ہمارے ملک میں کچھ لوگ صرف نام کے لبرل یا ترقی پسند ہیں حالانکہ جس طرح کے بے سرو پا اور مضحکہ خیز تبصرے وہ مذہب اور فوج پر کرتے ہیں، ان کا شمار تنزل پسند طبقے میں ہونا چاہیے۔ جس طرح کسی مذہبی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا عقیدہ زبردستی نافذ کرے اسی طرح کسی لبرل کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے نظریات دوسروں کے سر پر زبردستی تھوپے۔ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں پر مثبت انداز سے تنقید کرنا اور بات، جبکہ ریاست کی سلامتی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر واویلا مچانا بالکل دوسری بات ہے ۔
آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دہشت گردی میں واضح کمی ہوئی ہے لیکن کچھ نام نہاد لبرلز پھر بھی فوج پر بھونڈے انداز سے تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی ان دو نمبر کمرشل لبرلز کو اس منفی اور لا حاصل تنقید کی جانب توجہ دلائے تو بے چاروں کے علم کی اوقات اتنی ہے کہ دلیل سے بات کرنے کی بجائے سامنے والے کو بوٹ پالشیا جیسے الفاظ بول کر تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اور فوج کے خلاف بالکل وہی زبان بولتے ہیں جو طالبان والے بولتے ہیں یعنی ایک لحاظ سے یہ طالبان کے ایجنڈے پر ہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خود ساختہ دانشوری کے خمار میں انہیں گراؤنڈ رئیلیٹی نظر نہیں آتی۔ یہ بھی باعثِ حیرت ہے کہ میاں صاحب کی کرپشن کی تہہ در تہہ پرتیں کھلنے پر کچھ ایسے کمرشل لبرلز نے بھی کمر کس لی ہے اور طالبان نواز مولویوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں اور وقفے وقفے سے مولوی کی بغل سے جھانکتے ہیں اور سازش سازش کی چیں چیں کرتے ہیں اور واپس بغل میں چھپ جاتے ہیں۔
اور بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ اسے جمہوریت سمجھ کر بچانا چاہتے ہیں تو صاحب آپ کا مطالبہ تو یہ ہونا چاہیے کہ کرپٹ وزیرِ اعظم استعفیٰ دے تاکہ تمام سازشوں کا دم گھٹ جائے اور صحیح جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکے۔میں کہتا ہوں کہ اگر ملک میں واقعی حقیقی جمہوریت آ گئی تو بہت سے کمرشل لبرلز کی دکانیں بند ہوجائیں گی کیونکہ اگر فوج کا اثرو رسوخ ختم ہو گیا تو پھر وہ طعنے اور کوسنے کسے دیں گے؟ کالمز میں اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرا کر صفحے کیسے کالے کریں گے؟ چنانچہ وہ نہیں چاہیں گے کہ کرپٹ سیاست دان پکڑے جائیں اور ملک حقیقی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہو ۔
لہذا لبرل دوستوں کو میرا مشورہ ہے کہ بِکاؤ مال کو چھوڑو اور اصلی لبرل کا فرق جان کر جیو !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں