آلو بخارے چار ہیں۔۔۔سلیم مرزا

منصور حسین موٹر سائکل چلاتے جس انداز میں ٹریفک اور رشتوں کو یکجان کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندرون لاہوریے، اندرونی معاملات پہ کافی گہری نظر رکھتے ہیں ۔
میں اس کے پیچھے بیٹھا اکثر سوچتا ہوں کہ ابھی جس شخص کی ہم سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ گئی اس کی ماں کی بریکوں کا اس میں کیا قصور تھا؟
بغیر اشارہ دئیے مڑنے والی کار والے کی بہن کے انڈیکٹر ٹھیک کروانے سے کیا وہ اشارہ دے کر مڑے گا؟
خود منصور کی اپنی موٹر سائیکل کی مسنگ کا تعلق مکینک کے باپ کا پلگ شارٹ ہونے سے ہے ۔۔

ابھی میں انہی  سوالوں کے گئیر بدل رہا تھا کہ منصور میکلوڈ روڈ کی ایک نکر پہ رک گیا ۔۔
دکان کے باہر بہت سے لوگ اسٹیل کے ڈونگوں میں چمچ کھڑکا کھڑکا کر کچھ پی رہے تھے۔ لاہوریوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کھڑاک کے بغیر ان سے محبت بھی نہیں ہوتی ۔
منصور انتہائی پھرتی سے اتر کے گیا اور دس منٹ میں دو ڈونگے “شربت روح کھچ “نکال لایا ۔میں نے اس سے اسٹرا کی موجودگی میں چمچ کا مصرف پوچھ لیا ؟
اس نے انتہائی عاقلانہ نظروں سے مجھ جاہل کو دیکھا اور بتایا
“یہ آلو بخارے کا شربت ہے، آلو بخارا اس کی تہہ میں سانس  روکے چھپا ہوتا ہے ”
اس کے کہنے پہ میں نے تہہ میں چمچ گھمایا تو دو آلو بخارے نکلے ۔۔
منصور کھلکھلا کر ہنس دیا
“شکر کرو چار نہیں نکلے ، ورنہ تمہارا کردار مشکوک ہو جاتا ”
شربت پینے کے بعد آلو بخارے مجھے اور میں نے آلوبخاروں کو شرمندگی سے دیکھا ۔۔مگر کھایا نہیں ۔

گوجرانوالہ والے گردے کپورے صرف ٹکاٹک کی صورت کھاتے ہیں ۔میں کامونکی سے ہوں ۔میری بدمعاشی اور عیاشی محض گردے خراب کرنے تک ہے ۔
بھلے وقتوں میں جی ٹی ایس اڈہ گوجرانوالہ میں پہلوانی شربت بکا کرتا تھا ۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا دور تھا ۔ان “ایام “میں لال لال بسیں سڑکوں کی رونق تھیں ۔اب تو خیر حکومت بانجھ ہوچکی ہے ۔
اس پہلوانی شربت کے ساتھ بھی چمچ کی تہمت تھی، اسٹرا نہیں تھا ۔
وہ شربت کم، کھانا زیادہ تھا ۔
اس میں وہ تمام اجزائے ترکیبی تھے جو حمل کے فوراً  بعد میکے سے زچہ کی ماں پنجیری کی شکل میں لاتی ہے ۔
چار مغز، گوندھ کتیرا، بادام، تخم ملنگا، اور اس ایٹمی فارمولے کو کھاکر آسانی سے نکالنے کیلئے اسبغول کا چھلکا ۔
میں نے اکثر لوگوں کو اسے دیوانہ وار کھاتے اور مردانہ وار پیتے دیکھا ہے ۔
اس، شربت کے زنانہ وار اثرات اب گوجرانوالہ کے نواح میں بڑھتی ہوئی ہاؤسنگ کالونیوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں ۔

سب سے مزے کی چیز اس شربت والے کے سائن بورڈز تھے، جن پہ مرحوم اور موجود پہلوانوں کی بڑی بڑی دستی تصاویر تھیں ۔ان تصاویر میں جہاں پہلوانوں کے مسلز نمایاں تھے وہاں لنگوٹ میں بھی دیسی غذاؤں کے واضح اثرات نظر آتے تھے ۔شربت کی فروخت کا تعلق مسلز سے کم اور لنگوٹ کے اندرونی مسائل سے زیادہ جوڑا گیا تھا ۔

کسی ناہنجار نے ڈی سی او سے شکائیت کی کہ خواتین کی گزرگاہ ہے
بس اڈہ ہے ۔۔اور ننگے پہلوان سراسر فحاشی کے زمرے میں آتے ہیں.۔۔ایک تو تھل تھل کرتے بالائی حصے خواتین کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں اور مردوں کیلئے لنگوٹ سے چھلکتی شرپسندی ناقابل قبول ہے ۔
چنانچہ بحکم حاکم ان پہلوانوں کے اوپر کپڑے کے ٹوٹے کیلوں سے ٹھونک دیے گئے ۔
اب پہلوان اتنے ننگے نہیں لگتے تھے، جتنے ننگے خیالات سے انہیں دیکھا جاتا تھا ۔
دور سے دیکھیں تو لگتا تھا پہلوانوں کا طائفہ حکومتی خرچے پہ عمرہ کر رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قوم کو ہر معاملے میں فحاشی نظر آتی ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے معاشی بدحالی کا، شکار حکومت نے رنجیت سنگھ کے مجسمے کی ذرا سی عیاشی کیا کرلی ۔ناہنجار ڈنڈے لے کر ٹوٹ پڑے ۔غریب کا کھجانے والا بازو توڑ دیا۔
کسی نے مشورہ دیا کہ جب وکی کا بازو ٹوٹا تھا تو چادر کی بکل مارے پھرتا رہا ۔۔اس پہ چادر ڈال دیں ۔
چنانچہ پندرہ اگست کو یوم سیاہ کے حوالے سے اس پہ کالا کپڑا ڈال دیا کہ احتجاج کا بھی ٹچ رہے ۔
کاش یہ قوم ہیروز کی قدر کرنا سیکھ لے ۔اچھی بھلی چلتی حکومت کو “چالو” سمجھ کر شور مچادیتے ہیں ۔
مجبورا ًان کا منہ بند کرنے کیلئے اس پہ ایکسٹینشن کا کالا کپڑا باندھنا پڑتا ہے ۔
شکر نہیں کرتے کہ تہہ میں چمچ پھیرنے سے ابھی دو آلو بخارے نکلے ہیں ۔چار نکل آتے تو منہ چھپاتے پھرتے ۔۔
ویسے منصور کا خیال ہے کہ آلو بخارے چار ہی ہیں ۔ہم اتنے کھوچل ہو چکے ہیں کہ محسوس نہیں کرتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply