مکالمہ اور میں۔۔۔ہمایوں احتشام/مکالمہ سالگرہ

“مکالمہ” آن لائن میگزین حقیقی معنوں میں غیر جانبدار میگزین ہے۔ ورنہ ناچیز نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ میگزینز اپنے ہم مسلک لوگوں کے مضامین شائع کرتے ہیں، تو کچھ اس وجہ سے ہم لوگوں کی تحریریں ہمیں واپس لوٹا دیتے ہیں کہ “جناب کمیونسٹوں کے مضامین چھاپنا ہماری پالیسی کا حصہ نہیں۔” ان لوگوں نے جناب کامریڈ فیدل کاسترو صاحب پر بے بنیاد الزامات کے انبار لگائے، ہم نے سیرحاصل جواب تحریر کرکے بھیجے، تو مجھ سمیت ایک اور کامریڈ کی تحریر شائع کرنے سے انھوں نے معذرت کرلی۔

ایسے میں ہمارے کامریڈ، عزیز دوست اور بڑے بھائی کامریڈ انعام کی اس کاوش نے نزد مرگ آن لائن اردو صحافت کو نئی زندگی بخشی اور غیر جانبداریت کو اپنا طرہ امتیاز بنایا۔ باوجود اس کے کہ انعام بھائی کمیونسٹ نظریات کی جانب کافی رجحان رکھتے ہیں، انھوں نے کافی سارے لبرلز اور سرمایہ داری نواز مذہبیوں کے مضامین بھی شائع کیے۔ (تحریک انصاف کا یوتھیا بننے پر ان سے سنجیدہ قسم کے سوالات کا جواب ہم خود طلب کرلیں گے، اور آپسی نظریاتی مباحث میں اس موضوع پر انکا موقف بھی لیں گے۔) ۔۔۔

اب آتے ہیں ہمارے اور مکالمہ کے تعارف کی جانب۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ میری اور کامریڈ انعام رانا کی پہلی شناسائی شدید قسم کی جھڑپ سے ہوئی۔ میں ایک کامریڈ سے ایک پوسٹ  پرایک نظریاتی موضوع پر بات کررہا تھا، ایسے میں انعام بھائی کہیں آٹپکے، اور اس موضوع پر انھوں نے درست نقطہ نظر رکھا جو مجھے برا لگا، میں نے انعام بھائی کو برملا بحث سے نکل جانے کو بول دیا۔ یہ اس وقت کی سرگزشت ہے جب میں مطلق جاہل ہوتا تھا (اب بھی صرف انجینئرنگ مکمل ہونے کی بناء پر مطلق لکھنا چھوڑا ہے، ورنہ جاہلت بدرجہ اتم اب بھی موجود ہے)۔ انعام بھائی خاموش ہوگئے، اور میں جاہلانہ تفاخر کے ساتھ اپنی فتح کے شادیانے بجانے لگا۔ ایسے میں میرے استاد کامریڈ مشتاق علی شان کا اس پوسٹ سے گزر ہوا، جب انھوں نے میری جاہلت کا ایسا برہنہ روپ دیکھا تو فوراً فون پر کال گھما دی اور اتنی سرزنش کی کہ میں شرمندہ ہوگیا اور استاد جی نے کامریڈ انعام سے فوراً معافی مانگنے کا حکم صادر کیا۔ ایک تو استاد کا حکم اور دوسرا اندرونی شرمندگی کا احساس۔ ہم نے انعام بھائی سے معذرت کرلی۔ انھوں نے کمال شفقت سے میری معافی کو قبول کیا اور میرا بچگانہ رویہ سمجھتے ہوئے درگزر سے کام لیا۔ پھر ایسا تانتا بندھا کہ انعام بھائی نے زبردستی تحاریر لکھوانا شروع کردیں۔ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا وہ اپنی حد تک بائیں بازو کا موقف بھی لکھتے اور ہم لوگوں سے بھی کمیونسٹ نظریات کے  مطابق اپنا نقطہ نظر “گلے پر انگوٹھا رکھ کر لکھواتے۔” یہ فقط ان کی ہم سے محبت اور سوشلسٹ نظریات سے رغبت کی بناء پر ہی تھا۔

پھر یہ ہوا کہ انعام بھائی اپنے دفتری اور دوسرے مسائل میں الجھتے گئے، اور تحاریر لکھوانے میں وہ “بزور طاقت” عنصر بھی مفقود ہوتا گیا، دوسرا مجھ سا سست الوجود ڈھونڈنے سے بھی نا ملے۔
پھر ایک بار میں نے مظلوموں کی محبت سے لبریز تحریر لکھی۔ “میں تم سے محبت نہیں کرسکتا۔” اس تحریر کا دندان شکن جواب مجھے ایک محترمہ نے دیا۔ جواب نے مجھے لاجواب کردیا۔ اور وہ محترمہ تھیں اسما مغل۔ اسما مکالمہ  کی ایڈیٹر ہیں، اور پتا نہیں کیا ہیں۔ کرارے جواب دینے میں انتہائی مہارت رکھتی ہیں، اس لیے چیف صاحب آپ کے منہ نہیں لگنا۔ اپنی تحریر کا جواب پڑھ کر میں نے دل کڑا  کر اسما کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی، ان کا شکر گزار و ممنون ہوں کہ اپنی دوستوں کی فہرست میں انھوں نے مابدولت کو شامل کیا۔ اب وہ بھی انعام بھائی والا کردار ادا کرتی ہیں، مجھے مضمون لکھنے کو کہتی ہیں، میں حامی بھرتا ہوں اور سست الوجودی کے ہاتھوں مجبور ہوکر نہیں لکھ پاتا۔ وہ دوبارہ بازپرس کرتی ہیں اور میں پھر سے اپنی کم فرصتی کا بہانہ صادر کردیتا ہوں۔ اب وہی ہیں جو میرے مضامین کو شائع کرتی ہیں، انھی کو تحریر میسنجر کی اور شائع ہوگئی۔ ای میل یا مکالمہ ویب سائٹ پر بھیجنے کا جھنجھٹ اسما نے ختم کیا جس پر میں ان کا دوبارہ سے شکرگزار ہوں۔

یہی دو لوگ میرے لیے تو کل مکالمہ ہیں۔ باقی ایڈیٹرز صاحبان سے شناسائی نہیں اور نا کبھی متعرف ہونے کی زحمت پڑی۔ جیسے میری تمام ہمدردیاں اور حمایت ریال میڈرڈ کے ساتھ رونالڈو کی وجہ سے تھی، ایسے ہی میرے لیے مکالمہ مکرم و محترم انھی دو شخصیات کی بناء پر ہے۔ تاہم انعام بھائی نے فیس بک پر مکالمہ کرنے کی جو داغ بیل ڈالی ہے، اس نے بہت سے لوگوں بشمول مابدولت میں برداشت کا مادہ پیدا کیا ہے اور دوسرے کو سننے کی روایت کو پروان چڑھایا ہے۔ مکالمہ نے گالی گلوچ اور مغلظات کا در بند کرکے برداشت اور اختلاف رائے کی عزت کی جو ہندوستانی روایت پھر سے زندہ کی ہے، ہم اس پر مکالمہ کے شکرگزار ہیں اور ان کے اس قدم کو نوآبادیاتی نظام کی پیدا کردہ تعفن کی بیخ کنی کرنے میں معاون و مددگار سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کی دوسری سالگرہ انعام بھائی اور اسما مغل ،اور تمام ایڈیٹرز  کو بہت بہت مبارک ہو، دعا گو ہوں کہ مکالمہ ایسے ہی شدت پسندی کی جڑیں کاٹنے اور مہذب سماج کو مزید مہذب کرنے کی  جانب بلا رکاوٹ بڑھتا جائے اور ترقی پسند اخلاقی روایات کو معاشرے کی اساس کا حصہ بنائے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply