نواز شریف کا سقہ اور عمران خان کی اشتراکیت

جب مغل بادشاہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے مقابلہ میں شکست ہوئی تو اس نے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے دریائے جمنا میں اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ شومئی قسمت سے گھوڑا ڈوبنے لگا اور بادشاہ کی جان خطرہ میں پڑ گئی۔ اس وقت نظام نامی ایک سقہ نے اپنی ہوا سے بھری ہوئی مشک کا سہارا دے کر ہمایوں کو حفاظت سے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔ جب ہمایوں کی بادشاہت دوبارہ بحال ہوئی تو اس نے نظام سقہ کو منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا۔ نظام نے ڈھائی دن کی بادشاہت کی خواہش ظاہر کی اور ہمایوں نے اسے تخت پر بٹھا دیا۔ اپنی اِس مختصر سی حکومت کے دَوران میں اْس سے اور تو کچھ خاص نہ ہوا بجائے اسکے کہ اس نے شہر میں چمڑے کے سکّے چلوا دئیے جن کے بیچ میں سونے کی کیل جڑی ہوئی تھی۔ جو اس کی وجہ شہرت بنی۔
بالکل اسی طرح جب نواز شریف جیل میں تھے اور جان کے لالے پڑے ہوۓ تھے اس وقت نواز شریف کو بچانے اور اسکے دفاع میں چوہدری نثار بھی پیش پیش تھے۔ مشرف کی آمریت کے دور میں کئی آفرز ہوئیں ان کو ٹھکرایا اور صرف نواز لیگ کے ساتھ ثابت قدمی دکھائی۔ نواز شریف اپنی ہر تقریر میں چوہدری نثار کی تعریفوں کے پل باندھا کرتے تھے۔ اپنی جان سے عزیز کہتے تھے ۔ لیکن اقتدار کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آ ج ڈھائی دن کی وزارت عظمی ٰبھی دینے کو تیار نہیں ۔ حکومت کی آئینی مدت کے کی تکمیل تقریباً 10،11 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اگر اس عرصے کے دوران چوہدری نثار کو وزیر اعظم بنا دیا جاۓ تو کیا کر لے گا؟
نواز لیگ کی اندرونی صفوں میں یہ ڈر ہے کہ اگر نثار جیسا بندہ وزیراعظم بنا تو وہ کوئی ایسا کام کر جاۓ گا کہ تاریخ کے اوراق میں امر ہوگا۔ جب جماعتیں خاندانی وراثت ہوں گی تو ایسا ہونا کوئی اچنبھا نہیں ہے۔ لیکن شائد ان کو ڈر ہے کہ مستقبل قریب میں مریم نواز کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔
دوسری جانب عمران خان ہیں جنہوں نے اپنی ساری سیاست مثالیت پسندی کے اردگرد کی لیکن ایک دم سے اشتراکیت پسندی ان پر غالب آ گئی ۔ دوسری جماعتوں کے کرپٹ اور نااہل لوگ بڑی دھوم سے تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کے وہ لوگ شامل ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے پی پی کا پاکستانی سیاست سے دن بدن پتہ صاف ہورہا ہے۔ ابھی تک ٹائیگرز نذر محمد گوندل کی شمولیت کا دفاع نہیں کر پاۓ تھے کہ اب خان صاحب مخدوم شہاب الدین کو شامل کرنے جارہے ہیں۔ یہ وہی مخدوم صاحب ہیں جن کو گیلانی کی ناہلی کے بعد وزیراعظم بنانے کی تیاریاں تھیں، لیکن ایفیڈرین کیس کی وجہ سے نہ بن سکے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کو اس بابت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کرپٹ افراد کو جماعت میں شامل کرنے سےنشستیں تو بڑھیں گی ،لیکن جماعت کا بنیادی منشور فوت ہو جاۓ گا۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply