سادگی کا چونا۔۔۔۔۔ طارق احمد

ملکی سیاست کے وہ نابالغ لونڈے لپاڈے جو فیس بک کی دیواریں پھلانگتے اور ٹاپتے ،ان دیواروں سے ہمسائیوں کے گھروں میں تانک جھانک کرتے اور مخالفین کو گالیاں نکالتے جوان ھوے۔ انہیں نہیں معلوم۔ پاکستان میں سب سے پہلے سادگی کا چونا جنرل ایوب نے 1958 میں قوم کی آنکھوں میں پھیرا تھا۔ شادی بیاہ میں بڑی بھابی دیور کی آنکھ میں سرمہ لگاتی ھے۔ ھمارے جنرل ایوب خان سرد جنگ کا یہ سرمہ امریکہ بہادر کی آنکھ میں لگا کر پرائ شادی میں بھنگڑے ڈال رھے تھے۔ اور پاک سرزمین پر سرخ ریچھ کے شکار کے لیے امریکی ٹام، ڈک اور ھیری کو فضائی اڈے مہیا کر رھے تھے۔ اور ملک دولخت ھونے کی بنیاد رکھ رھے تھے۔ جبکہ دوسری جانب ملکی گلیوں اور نالیوں میں چونا پھینک کر بھولی قوم کو آرے لگا رکھا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک لطیفہ مشہور ھے۔ ایک شخص نے صبح اٹھ کر کھڑکی سے باھر جھانکا تو اس نے دیکھا نالیوں پر چونا پھینکا گیا ھے۔ اس نے اخبار کے دفتر فون کرکے تصدیق چاھی ۔ کیا ملک پر مارشل لا نافذ ھو چکا ھے۔ سادگی کا یہ چونا دو مواقعوں پر لگایا جاتا ھے۔ ایک جب مارشل لا لگتا ھے۔ اور دوسرا جب فوج کے نیچے سول حکومت بنتی ھے۔ دکھوں اور ناآسودہ خواہشوں کی ماری قوم سادگی کی اس چونا مار مہم سے بہت جلد متاثر ھوتی ھے۔ یہ قوم اپنے دکھوں اور تکلیفوں کا ذمہ دار بڑے بڑے افسروں، حکومتی عہدے داروں اور سیاستدانوں کو سمجھتی ھے۔ کم از کم مطالعہ پاکستان میں انہیں یہی بتایا گیا ھے۔ چناچہ جب کوئ فوجی آمر یا نیم فوجی سول حکومت سادگی کے نام پر ان افسروں اور حکومتی عہدے داروں کی نام نہاد مراعات واپس لیتی ھے۔ یا انہیں محدود کرتی ھے۔ تو یہ قوم ایک کمینی قسم کی خوشی میں مبتلا ھو جاتی ھے۔ دفتری اوقات میں ھیر پھیر کرکے جو ایک گھنٹے کا فرق ڈالا جاتا ھے۔ اس گھنٹے کو قوم انقلابی قدم سمجھتی ھے۔ اور اس فوجی یا نیم فوجی گھنٹے کو چوم چوم کر نہال ھو جاتی ھے۔ یاد رھے یہ گھنٹہ ستر سالوں سے پاک سیاست میں اھم سماجی کردار سر انجام دے رھا ھے۔ اسی طرح سائیکل کی سواری سب پر بھاری ٹھہرتی ھے۔ وہ ادھیڑ عمر لوگ جو رومان پسندی میں نسیان کی بیماری یعنی بھول جانے کے مرض میں مبتلا ھو چکے ھیں ۔ انہیں یاد دلانا چاہیے ۔ کہ ھمارے دوسرے فوجی آمر اور عظیم اسلامی فاتح جنرل ضیاءالحق بھی سائیکل کے بڑے دلدارہ تھے۔ سادگی کی مہم پر عمل کرتے ھوے اس فوجی آمر نے پورے روٹ پر کرفیو لگا کر اپنے دفتر تک سائیکل چلائ تھی۔ اور ھمارا میڈیا، اکلوتا ٹی وی اور پوری قوم خوشی اور مسرت کے مارے پاگل ھو گئ تھی۔ سادگی کے چونے میں پاگل پن کی شمولیت مرض کو لا علاج بنا دیتی ھے۔ اوپر سے اینٹی کرپشن کا تڑکا سونے پر سہاگہ ھے۔ پچھلے چار پانچ سال سے ھمارے ایک انقلابی لیڈر قوم کو یہ بتا کر انسپائر کر رھے تھے۔ کہ ڈنمارک کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتا ھے۔ حالانکہ اس کے لیے جنرل ضیاءالحقی مثال ھی کافی تھی۔ ابھی تک اس انقلابی لیڈر کا سائیکل چلانے کا انتظار ھے۔ تاکہ روپے روپے کی ویلیں دے کر قومی خزانے کو بھرا جا سکے۔ سائیکل کے علاوہ گورنر ھاوسز کو ختم کرنا اور وزیراعظم ہاوس کو یونورسٹی اور لائبریری میں تبدیل کرنے کا پروپیگنڈہ دکھی قوم کی اسی کمینی خوشی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جا رھا تھا۔ اب یہ قوم فیس بک پر تاویلیں دے کر اپنے جھلے ھونے کا مزید ثبوت دے رھی ھے۔
چونے اور سائیکل کے علاوہ سادگی کے آزمودہ نسخوں میں چھوٹی کاروں کا استعمال اور بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی بھی شامل ھے۔ جونیجو کی نیم فوجی حکومت نے سب سے پہلے افسر لوگوں کی کار یافتہ مراعات پر پابندی لگا کر ننگی بھوکی قوم کا تن ڈھانپنے کی کوشش کی تھی۔ ضیاءالحق بڑا خرانٹ جنرل تھا۔ اسے معلوم تھا۔ اس قوم کو اسلام اور سادگی کے نام پر کس طرح لولی پاپ دیا جا سکتا ھے۔ چناچہ تڑکے کے طور پر جونیجو کو یہ اجازت بھی دے دی گئ تھی کہ وہ جرنیلوں کو بھی 800 سی سی کی گاڑیوں پر بٹھا دے۔ جرنیلوں اور ججوں کو چھوٹی کاروں پر بٹھانے کی اجازت ابھی تک نئے پاکستان کے معمار کو نہیں ملی۔ یوں سادگی کی اس چونا مار مہم میں ابھی تک پرانے پاکستان کا جونیجو ھی فسٹ آتا ھے۔
سادگی کی موجودہ چونا مار مہم میں گھنٹوں اور چھٹیوں کے ھیر پھیر ، بڑی کاروں اور سرکاری ریسٹ گھروں کی فروخت، فرسٹ کلاس ھوائ ٹکٹوں پر پابندی، مخصوص طیاروں اور مخصوص بیماریوں کے بیرون ملک علاج پر پابندی جیسے رومانی اقدامات کا اضافہ کر دیا گیا۔ قوم کو یہ نوید بھی سنائی گئ ھے۔ وزیراعظم صرف دو ذاتی نوکر رکھیں گے۔ جن کا کام بوٹ پالش کرنا اور چمکانا ھو گا۔ جبکہ پہلے وزرائے اعظم کوئ چھ سو کے قریب ملازمین سے خدمت کرواتے تھے۔ جن میں مٹھی چاپی، سر کی چمپی، ٹانگوں پر لتاڑا، انگلیوں کے پٹاخے نکلوانا، کمر کے دور دراز حصوں پر خارش کروانا ، آنکھوں کی گد نکلوانا، کانوں سے میل نکلوانا، دانتوں میں خلال کروانا ، پنیوں کی تیل مالش کروانا، ناک کے بال کھنچوانا اور جسم کے غیر ضروری بال اتروانا جیسے قومی کاموں کے لیے الگ الگ نوکر رکھے ھوے تھے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم ھاوس کا ایک ملازم وزیراعظم کی جگہ چھینک مارتا تھا۔ ایک ملازم وزیراعظم کے ڈکار لیتا تھا ۔ جبکہ گیس اور خراٹوں کے معاملات ملٹری سیکرٹری کی ذمہ داری تھے۔ لیکن موجودہ وزیراعظم کی سخی طبیعت کی وجہ سے وزیراعظم ھاوس کے کسی ملازم کو نہیں نکالا گیا۔ اور چھ سو ملازم ویلے بیٹھ کر تنخواہیں وصول کریں گے۔
ایک اندازے کے مطابق پرانی بڑی گاڑیوں کو بیچ کر ملکی قرضہ اتر جاے گا۔ اور سادگی کی باقی چونا مار مہم سے خزانہ لبا لب بھر جانے کے امکانات ھیں ۔اس رقم سے بعد میں نئ بڑی گاڑیاں خریدنے کے روشن امکانات نظر آتے ھیں ۔ کچھ ایسی ھی خرید و فروخت جونیجو کے دور میں بھی ھوئ تھی۔ اس خوش خبری پر قوم خوشی کے شادیانے بجا رھی ھے۔ جنرل ضیاءالحق نے تو صرف اسلام کا نفاذ کیا تھا لیکن ھم تو مجسم قوم مدینہ کی اسلامی ریاست میں داخل ھو چکے ھیں ۔ اور قلقاریاں بھرتے نو نہال قوم ایک دوسرے کو مبارک دے رھے ھیں ۔ لے رھے ھیں ۔ اور کچھ تو بے حال ھو کر ایک دوسرے کی چمیاں بھی لے رھے ھیں۔
جس طرح جنرل ایوب نے قوم کو سادگی کا چونا لگا کر سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح جنرل ضیاء نے قوم کو سادگی اور اسلام کا لولی پاپ چوسنے پر لگا کر ھاٹ وار میں امریکہ کی جنگ لڑی تھی۔ جنرل مشرف یہی خدمت وار آن ٹیرر میں سر انجام دیتا رھا ۔ ان تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ھوتا ھے۔ جب آپ کو سنجیدہ قومی ایشوز پر بات کرنے اور پالیسیاں بنانے کی اجازت نہ ھو۔ ان ایشوز کو قوم سے چھپانا مقصود ھو۔ تو پھر آپ کو سرکاری گاڑیاں بیچنے، سرکاری ریسٹ ھاوسز بیچنے، فرسٹ کلاس میں سفر نہ کرنے، ھفتے اور اتوار کی چھٹی کرنے، خصوصی طیارہ استعمال نہ کرنے، اور سادگی اختیار کرنے جیسے مخولیہ نان ایشوز پر لگا دیا جاتا ھے۔ اس سے ھلچل بھی نظر آتی ھے۔ مثالیت پسند نابالغ بھی خوش رھتے ھیں۔ اور سنجیدہ ملکی و معاشی و علاقائی و بین الاقوامی مسائل کی جانب نظر بھی نہیں جاتی۔ اور اسٹیبلشمنٹ ان ایشوز پر اپنا ھولڈ قائم رکھتی ھے۔ صاف نظر آنے لگا ھے۔ حکومت کی یہ تبدیلی اسی لیے کی گئ ھے۔ تاکہ ایک تو اسٹیبلشمنٹ اس حکومت سے اپنے وہ تمام مالی و ادارہ جاتی مطالبات منوا سکے جو نواز حکومت پورے نہیں کر رھی تھی۔ جیسے ریلوے، سی پیک، بجٹ کے علاوہ فنڈز، اختیارات پر قبضہ، یمن، ایران، سعودی عرب، بھارت، افغان، امریکہ اور دھشت گردی پر پالیسیاں ، اب یہی دیکھ لیں ۔ پہلے ھفتے ھی بھارت کے ساتھ امن مذاکرات اور امریکہ کے ساتھ دھشت گردی کے معاملات کو لے کر حکومت اور وزیراعظم کی ساکھ اتنی خراب کر دی گئ ھے۔ کہ اب کون سا ملک ھے جو سول حکومت کے ساتھ بات چیت کرے گا۔ یہ پیغام دیا گیا ھے۔ کہ ان معاملات پر اگر گفتگو کرنی ھے تو رائٹ فورم اسٹیبلشمنٹ ھے۔ اور ھمارے وزیراعظم کو پہلے ھفتے ھی یہ بھی معلوم ھو گیا ھے۔ وہ کونسی قوت ھے۔ جو وزیراعظم سے بالا بالا ھی فیصلے کر لیتی ھے اور سویلین محکموں سے اس کا اعلان بھی کروا دیتی ھے اور وزیراعظم کو محض قومی و بین الاقوامی شرمندگی اور خجالت کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔ جب ھمارے کچھ دوستوں کی آنکھوں سے سادگی مہم کا چونا اترے گا ۔ تو انہیں معلوم ھو گا۔ پان میں چونا تیز ھے۔ اور زبان کٹ رھی ھے۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply