کالا باغ ڈیم! کیا حقیقت، کیا افسانہ؟۔۔ڈاکٹر حفیظ الحسن

پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے دریا ہے۔ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ جی ڈی پی کا 23 فیصد زراعت پر ہے۔ 42 فیصد لوگوں کا روزگار زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً 150 ڈیم ہیں۔ انہیں بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈیم دراصل دریا کے راستوں میں بنائے جاتے ہیں۔ انکے ساتھ ایک مصنوعی جھیل ہوتی ہے۔ جن میں اونچے علاقوں سے آنے والے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ پانی جب اونچائی سے نیچے آتا یے تو اس میں موجود پوٹینشل انرجی ، حرکت کے کام آتی ہے۔ اسے ڈیموں میں موجود ٹربائنز کو حرکت میں لا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ ڈیم سے جُڑی کینالز میں ضرورت کے مطابق پانی چھوڑا جاتا ہے جس سے مخلف علاقوں کو پانی دے کر سیراب کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا تربیلا ڈیم، دریائے سندھ پر خیبرپختونخوا کے علاقے صوابی کے قریب تربیلا میں ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر 60 کی دہائی میں شروع ہوئی اور تین مراحل میں 1976 میں مکمل ہوئی۔ یہ ڈیم تقریبآ 35 سو میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے (مستقبل میں اسکی صلاحیت 6 ہزار میگاواٹ تک متوقع یے)۔ یہ ڈیم 1976 سے اب تک ملکی معیشت میں کئی ارب ڈالرز کا اضافہ کر چکا ہے اور کئی علاقوں کو سیلاب سے بچا چکا ہے۔
مگر رکیے 1976 میں اور ڈیم نے بھی مکمل ہونا تھا۔ اس ڈیم کا نام تھا کالا باغ ڈیم۔ پاکستان میں کالا باغ ڈیم ہمیشہ سے متنازع اور زیرِ بحث رہا ہے۔ اس ڈیم کے نہ بننے کے پیچھے کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں مگر حقیقت کیا ہے؟ اسکے لئے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
بات شروع ہوتی ہے 1953 سے یعنی آج سے تقریباً 60 سال پہلے۔ ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان میں ڈیم بنانے کے حوالے سے آتی ہے اور حکومت کو رپورٹ دیتی ہے کہ سب سے موزوں مقام جہاں ڈیم کی ضرورت ہے وہ دریائے سندھ پر میانوالی کے قریب کالا باغ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس ڈیم کو 1976 تک مکمل ہو جانا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کو ایندہ آنے والے خطرات سے بچایا جا سکے۔
اسکے بعد واپڈا نے پاکستانی اور بیرونی ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی جس نے کالا باغ ڈیم کی فیزیبلیٹی رپورٹ مرتب کر کے صوبوں کو پیش کی۔ جس پر اول صوبوں کی طرف سے کوئی اعتراض نہ اٹھا۔مگر ایوب خان کے دور میں کالا باغ پر تربیلا ڈیم کو فوقیت دی گئی۔ تربیلا ڈیم کا بننا بھی خوش آئند تھا۔ کیونکہ یہ ڈیم بھی ملک مے کئی مسائل کو حل کرتا تھا۔
1980 میں حکومت پاکستان کی درخواست پر ورلڈ بینک کے ماہرین کی ٹیم پھر سے پاکستان آئی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ، معاشی اور تکنیکی
حوالے سے محفوظ اور کارآمد پراجیکٹ ہے۔
1987 میں اسکی تعمیر کا تخمینہ لگایا گیا جو اس وقت کے مطابق تقریبا 3.5 ارب روپے تھا اور یہ ڈیم چھ سال میں مکمل اور اپریل 1993 تک فعال ہونا تھا۔
مگر اُس وقت کی حکومت اس پر سیاسی جماعتوں اور صوبوں کی مخالفت پر کوئی پیش رفت نہ کر پائی۔
1997 میں نواز حکومت نے اس منصوبے پر پیش رفت چاہی تو ایک بار پھر سے صوبوں کی طرف سے اعتراضات اُٹھے۔
پھر 2000 کے بعد مشرف دورِ حکومت میں اس پر بحث ہوئی۔ اسکی دوبارہ سے فیزیبلیٹی رہورٹ بنائی گئی جس کے مطابق کالا باغ ڈیم سے تقریباً 36 سو میگاواٹ بجلی اور کئی لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی تھی۔مگر صوبوں کے اعتراض سے یہ معاملہ پھر سے کھٹائی میں پڑ گیا۔
مانا جاتا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے کافی حد تک بجلی کے بحران، آبپاشی اور سیلاب کے نپٹا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کالا باغ ڈیم پر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کو اعتراض کیا ہے اور اس میں کتنی سچائی ہے؟
اس ڈیم پر سب سے زیادہ دو بڑے صوبوں خیبر پختواہ اور سندھ کو خدشات ہیں۔اسکے علاوہ بلوچستان کو بھی چند خدشات ہیں مگر وہ ذیلی ہیں۔ محض پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جسے اس ڈیم کے بننے پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کی 6 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین سیراب ہو سکتی ہے۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کی اُجارہ داری مزید بڑھے گی۔
اکالا باغ ڈیم پر کئی اعترضات جیسے کہ زیادہ بارشوں کے باعث پانی کے بلاک ہونے کی صورت واپس پیچھے کی طرف آنے اور نوشہرہ اور گرد و نواح کے علاقوں کا ڈوبنے کا خطرہ، غیر منطقی ہے کیونکہ اس حوالے سے کئی کمپیوٹر ماڈلزمیں یہ دیکھا گیا یے کہ بہتر ڈیزاین اور اونچائی کے فرق سے یہ مسئلہ نہیں ہو گا اسکے علاوہ دریائے سوات پر زیرِ تعمیر منڈا ڈیم بھی سیلاب کی صورت پیش آنے سے بچاؤ فراہم کرے گا۔ مگر کئی اور اعتراضات جیسے کہ سندھ کا صحرا میں بدلنا اور دیگر صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم ، بے گھر ہوئے افراد کو بہتر منتقلی کے ہیکجز، ماحولیاتی نقصانات وغیرہ اہم مسائل ہیں جو تکنیکی نہیں بلکہ قانونی، معاشی اور سیاسی ہیں۔ جن پر نہ صرف صوبوں کو بلکہ پوری قوم کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔
اس عمل کو مزید شفاف بنانے کے لئے صوبے اپنے اپنے ماہرین کی ٹیم جو تکنیکی، معاشی ماحولیاتی اور دیگر امور پر عبور رکھتی ہو، کی باقاعدہ نگرانی میں بین الصوبائی کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے۔ جسکی سفارشات صوبوں کی اسمبلیوں اور صوبوں کی عوام کے سامنے رکھے جائیں اور انکی منظوری کی صورت اس پر عمل درآمد وفاق کی ذمہ داری ہو۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر تقریباً 6.12 ارب ڈالر کا خرچ اٹھے گا مگر 2014 کی نسٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اس سے ہر سال ملک کو توانائی کی مد میں 4 ارب ڈالر جبکہ بہت سی زمین زیرِ کاشت آنے سے مزید اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔جس سے ملک میں آئندہ آنے والے سیلاب خوراک اور پانی کی قلت کے مسائل کو کم کیا جا سکے گا۔
مگر ضرورت شفافیت، عوام کے اعتماد، مضبوط سیاسی سوچ اور صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کی ہے۔

حوالاجات

1. Israr, M. (January 2014). Feasibility Study of Kalabagh dam Paki stan. Life Science Journal, 11 (9s), 462.
2. Nawaz, M . (July 2012) The Problems of Water Management in Diverse Society: A Case Study of KalabaghDamProjectin Pakistan. Journal of Public Administration and Governance Vol-1, No . 2, 224.
3. “Technical viability of the Kalabagh Dam: Wapda’s view”. Dawn News. They were published on November 29, 2004.
4. Adeel M. Mirza (April 2021), Water Storage Challenge of Pakistan: Reviving Kalabagh Dam. Islamabad Policy Research
5. Barkat A. Luna, Muhammad Jabba, KALABAGH – A SUPERIOR DAM
DESIGNERS’ VIEWPOINT, Pakistan Engineering Congress, 71st Annual Session Proceedings, Paper No. 668.

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply