سیاسی دہشت گرد

“پاکستان ٹوٹ جائے گا؟”نامی کتاب، جس کے مصنف جناب منیر احمد ہیں 400 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو تخلیقات لاہور نے 1996 میں شائع کیا۔ مصنف نے تخلیق پاکستان سے شروع ہونے والے سیاسی انتشار اور اقتدار کی رسہ کشی پر غیر جانبدار دارانہ بحث اور سیاسی قیادت اور ملٹری اسٹبلیشمنٹ کے رویوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔1996 میں سیاسی کشمکش عروج پر تھی اور سول حکومتیں آئے روز آٹھویں ترمیم کا شکار ہورہی تھیں۔ بینظیر بھٹو اقتدار کی مسند پر بیٹھتی تو نواز شریف حکومت جانے کی پیشنگوئی فرما دیتے اور جب نواز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے بینظیربھٹو ارشاد فرما ہوتیں کہ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام اور سازشوں کے اس دور میں مصنف جناب منیر احمد نے یہ کتاب تحریر کرکے کنگ میکرز کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی کہ اِسی رسہ کشی کے نتیجے میں ہم پہلے بھی آدھا ملک گنوا چکے ہیں۔پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورِحکومت میں ایک حد تک سیاسی گرما گرمی رہی, ماسوائے آخری ایام میں جب “سیاست نہیں ریاست”بچانے کے نام ایک جتھہ اسلام آباد میں دھرنا دیتا ہے لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تو اس بات کی امید ہوچلی تھی کہ اب شاید ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیا ہے اور سیاسی طور پر ایک بالغ نظر قوم بننے کی طرف چل پڑے ہیں۔
گزشتہ چار سالوں سے ملک سازشوں اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ دھاندلی کے نام پر دھرنا پارٹ ون ایک سازش تھی، اس پر شک کا اظہار ہر طرف کیا جارہا تھا اور کیا جاتا رہے گا کیونکہ بعض واضح اشارے موجود تھے!پانامہ کا ڈرامہ گزشتہ ڈیرھ سال سے جاری ہے۔ طرفین کی جانب سے ہر قسم کی الزام تراشی و جُگت بازی کا ایک سرکس جاری ہے۔ الیکڑانک میڈیا پر ہر شام فریقین مرغوں کی طرح لڑ رہے ہوتے ہیں۔
کیا پانامہ کے علاوہ ملک میں کوئی اور مسئلہ ہے ہی نہیں؟ آپ میری رائے سے سوفیصد اختلاف کریں!لیکن! پانامہ کا یہ قصہ شریفوں کے ماضی کی داستانیں نہیں؟
کس نے کب، کہاں اور کیسے لین دین کیا اور لوٹ کھسوٹ کی؟ اب تک کوئی واضح ثبوت طرفین کی جانب سے سامنے نہیں آسکا!سب چیزیں ایک طرف!یہاں کس کا ماضی پاک صاف ہے؟سیاسی دہشتگردی میں ملوث تمام سیاستدان ایک دوسرے کو درسِ پارسائی دے رہے ہوتے ہیں!
سیاست کے اس حمام میں سب ننگے ہیں!کون جنرل ضیاءالحق کا نظریاتی وارث ہے؟ اور کون جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے کے وارث ہیں؟ کون جنرل پاشا کی مانو ہے؟ تو کئی آئی ایس آئی سے رقوم لینے کے مجرم ہیں!جب ہماری قومی سیاست ہی آمروں کے زیر سایہ پروان چڑھی ہو تو پھر آپ کس طرح کسی ایک پر الزام عائد کر سکتے ہیں؟کرپشن کی وہ کون سی داستان ہے جو ہم نے آج تک نہ سنی ہو؟کس کی کرپشن آج تک پکڑی گئی اور کس کی پوشیدہ ہے؟کس طرح کسی ایک کو مجرم اور دوسرے کو معصوم قرار دے سکتے ہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں شریفوں کو سپورٹ کررہا ہوں!تو جب کوئی اور عمران خان کو سپورٹ کرتا ہے تو اس کے “پلے بوائے”ماضی پر آنکھیں بند کیوں کرلیتا ہے؟
مریم نواز کو گندی گالیاں دینے والے ریحام خان، جمائما گولڈ سمتھ، سیتا وائٹ اور ان جیسی کئی حسیناؤں کے ماضی و حال پر خاموشی کیوں اختیار کرلیتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ عمران کرپٹ نہیں!
کرپٹ نہیں؟؟؟ تو کیا وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترتا ہے؟
کرپٹ تو سراج الحق بھی نہیں!!! سپریم کورٹ تو کہہ چکی ہے کہ 62 اور 63 پر صرف سراج الحق ہی پورا اترتا ہے تو پھر کیوں جماعت اسلامی کو سپورٹ کرنے سے ڈرتے ہو؟
ہماری قوم کا المیہ کہ “یہ کسی کو پیر نہیں مانتی اور جب کسی کو پیر مان لیتی ہے تو پھر اس کی کسی برائی کو نہیں مانتی”یہاں ہر کسی کے اپنے اپنے پیر ہیں!اور وہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہیں!ملک کس طرف جارہا ہے؟خطے کی فوجی، سیاسی و اقتصادی صورتحال کیا رُخ اختیار کررہی ہے؟دُنیا کس مقام پر پہنچ چکی ہیں؟کس کو فکر کرنے کی ضرورت ہے؟ بس!
گلی گلی میں شور ہے!
تیرا پیر چور ہے!
نہیں!
تیرا پیر چور ہے!
یہ پیر و مرشد اور ان کے حواری ڈریں اس وقت سے جب مصیبت آن پہنچے اور تب بھی یہ پیر اور ان کے مریدین ایک دوسرے کو گالیاں نکال رہے ہوں گے!!
آج فیصلےاسلام آباد سے ہوسکتے ہیں اور جب یہ قوت راولپنڈی کی طرف مڑ گئی تو پھر سب کی شکلیں دیکھنے والی ہونگیں!!
اور خدا کرے ایسا وقت کبھی نہ آئے!!

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply