مکالمہ کیسے کیا جائے۔۔۔ عامر ہاشم خاکوانی

(محترم عامر خاکوانی دائیں بازو کے لکھاریوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں مکالمہ کا رہنما اصول بیان کرتے ہیں۔ آپ دائیں بازو سے ہیں یا بائیں سے یا پھر لبرل؛ مہذب مکالمہ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ مضمون بشکریہ “دلیل” شائع کیا جا رہا ہے۔ ایڈیٹر)

چند دن پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیراہتمام میٹرک کے ایک پیپر میں ایک ایسا نامعقول سوال پوچھا جس نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ میں اس پر تفصیل سے کالم لکھنا چاہتا ہوں، اس لئے فیس بک پر کمنٹس کرنے سے گریز کیا ۔ ایک چیز مگر بڑی شدت سے محسوس کی کہ اس سوال سے ہمارے سماج میں پہلے سے موجود تقسیم واضح اور گہری ہوگئی۔ جہاں بہت سے لوگوں نے اس سوال کی مذمت کی ممتحن پر تنقید کی، اس ایشو کو متعلقہ حلقوں تک اٹھایا گیا، جس پر وفاقی وزیرمملکت بلیغ الرحمن نے نوٹس بھی لیا اور انکوائری کا حکم صادر کیا۔ ایک حلقہ البتہ ایسا تھا، جس نے بڑے زور شور سے اس سوال، ممتحن کی حمایت کی اور تنقید کرنے والوں پر طنزکے تیر برسائے ۔ اس کی تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ اس پر الگ سے لکھنا چاہ رہا ہوں۔ سردست تو میرا فوکس اس سوال پر اعتراض کرنے والا حلقہ ہے، یعنی وہ حلقہ جسے میں اون کرتا ہوں،اعلانیہ اس کا اعتراف کرتا اور اس کا دفاع کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رائیٹ ونگ کہہ لیں، دایاں بازو کہہ لیں، اسلامسٹ کہہ لیں یا پھردینی درد رکھنے والے، مذہبی نقطہ نظر رکھنے والا معتدل حلقہ سمجھ لیں، خاکسار اپنی تمام تر دنیا داری، دنیاوی خواہشات، نفسی کمزوریوں، نامہ اعمال کی سیاہی کے باوجود خود کو اسی کلب کا ایک ادنیٰ ممبر سمجھتا ہے۔ حزب اللہ ، اللہ کے سپاہیوں کا لشکر، جو اپنی تمام تر آرا ،فکر اور سوچ الہامی دانش سے اخذ کرے، جو اوریجنل ٹیکسٹ یعنی قرآن حکیم کو نظر کا سرمہ سمجھے، اسی سے دیکھنے کی کوشش کرے ۔
میرا روئے سخن بھی اسی حلقے کی طرف ہے، ان کی کمزوری میری کمزوری اور ان کی طاقت ہمیں اپنی قوت محسوس ہوتی ہے۔ پہلے بھی کئی بار دیکھا گیا، اپنی بساط کے مطابق تب بھی نشاندہی کی جاتی رہی، اس بار پھر شدت سے محسوس ہوا اوربڑی تکلیف ہوئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے رائٹسٹ دوست کسی بھی ایشو پر لکھتے ہوئے، کسی حملے کا دفاع کرتے ہوئے جذبات میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ شدت جذبات میں وہ غیر محتاط جملے لکھتے اور جوابی حملہ کرتے ہوئے کبھی دشنام پر اتر آتے ہیں۔ بدبخت لبرلز، بدبخت سیکولرز ٹائپ الفاظ کی مکالمے میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایک صاحب کا تبصرہ دیکھا، جس میں او خبیث سیکولرو، او شیطانو، او بےغیرت، آزاد خیال بریگیڈ، یہ سب کچھ تمہاری ملعون، حرام زادی ، نئی تہذیب اورخیبث روشن خیالی کا نتیجہ ہے ۔

میرے سمجھ سے باہر ہے کہ دینی مزاج رکھنے والا کوئی بھی شخص ایسی زبان کیسے استعمال کر سکتا ہے؟ ایسے جذباتی لوگ ہی رائٹسٹوں، اسلامسٹوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ، اسے غیر مشروط طور پر رد کرنا چاہیے ۔ میرے نزدیک سادہ سا ایک اصول ہے۔ ہم جو بھی لکھیں یہ سوچ کر لکھیں کہ کل کو ہمارے آقا، سرداروں کے سردار، سرکار مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ تحریر پیش کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے لگے گا۔ آپ کے چہرے مبارک پر خوشی کی لہر آئے گی، نورانی تبسم فرمائیں گے یا پھر عالی جناب کی منور پیشانی پر شکن آ جائے گی۔ بس یہی تاثر ہی ہر امتی کی خواہش ہونی چاہیے ۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اپنی صلاحتیں، اپنا ذہن ، اپنا وقت، اپنی جسمانی استعداد اس طرف کھپا رہے ہیں، اس کا واحد مقصد رب تعالیٰ کو خوش کرنا اور ہمارے نبی آخر الزماں کے امتی ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوںِ، ہماری ، ہمارے بچوں کی جانیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، شان کو بلند کرنے کے لئے کھپ جائیں۔ ہمارے نام ، ہماری عزت، ،شہرت کی واللہ مٹی کے اس زرے کے برابر اہمیت نہیں ہے جس کا مقدر اللہ کے آخری رسول کے نعلین مبارک تلے آنا تھا۔ صاحبو!اپنی تحریروں پر اس زاویے سے نظرثانی کیا کرو، اگر ایسا کیا جائے تو بہت کچھ کم کرنا پڑ جاتا ہے، کرنا پڑ جائے گا۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ ایسی بے اعتدالی اور بے احتیاطی ان سطور کے لکھنے والے سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے، اس کی شدید ندامت ہے۔

میری ناچیز رائےمیں ہمیں شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دلیل سے اپنی بات کہنی چاہیے۔ کسی ایشو پر ہماری جو بھی رائے بنی، اس کے حق میں یا رد میں، وہ دیانت داری کے ساتھ شائستہ اسلوب میں بیان کر دی جائے ۔ اس میں طعنے، زہریلے طنز، دشنام، جلی وخفی گالیاں قطعی طور پر شامل نہ ہوں۔ یہ ہمارا کام نہیں۔ ہم جس ورثے کے دعوے دار ہیں، اس میں ایسا کچھ نہیں۔ سیرت مبارکہ نے ہمیں مکالمہ کرنے کے ابدی اور سدا بہار اصول سکھائے ہیں۔ انہی کو سامنے رکھنا چاہیے ۔ ہمارے اکابر، ہمارے آئمہ ، فقہا، صوفیا، بزرگوں اورعلما حق سب نے اسی کو سامنے رکھا، اسی راستے پر چلے ۔ فیس بک کسی کو نئی رعایتیں نہیں دے سکتی۔ جب سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ جیسی بڑی ہستی کو دشنام کے جواب میں سخت جملہ کہنے کی رعایت نہیں مل سکی، ان کے اور ہمارے آقا، ان کے اور ہمارے مرشد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بروقت تنبیہہ کرکے اصلاح فرما دی۔ اصول تب طے ہوگیا کہ برداشت کی کیا حد ہے اور جواب کس قرینے میں دینا ہے۔

اس نامعقول سوال کی مذمت، اس پر تنقید اور دلیل کے ساتھ اسے غلط کرنا ہی کافی ہے۔ اس کی اجازت نہیں کہ ہم اس کے ممتحن کو بھی وہی طعنہ دیں، وہی بات کریں، جو ہمیں اپنی بہنوں کے لئے ناگوار گزری ہے۔ جس بات کو ہم لغو، فضول اور نامناسب سمجھتے ہیں، وہ دوسروں کے لئے کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ جس نے وہ سوال بنایا، جو اس سوال کا دفاع کر رہا ہے، ہمیں ان کی رائے سے اختلاف ہے، ہم دلائل کے ساتھ ان کے موقف کو غلط ثابت کریں گے۔ ایسے لوگ، ان کی بہنیں، گھر والے ہمارے لئے محترم ہیں، محترم ہونے چاہئیں۔ ہم یہ گوارا نہیں کرتے کہ کسی امتحان میں ہمارے بیٹوں کو یہ کہا جائے کہ اپنی بہنوں کی لکس، فزیک اور ہائیٹ وغیرہ کی تفصیل بیان کریں۔ اس انتہائی پرسنل سوال، پرائیویسی کے حوالے سے اس سوال پر ہی ہمیں گھن آتی ہے۔ اس پر ہم نقد کرتے ہیں، کرنا بھی چاہیے، مگر اس تنقیدی مضمون کے آخر میں دوسرے کو یہ بات کہنا بھی نامناسب ہے کہ آپ اپنی بہن کی فزیک، فکر ، لک کی تفصیل بیان کریں۔ یہ عامیانہ بات ہے، غیر شائستہ ہے، نامناسب ہے۔ اس سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔ جو بات جتنی ہے، اتنی کہی جائے، بس ۔

جس طرح اوپر عرض کیا کہ ہماری تحریر کا مقصد نفس کی تسکین، دلائل کی سرفرازی ، اپنے مسلک ، گروہ ، عقیدے کی فتح ہرگز نہیں ہے، ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنا ہمارا مقصد ہے۔ اللہ کے دین، اس کی اخلاقی قدروں، اسلامی مورل ایتھکس ویلیو سسٹم کا دفاع ہمارا مقصد ہے۔ اسی پر فوکس رہے۔ دلیل کے ساتھ مکالمہ کیا جائے اور دوسروں پر واضح کریں کہ ہمارے نقطہ نظر کے پیچھے کیا دلائل موجود ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ دوسرے کیمپ میں ممکن ہے ہمارے دلائل کا کوئی اثر نہ ہو، مگر ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو کسی خاص کیمپ یا حلقہ فکر کا حصہ نہیں ۔ وہ دونوں اطراف کے دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارا فوکس ان پر ہونا چاہیے ۔ وہ غیر جانبدار، معتدل ، سنٹر میں رہنے والے لوگ ہی بطور داعی ہماری دعوت، ہمارے کلام، ہمارے بیان کا مرکز ہونا چاہییں۔ اس امرکو کبھی ذہن سے نکلنے نہ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی یاد رکھیں کہ جنگ طویل ہے، بار بار معرکے لڑے جائیں گے، ایک دن کا قصہ نہیں ۔ جس نے اللہ کے لشکر کا حصہ بننا قبول کر لیا، وہ سمجھ لے کہ تا حیات اسے مستعد رہنا پڑے گا۔ بار بارغنیم کے لشکر اٹھیں گے، حملہ آور ہوں گے، ان سب کا ہر بار صبر، تحمل، برداشت اور حکمت سے مقابلہ کرنا ہے۔ شائستگی ہماری ڈھال ، اخلاق ہماری پہچان اور دلیل ہمارا ہتھیار ہے۔ ہمارے ترکش میں گالیوں کے تیر نہیں، کسی کے پاس ہیں تو انہیں توڑ کر پھینک دے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply