اعلان ہو کہ انصاف کو مسترد کیا جاتا ہے۔۔۔

ادارے کو زیب نہیں دیتا تھا کہ اس طرح نوٹیفکیشن مسترد کر دیے کیوں کہ اس سے جمہوریت کی نفی ہوتی تھی۔ اور بطور ادارہ جتنا محترم پاک فوج کا ادارہ ہے۔ جس قدر لوگوں کے دلوں میں اس ادارے کی عزت ہے اس پہ حرف آ سکتا تھا۔ اور اُس وقت”ریجیکٹڈ” پہ جتنے لوگوں نے خوشی منائی تھی وہ بھی درست نہیں تھی اور جنہوں نے واپسی پہ سوگ منایا تھا وہ بھی اپنے موقف میں حق بجانب نہیں تھے۔ میری نسل کا نوجوان فوج کو آئیڈیلائز کرتا ہے اور آج تک جتنی دفعہ بھی فوج نے حنان اقتدار سنبھالی ہے اس میں سے ہمیشہ مثبت نقاط کو ہی اپنے ذہن و دل کے گوشوں میں سجایا ہے۔ مگر اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں ہیں کہ اگر جمہوری لاری سیدھے راستے پہ چل نکلے تو اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ سیدھے راستے پہ چلنے کا ہے۔

حیرانگی اس بات پہ ہوتی ہے کہ کل جو لوگ مسترد کرنے کو جمہوریت کے خلاف سازش سے ملا رہے تھے۔ وہ آج مشترکہ تحقیقات کمیٹی کی رپورٹ کے مسترد کیے جانے کو جمہوریت کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ کل اگر جمہوریت پہ وار سمجھا جا رہا تھا تو آج انصاف پہ وار کیوں نہیں سمجھا جا رہا۔؟عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور حد تو یہ ہے کہ صحافت کے طالبعلموں کے لیے استاد کا درجہ رکھنے والے ایک لکھاری نے اس کیس کو چوالیس ارب کی کرپشن کے ایک اور کیس سے جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُس کے مقابلے میں کیوں کہ یہ کرپشن چھوٹی ہے اس لیے اس پہ زیادہ توجہ دینا شاید غلط ہے۔ مگر میں ایسے استاد لکھاریوں پہ حیران ہوں کہ کس دیدہ دلیری سے وہ کرپشن کو چھوٹا بڑا کر کے حق قلم ادا کرتے ہیں۔ کرپشن وہ بھی غلط ہے۔ اس میں جتنا ہی مضبوط شخص کیوں نہ ہو اس کی پکڑ لازم ہے اور کرپشن یہ بھی کم نہیں ہے کیوں کہ اس میں ایسے لوگوں کے نام گردش کر رہے ہیں جو اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اور یہاں پہ مثال”دودھ کی رکھوالی بلا” صادق آ رہی ہے اس لیے اس کرپشن سے بھی پہلوتہی نہیں کی جا سکتی ۔ چوالیس ارب کی کرپشن میں اداروں کی حرمت پہ حرف آیا ہے۔ اس کرپشن میں پاکستان کا نظم و نسق چلانے والوں کی عزت داؤ پہ لگی ہے۔ صاحب فرق تو ہے۔

وفاقی وزراء کی فوج ظفر موج، اور شاہ وقت کی صاحبزادی صاحبہ محترمہ آنسہ رپورٹ کو اس طرح مسترد کر رہے ہیں کہ جیسے”چور کی داڑھی میں تنکا” واضح ہو گیا ہو۔ ارئے بھئی ابھی تو رپورٹ پیس ہوئی ہے ۔ ابھی تو سپریم کورٹ نے اس کو دیکھنا ہے پھر کوئی فیصلہ دینا ہے۔ آپ نے تو مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اسے اپنی کامیابی سے گردانا تھا۔ اب یہ کیا ہوا؟ کہ خود ہی اس رپورٹ کو مسترد بھی کر دیا؟ کہیں ایسا تو نہیں افسر بے لگام ہو گئے تھے اس تحقیقاتی کمیٹی کے؟ آپ انصاف سے کیوں نا امید ہو گئے ہیں، رپورٹ ہی آئی ہے فیصلہ تو نہیں۔ اس رپورٹ کو سپریم کورٹ میں غلط ثابت کیجیے۔ اس کے شواہد پہ بحث کیجیے۔ مگر خدارا انصاف کو مسترد تو نہ کیجیے۔ یقین جانیے اس ملک کی عوام آپ کو دوبارہ سے ملک بدر ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مگر آپ اگر ایسا نہ چاہیں تو۔ رپورٹ کو تختہء مشق بنا لیجیے کہ یہ نہ صرف آپ کا حق ہے بلکہ اس کے ایک ایک نقطے پہ بحث لازم بھی ہے۔ مگر انصاف کو تختہء مشق نہ بنائیے۔ جس جمہوریت کی باندی کا رونا آپ روتے ہیں۔ انصاف کا بول بالا ہو گا تو وہی جمہوریت مضبوط ہو گی ۔ اعتراضات تو انصاف کا حصہ ہیں۔ ان اعتراضات کو پیش کیجیے، ان پہ بحث کیجیے، نئے شواہد پیش کر کے ان کو جھٹلائیے، اور عدالت عالیہ کو مجبور کیجیے کہ وہ فیصلہ آپ کے حق میں کرنے پہ مجبور ہو جائے (شواہد کی روشنی میں )۔

مگر اس طرح آپ درباریوں کی فوج ظفر موج کے ہاتھوں اور خود اپنے خوبصورت الفاظ سے اگر اس رپورٹ کی بنیاد پہ ہی اعلیٰ عدالت کے ممکنہ فیصلے کو ابھی سے مسترد کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کس منہ سے کہہ پائیں گے کہ آپ نے جمہوریت کی سربلندی کے لیے کام کیا ہے۔ آپ اتنا سا پہلو سمجھ لیجیے کہ ایک دفعہ صرف باتوں کے بجائے اگر عدالت عالیہ میں اس رپورٹ کے خلاف آپ ثبوت پیش کر دیں تو تا عمر باقی آپ کی خلاصی ان الزامات سے ہو سکتی ہے۔ قصور وار بھی ثابت ہو جائیں تو جمہوری لاری میں نئے ٹائر لگوائیں، نیا انجن لگوائیں، اور خلوص کی ہیڈ لائٹس لگوا کر نئے سفر کا آغاز کر دیجیے۔ کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔ مگر ایسے انصاف کو مسترد کرنا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشیر آپ کو غلط بتا رہے ہیں۔ محاذ آرائی آپ کا وقار کم کر رہی ہے۔سازش کی چھتری تلے چھپ کر آپ اپنا گریباں ہی چاک کر رہے ہیں۔ غلطی ماننے کی روایت اگر آپ سے ہی شروع ہو جائے تو یقین مانیے پاکستان کی تاریخ میں آپ کا نام جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ تمام مشیروں کو کچھ لمحے کمرے سے نکال کر اپنے دل سے پوچھیے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اگر اعلیٰ عہدوں پہ متمکن لوگ ذاتی جائیداد و اثاثوں کو فہرست سے باہر رکھ کر حق سمجھ رہے ہیں۔ تو کل کلاں اگر عوام بھی کہہ دیں کہ ہم ذاتی جائیداد پہ ٹیکس کیوں دیں تو آپ کے پاس کیا جواب ہو گا؟ وہ بھی تو کہہ سکتے ہیں ہم نے کون سا کرپشن سے بنایا ہے یہ ہماری محنت کی کمائی ہے۔ کل جو”ریجیکٹڈ” کا لفظ آپ کو جمہوریت کے لیے زہر قاتل لگ رہا تھا ۔ اُسی”ریجیکٹڈ” لفظ و رویے کو انصاف کے لیے زہر قاتل نہ بنائیے۔ اُن کا مسترد کرنا جمہوریت کے خلاف سازش اور آپ کا مسترد کرنا انصاف کے خلاف سازش ہے ،فرق زیادہ نہیں ہے۔ اگر سوچا جائے تو۔
کہیں پہ پرواز ہے بلند ، کہیں پر بھی جلتے ہیں
میں کیسے پھڑپھڑاؤں، ہر جا شکنجے بکھرے ہیں!

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply