وادیء کرب

رات کی گہری خاموشی اپنے اندر شہر کی روشنیوں کو گھولتی جا رہی تھی۔ سرد ہوا، ہلکے بادل، اور کچھ ستارے۔۔ بے چاند راتوں میں تنہائی کی سسکیاں بہت دلفریب ہوجاتی ہیں ۔۔شہر کی جلتی بجھتی روشنیوں سے دور ایک پرانی بوسیدہ امارت کی کھڑکی سے اندھیرے میں ایک سرخ روشنی کا دھبہ گھٹتا بڑھتا دکھائی دیتا۔۔کانچ کے بکھرنے کی چیخوں سے رات کی بے نیاز خاموشی میں شگاف پڑا۔۔سرخ دھبہ گر گیا۔۔ کانچ کے کچلنے کی آواز ابھری اور کچھ دیر بعد سیڑھیوں پر مدھم قدموں کی چاپ ابھری ۔۔

چھت پرقدموں تلے خوں کے نشان بنےجاتے تھے، لیکن اس کو ا ب شاید فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ درد محسوس کرنا بھول چکا تھا، کہ اب تک جسم وذہن کا تعلق باقی تھا، مگر اس کے اردگرد بسے وادی کے درمیان شہر کی بہارافروز فضائیں کب کی باد صبا کے قصوں کو بھول چکی تھیں۔۔وہ ہو ا اب دردبھری آہوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی تھی، اس کی سانسیں خون کی مہک کی عادی ہو چکی تھیں، اور شاید ا ب یہ مہک ہی تو تھی۔۔چھت کے ایک کونے پر کھڑے اس نے پھر ایک سگرٹ سلگایا ، او ر اندھیرے میں سرخ دھبہ ٹمٹمانے لگا۔۔ دھویں سے ہوا کے خون کی تاثیر گاڑھی سی ہو جاتی۔۔اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بڑے سے خنجر پر ٹھنڈی انگلیاں پھیر یں، جیسے اپنے وجود کی تصدیق کر رہا ہو۔۔سرد ہاتھ ریلنگ پر رکھ کر وہ دور بازار سے پار دیکھنے لگا۔۔اس کو بمشکل قبرستان دکھائی دیتا تھا۔۔ ..شاید وہی میرا گھر تھا..۔۔ اس کو اپنے ہاتھ میں اور ریلنگ میں کچھ فرق محسوس نہ ہوا۔۔ کیا میں مر چکا ہوں؟ ۔۔ وہ سرد پڑتا جا رہا تھا۔۔ جیسے وہ نعش جو اسے پچھلے ہفتے بازار سے کچھ باہر ایک میدان میں پڑی ملی تھی۔۔ وہ جوان لڑکی کا جمتا ہوا جسم۔۔اور وہ پتھروں کے نیچے بکھری ہڈیاں۔۔

وہ سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا۔۔سڑک پر سرخ دھبہ آگے بڑھتا دکھائی دیتا۔۔ اس کا وجود اور تھا بھی۔۔ ایک دھبہ۔۔کچھ دیر جو ٹمٹمایا۔۔ اور کسی کے پیروں تلے آکر بجھ گیا۔۔ وہ قبرستان کی طرف جا رہا ، وہی قبرستان جو ایک ہفتے پہلے تک ویران میدان سمجھا جاتا تھا ، رات کے وقت وہاں کوئی نہ جاتا تھا کہ لوگوں کو وہاں سے چیخوں کی آوازیں آتی تھیں، دل ڈوبتا تھا، سانس رکتی تھی۔۔ایسے ہی شاید کتنے لوگ وہاں دبتے ہوئے تڑپے ہوں گے۔۔شاید اسی درد کی روح اس ماحول میں اس بھیانک جرم کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کو چیختی تھی۔۔وہ بڑھتا جا رہا تھا، کہ اس کو اپنے پیچھے بھی قدموں کی آواز آئی۔۔ وہ بھول چکا تھا کہ کرفیو نافذ تھا۔۔ پر اب کیا فرق پڑتا تھا۔۔وہ ننگے پاؤں خون کے نشان بناتا اس میدان تک آ پہنچا۔۔اب بچے کچے ستاروں کو بھی بادلوں نے لپیٹ لیا تھا۔۔ ہلکی ہلکی بوندیں برسنے لگیں۔۔

اس کی آنکھیں سوکھ چکی تھیں، پر شاید بادل اس کے لیے اب ماتم کر رہے تھے، وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔ قدموں کی چاپ صاف سنائی دیتی تھی۔۔ ا س کو معلوم تھا وہ اس کے پیچھے کھڑا ہے۔۔ پر اب فرق بھی کیا پڑتا تھا؟ اس نے سگرٹ نیچے چھوڑا، پیچھے سے ایک غصیلی آواز ابھری۔۔ وہ پیچھے نہ مڑا، اور ہاتھ اپنے سر کے پیچھے باندھ دیے۔۔دو پل کے لیے رات کی بے نیاز خاموشی میں دوبارہ شگاف پڑا اور وہ منہ کے بل گر گیا۔۔ فوجی بوٹوں کے قدم دور ہونے کی آواز آئی ، خون اشکوں کے ساتھ مٹی میں جذب ہونے لگا۔۔اوروہ سر خ دھبہ بجھ گیا۔۔۔۔
صبح کے اخبار میں اس کی ایک تصویر کے ساتھ خونخوار ملیٹنٹ کے مارے جانے کی خبر تھی۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ہندستانی مقبوضہ کشمیر میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بے نشان اجتماعی قبریں موجود ہیں۔ ان قبروں میں بچے بوڑھوں مردوں عورتوں کی سینکڑوں نعشیں ایک ساتھ ملتی ہیں۔ یہ نا صرف ہندستانی فوج کے گھناؤنے جرم و جبر چھپانے کے لیے ہیں بلکہ یہ وحشت انگیز مقامات کشمیری آبادی پر ایک خاص ذہنی عذاب کے لیے تیار کیے گئے ہیں جس کے تحت سوچنے، بولنے اور احساس رکھنے والوں کو یہ منظر دکھا کر شعوی طور پر پارہ پارہ کیا جا سکے۔

Facebook Comments

حسنات شیخ
لکھاری، بلاگر، سماجی کارکن.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”وادیء کرب

Leave a Reply