مقبوضہ کشمیر :ایک درد بھری داستان

میں محتاجِ تعارف نہیں، میں ایک نوجوان ہوں.۔میرا تعارف بس یہی ہے کہ میں کشمیرکا رہنے والا ہوں ۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے میری اولین ترجیح میرا تعلیمی کیرئیر ہے۔ تعلیم فی الحال میرا مقصد بن چکی ہے اور اس مقصد کے لیے میں کبھی سکول میں رہا ،کبھی کالج میں ایام گزارے اور اب ایک مدت تک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں۔ تعلیم کی وجہ سے میں کبھی کبھار گھر جا پاتا ہوں، کیوں کہ اپنے علاقے سے پڑھائی کے سلسلے میں مجھے شہر کا رخ کرنا پڑا اور ہر دن یونیورسٹی سے نکل کر گھر پہنچنا مشکل تھا ،اس لیے میں نے ترجیحی بنیادوں پر فی الحال اپنا عارضی جائے مسکن تبدیل کر دیا ۔گھر والوں سے دور، اقرباءو احباب سے دور۔ پڑھائی خوب سے خوب تر ہو رہی تھی، امتحان سر پر آچکے تھے،کہ اچانک وادی کے حالات زیادہ بگڑ گئے ، اس قدر بگڑ گئے کہ ہر روز دو دو، چار چار نوجوانوں کا بے گناہ لہو ارض کشمیر کو تر کر رہا ہے۔ بندوقوں کے دھانے،پیلٹ گن کی گنگناہٹ، ٹیئر گیس اور پیپر گیس کی وجہ سے کشمیر میں جیسے اندھیرا چھا گیا،. پیلٹ گن جو ایک ایسا ہتھیار کشمیر کے لوگوں پر استعمال کیا جا رہا ہے کہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت ہند مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل کو شاید آنکھوں کی بصارت سے ہی محروم کردینا چاہتی ہے،کیوں کہ بے لگام فوج اور مقامی کشمیر پولیس نے اس کا اس قدر راست استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ واضح ہو رہا ہے کہ اُن کا مقصد کیا ہے۔
گولیوں کی تو بات ہی نہیں،گولی کا دوسرا نام ہی تو موت ہے،جس کا استعمال یہاں مقبوضہ وادی کشمیر میں آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ہو چکا ہے۔جس کا مشاہدہ اور تجربہ کم از کم ہر کشمیری کو ہے۔. وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ گولی کے کون سے ”فائدے“ ہیں۔ گولیاں چلنے کا سلسلہ تو خصوصا ًحالیہ ۲۸ برسوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ گولیاں نہ صرف بھارت کی فوج کی جانب سے چل رہی ہیں بلکہ نہتے عوام پر جو کہ اپنا پیدائشی حق ”حق خود ارادیت“ مانگتے ہیں۔ میں نے بھی بہت کچھ دیکھا ہے کہ کس طرح یہ گولی چل کر انسان کی موت کا سبب بن جاتی ہے…. اور آج بھی دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح اس گولی کا اشارہ ملتے ہی لاشوں کے ڈھیر زمین پر گر جاتے ہیں۔ گولی تو اب پرانی باتیں ہیں آج تو پیلٹ اور ”پیلٹ“ کے ساتھ ساتھ ”پاوا“ بھی چلنے کے احکامات آگئے ہیں۔اس پر جس قدر بھی بھارت کی مرکزی سرکار اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی مخلوط سرکار کا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ بہرحال ان حالات میں میرے ہاتھوں کل تک جو قلم تھا پتا نہیں وہ قلم مجھے کیوں نظر نہیں آتا…. ہر طرف یا تو اندھیرا ہی اندھیرا چھا چکا ہے یا میری آنکھوں کی بصارت ہی کہیں کھو چکی ہے۔ کتاب سے کیا پڑھوں،قلم کا کیا کروں، سکول کیسے جاﺅں،لیپ ٹاپ اور قیمتی موبائل کا استعمال کیونکر کروں،کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ میری وادی کے بچوں کو ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ”بچوں کو سڑکو ں پر نہیں سکولوں میں ہونا چاہیے“ ”بچوں کو امتحانات کی تیاری کر لینی چاہیے“ تو دوسری جانب سکولوں اور کالجوں کو فوجی چھاﺅنیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
بچے سڑکوں کے بجائے سکولوں کا رخ کرتے لیکن ان کی آنکھیں اور ان کے شہر کے اندھیرے پن کا علاج کون کرے؟ وہ سکول جاتے لیکن فوج ،پولیس اور حکومت کی خارجی و داخلی دھمکیوں کا کیا کرےں؟ حال اور مستقبل پر اندھیرا چھا چکا ہے اور بات ہو رہی ہے روشنی کی،کشمیر جل رہا ہے اور بات ہو رہی ہے پیٹرول کے چھڑکاﺅ کی، لاشوں کی لاشیں ارض کشمیر کو تر کر رہی ہیں اور بات ہو رہی ہے نوجوانوں کے کیرئیر کی۔کشمیر ی زمین اور کشمیری لوگوں سے محبت کے دعوے کرنے والے اصل میں کشمیر کی سرزمین سے سچ مچ محبت کرتے ہیں لیکن کشمیری لوگوں کی محبت کا انہیں کوئی خیال نہیں،اگر انسانیت کے ناطے کشمیر کے لوگوں کی محبت ہوتی،تو کشمیر کو اس طرح تاراج نہ کیا جاتا، اگر کشمیریوں سے سچی محبت ہوتی تو فی الوقت کشمیر جس قدر جل رہاہے پر پانی کے بجائے پیٹرول کا چھڑکاﺅ نہ کیا جاتا،کشمیر کے حالات پر ایسے تبصرے نہ کئے جاتے۔
میری تعلیم جو میرا مقصد عظیم بن چکی تھی فی الحال دور دور تک کوئی ایسے آثار نظر نہیں آرہے ہیں کہ دوبارہ مجھے مزید تعلیم کاموقعہ مل جائے، کیوں کہ میں ایک ایسانوجوان ہوں جو اندھیرے پن کا شکار ہو چکا ہے…. میری آنکھوں سے آنسو بھی بہتے ہیں میں کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہا ہوں…. میرے ہاتھوں میں ”مصنوعی اور لفاظی لیپ ٹاپ “تھمانے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن مجھے ایک بیکار مشین محسوس ہو رہی ہے…. اندھیرا جب چھا جاتا ہے تو ایک بڑی اور عظیم نعمت کا احساس ہو جاتا ہے۔آج میں محسوس کر رہا ہوں کہ آنکھوں کی روشنی کس چیز کا نام ہے۔بھارت نواز کئی نیتا (لیڈران )کہتے ہیں کہ میں کتابوں کا علم نہیں بلکہ پتھر بازی کا علم سیکھ رہا ہوں، میں پڑھنے نہیں بلکہ فوج اور پولیس پر پتھراﺅ کرنے جا رہاہوں،میں کشمیر کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہوں، میں ٹافی اور چاکلیٹ نہیں بلکہ فوجی اڈوں پر حملہ کرنے نکل چکا ہوں۔ایسے بے شمار نام حکومت ہند اور کٹھ پتلی مخلوط سرکار کی طرف سے آج مجھے دیےجا رہے ہیں …. میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر میں سنگ باز ہوں، عسکریت پسند اور شرپسند ہوں،اگر میں صرف پانچ فیصد ہوں تو میری وجہ سے ۹۵ فیصد لوگ شکارکیوں ہو رہے ہیں؟ جب میں پانچ فیصد امن میں بدامنی پھیلانے کا باعث بن رہا ہوں تو ۹۵فیصد لوگوں پر یہ قہر کیوں؟ اگر اس پانچ فیصد کا کوئی وقار نہیں، اگر اس پانچ فیصد کا کوئی وزن نہیں، اگر اس پانچ فیصد سے کوئی فائدہ کی امید نہیں، تو کم از کم اس ۹۵فیصد کی تو سوچو ،جو بقول آپ کے امن ،جمہوریت، ترقی اور خوشحال کشمیر کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر پانچ فیصد کو الگ کیا جائے تو ۹۵فیصد سے ہی پوچھ لو کہ کس امن کی بات کر رہے ہو؟ کس خوش حالی، کس جمہوریت، کس ترقی کی سوچ رہے ہو؟ ان ۹۵فیصد لوگوں میں یہاں کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مائیں اور بہنیں بھی ہیں،ان سے ذرا پوچھو تم کیسا امن چاہتی ہو؟ کس ترقی وغیرہ کی طلب گار ہو؟ نابالغ اور دودھ پیتے بچوں کا خیال تو کرو ، وہ بھی انہی ۹۵ فیصد لوگوں میں تو آتے ہیں، ان کا تو احساس ہو گا،ان کے احساسات کو پرکھ کر ان کی ننھی ننھی زبان سے تو سنو کہ وہ بلک بلک کر کیا کہہ رہے ہیں؟
دراصل ان کی ان بے تکی باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو بات تھی لیکن ان باتوں میں کوئی سچائی ہے ہی نہیں۔
باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو نوجوان بیٹے کے بدلے ۷۵ برس کے بزرگ باپ اور ۷۰ برس کی ماں کو پیلٹ اور گولی کا شکار نہ کیا جاتا…. بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے ان کے لیے راہ کے کانٹوں کو ہاتھوں سے اٹھایا جاتا تاکہ ان جیسے بزرگوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے…. اگر باتوں میں سچائی ہوتی تو ۷۵برس کے بزرگ پر سیفٹی ایکٹ کی تلوار نہ گرتی…باتوں میں کسی بھی حد تک کوئی سچائی ہوتی تو سرینگر سے تعلق رکھنے والے عرفان احمد جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اور گھر کا ایک ہی کمانے والا سہارا تھا کو راست نشانہ بنا کر ابدی نیند نہ سلایا جاتا…. باتوں میں سچائی ہوتی تو آٹھ برس کے بچے کو پیلٹ کا شکار نہ کیا جاتا۔ باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو خواتین کا احتجاج نہ نکلتا اور اگر نکلتا بھی تو اس پر بے تحاشا اور اندھا دھند طریقے سے ٹیر گیس، پیلٹ اور گولیاں نہ چلتیں۔ ان کو زدو کوب نہ کیا جاتا۔
حقیقت کچھ اور ،بیان بازی سے کچھ اور ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پتھر بازی کا بہانہ بنا کر، پانچ فیصد کا ڈراما رچا کر، لیب ٹاپ کا مصنوعی چاکلیٹ کھلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم کشمیر کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ کشمیر کی زمین ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگ بھی ”ہمارا انگ“ ہیں اور اپنے اس انگ کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سب دکھاوا ہے،سب جھوٹ ہے،سب ایک دھوکہ ہے .، جس کے کشمیر کے لوگ بارہا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اس بار بھی شاید اسی دھوکے کے لیے نئی نئی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ نئے انداز اورنئی بوتل میں پرانی شراب کا کاروبار ہو رہا ہے۔ اقوام عالم کو یہ کہہ کر شاید خاموش کرنے کی ایک کوشش ہو رہی ہے کہ کشمیر میں امن قائم ہو رہا ہے…. سب کچھ صاف دھوکہ دکھائی دے رہاہے…. !بے لگام فورسز اور پولیس کی زیادتیوں سے چنگیزیت کی بو آرہی ہے…. مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا تجربہ جانوروں پر نہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں پر کیا جا رہا ہے، اور جب عالمی برادری کی طرف سے ”بیان بازی کی حد تک ہی سہی“شور اٹھتا ہے تو پیلٹ کے بدلے پاوا کا اعلان کیا جاتا ہے…. لیکن دھوکہ…. صرف دھوکہ…. نہ ہی پیلٹ گن بند کیا جاتا ہے اور نہ ہی پاوا سے واپسی کا اعلان، بلکہ دونوں مہلک ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ان حالات میں ،کشمیری طالب علم جو اب آنکھوں کی بصارت سے بھی گیا اور مالی و جانی نقصان سے بھی دوچار ہو گیا…. جو اب اپنا خواب پورا کرنے سے بھی رہ گیا اب کرے تو کیا کرے۔ انسانیت، جمہوریت، امن اور ترقی کا درس دینے والے ان الفاظ کے معنی سے بھی شاید نابلد ہیں۔
اے کاش! سوچنے والے سوچتے کہ انسانیت کا درس کیا ہے۔ انسانیت کہتے کسے ہیں۔ تو مجھے میرا حق ضرور مل جاتا۔ مجھے میری روشنی کا مینارہ حاصل ہو جاتا۔مجھے میرا حق ”حق خودارادیت“ کا موقع مل جاتا ۔میں بتا دیتا کہ میں کیا ہوں اور کیا نہیں۔میں دکھا دیتا کہ میں کس کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتا ہوں. میں بتا دیتا کہ ۵۹ اور پانچ فیصد کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اے کاش….!

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply