زلزلہ اور ہمارا فکری رویہ۔۔۔قیصر عباس فاطمی

کیرالہ میں سیلاب پر ہندو واویلا کر رہے ہیں کہ یہ آفت دراصل گائے ماتا کے قتل عام کی وجہ سے آئی ہے۔ خیر یہ بات کافی دنوں سے خبروں کی زینت بن رہی ہے، دوسری طرف ایران میں زلزلہ آیا ہے۔ جس میں کافی جانی و مالی نقصان پہنچا۔ میں ہندوؤں کے عقیدے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور پھر یہ ایران والی خبر بھی آ گئی تو مجھے اپنے کالج کے دن یاد  آ گئے۔ سکول سے پڑھائی مکمل کی اور کالج کی ہوا کھانے کا موقع ملا۔ کالج کے پرنسپل نے شاید بہت سے مضامین میں ماسٹرز لیول کی ڈگریاں لے رکھی تھیں، اور اسلامیات سے ان کو خاصا لگاؤ  تھا۔ زیرو پیریڈ اسلامیات کا ہوتا، جس کو درس کا نام دیا گیا تھا ۔ اور کالج کے تمام سٹوڈنٹس کو درس میں لازمی شریک ہونا ہوتا تھا۔ پرنسپل صاحب وہابی اور سنی عقائد کے درمیان کا کوئی عقیدہ رکھتے تھے۔ شاید اس کے پیچھے بھی مصلحت  رہی  ہو گی۔ تاہم شیعہ کے بارے ان کا نظریہ وہی تھا جو لاعلم اور عام پاکستانی لوگوں کا ضیاء کے بعد سے ہے۔
ان دنوں بھی ایران میں زلزلہ  آیا  تھا جس میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کی خبر تھی۔ پرنسپل صاحب کے درس کا موضوع حالات حاضرہ اور اسلامیات دونوں پر ایک ساتھ بات کرنا تھا۔ ایران کے زلزلہ سے متعلق انہوں  نے اشارتاً کہا کہ جس زمین پر زنا ہو گا اس پر زلزلے آئیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے قرآن کی کچھ آیات اور چند احادیث کو ساتھ جوڑ ڈالا۔ اور ساتھ  ہی اپنے معاشرے کا بھی ذکر کرتے گئے کہ ایک بار لاہور سے اسلام آباد سفر کرتے ہوئے کس طرح وہ بس میں “فحش” فلم دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ میں نے سوال پوچھا، کہ پھر بس کیوں نا الٹ گئی؟ تو استاد محترم نے زنا کی قسمیں بتا ڈالیں۔ کہ آنکھوں ، کانوں، ہاتھوں وغیرہ کے زنا میں فرق ہوتا ہے۔
“سوچنا” ہمارے معاشرے میں ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ یہ بات میں ایک لاکھ بار بھی کہوں تو حق رکھتا ہوں کہ اس جرم میں بہت کچھ کھونا پڑا۔ اکتوبر 2005 کے ہولناک زلزلے تک مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ زنا یا گناہ سے ہی زلزلے آتے ہوں گے۔ مگر جس طرح معصوم بچوں کی لاشیں دیکھیں کم از کم اس بات پر سے “ایمان” اٹھ گیا کہ یہ آفتیں گناہوں کی سزا ہیں۔ اور وہ سب حوالے مشکوک ہو گئے جو ہمارے قابل پرنسپل  اور دیگر  لوگ فطری مظاہر کو بیان کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
میں نے کالج کے دور کی بات بتائی ہے، سکول میں کیا سکھایا جاتا ہے اس کا کیا؟ کیا ایک بچہ جسے ہم ایک کتاب میں زمین کا چھپکلی یا کچھوے یا بیل کے سینگ پر قائم ہونے پر ایمان رکھنے کو بھی بولیں اور پلیٹ ٹیکٹانکس تھیوری بھی پڑھائیں اور ساتھ میں مجبور کریں کہ اصلی بات چھپکلی والی ہے، اس کا پڑھنا، سوچنا، اور آگے بڑھنا معاشرے کے لئے کوئی فائدہ دے سکتا ہے؟ یا پھر زلزلوں کی وجہ زنا اور معاشرتی گناہ بتانا اور وہ بھی دسیوں کتابوں  سے حوالے دے دے کر، اور پھر توقع رکھنا کہ وہ جیوسائنٹسٹ بنے گا۔ یا پھر اسے یہ بتانا کہ آفات اور حادثات سب ہمارے برے کاموں کا نتیجہ ہیں، بس وہ کام چھوڑ دو باقی سب ٹھیک ہو جائے گا تو کیا واقعی سب ٹھیک ہو جائے گا؟ جن قوموں نے مسائل کو براہ راست سمجھنے کی کوشش کی وہ ان کو حل کرنے، ان پر قابو پانے میں بھی سبقت لے گئی ہیں۔ ہم البتہ ابھی بھی تہہ در تہہ اور مرحلہ بہ مرحلہ مغالطوں میں مبتلا ہیں۔ زلزلے پر سوچنے والے لاوے کے جگر تک پہنچ جائیں گے، اور ہمارا سماج بھی کوئی ایسی وجوہات دریافت کرلے گا جس سے  آخر میں پتہ چلےگا کہ یہ زلزلہ تو اس وجہ سے آیا ہی نہ  تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply