بلوچستان کے عوام ابھی تک جون 2013 کے ہونے والے دل خراش واقعے کے صدمے کو نہیں بھول پائے تھے، جس میں لشکر جھنگوی کی جانب سے یونیورسٹی طالبات کو لے جانے والی بس کو خودکار ہتھیاروں سے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس حملے کے نتیجے میں 14 طالبات شہید اور 19 زخمی ہوگئے تھے۔ اب تک ان معصوم طالبات کی اذیت اور کربناک چیخ و پکار اور آہ و بکا کی گونج بھی نہیں تھم پائی تھی، اور اہلِ بلوچستان طالبات کے اس سفاکانہ قتلِ عام کے درد ناک واقعے کے غم سے باہر نہیں نکل سکے تھے کہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کے حالیہ دل دہلا دینے والے واقعہ کی صورت بلوچستان کے عوام پر ایک اور قہر نازل ہوا۔
سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی کینٹین میں غیر معیاری کھانا کھانے کی وجہ سے 200 کے قریب طالبات فوڈ پوائزن کا شکار ہوگئیں۔ جنھیں انتہائی تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ جن میں سے 2 طالبات زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اہلِ بلوچستان کو پھر ایک دفعہ سوگ کی سیاہ رات نے آن گھیرا ہے۔ ایک دفعہ پھر اس سرزمین کے لخت جگر کسی ظالم کی سفاکی کی وجہ سے موت کی گود میں چلے گئے۔ والدین کے دلوں میں درد کی نہ ختم ہونے والی ٹیسیں پھر سے اٹھنے لگیں۔
کون ہے جو اس درد کا مداوا کرے۔ اس ماں کے درد کو کیسے کم کیا جائے جو پچھلے کئی مہینے سے اپنی بچی کی راہ تک رہی ہے کہ اس کی بچی کب یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر کے آئے گی، اس آس کے ساتھ کے اپنے بچی کے ہاتھ پیلے کرے۔ سردار بہادر خان یونیورسٹی کا واقعہ اپنی نوعیت کا انتہائی درد ناک واقعہ ہے۔ اس واقع سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طالبات کو غیر معیاری کھانا دیا جاتا رہا۔ جن کے باعث یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا۔
بلوچستان پہلے سے تعلیمی پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہے۔ جہاں تعلیمی تناسب انتہائی کم ہے اور خواتین کا تعلیمی تناسب تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس پسماندہ صوبے میں جہاں قبائلی نظام کی مضبوط گرفت ہے۔ بچیوں کو یونیورسٹی سطح تک تعلیم دلانے میں کئی دشواریاں آڑے آتی ہیں۔ چوں کہ بچیوں کو گھر سے دور تعلیم کے حصول کے لیے بھیجنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام فرسودہ قبائلی رسم و راج سے لڑ جھگڑ کر، لوگو ں کے لعن طعن کا سامنا کرتے ہوئے بچیاں یونیورسٹی تک پہنچتی ہیں۔
ایسے میں پے در پے ایسے واقعات کا جنم لینا جس سے کئی طالبات کی ہلاکت ہوئی ہے۔ جو یونیورسٹی بس پر دہشت گردانہ حملے کی صورت میں ہوئے ہوں یا غیر معیاری کھانا کھانے سے فوڈ پوائزنگ ہونے کے باعث ہوئے ہوں۔ کہیں ایسے واقعات والدین کے حوصلے پست کرنے کا باعث بن کر ان کے دلوں میں ان کی بچیوں کے غیر محفوظ ہونے کا ڈر پیدا نہ کریں جو ان بچیوں کی تعلیم پر پابندی کی صورت میں سامنے نہ آ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بلوچستان میں خواتین کی تعلیم پر کاری ضرب کی مانند ہوگا۔
حکومت کی جانب سے اس واقعہ کی مکمل تفتیش کر کے ان عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہیے جو سردار بہادر خان یونیورسٹی کی کینٹین میں غیر معیاری کھانے کی فراہمی کی غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں جو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں