و طعام کا اہتمام host families کے ذمّے ہوتا ہے جنہیں اِس مقصد کیخاطر خوب چھان پھٹک کر بہ احتیاط سلیکٹ کیا جاتا ہے۔ لینا بھی ایک ایسی ہی ہوسٹ فیملی کیساتھ رہ رہی ہے۔ بہترین احساسِ تحفّظ کیساتھ۔ تصویر میں لِینا کیساتھ کھڑی دوسری بچی بھی اسی طرح کی مہمان ہے۔ وہ انڈونیشین ہے۔ مذہباً کرسچئین ہے۔ اب امریکہ میں یہ خاتون ہی ان دونوں کی ‘Mom’ ہیں۔ یہ 72 سالہ خاتون خود پی ایچ ڈی ہیں۔ پورے 30 برس جاب بھی کر چکی ہیں۔ اب ایک ریٹائرڈ لائف گذار رہی ہیں۔ اور اِس عمر میں بھی 10 کلو میٹر واک اور 8 کلومیٹر سائیکلنگ اِن کا روزانہ کا معمول ہے۔ یعنی زندگی سے ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london


ان سب بچوں کے لئے ڈھیروں دعائیں، جبکہ ہماری لینا کے لئے خصوصی دعائیں! اللہ کرے، یہ بچی اپنی سکِلز اور اپنے علم و دانش کو اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں کھپا سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply