تبلیغی خراٹے

سویڈن یورپ کا پرامن ترین، اور خوشحال ملک ہے جو شمالی یورپ میں نارتھ پول کے نزدیک واقع ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد باقی ملکوں کی نسبت کم ہے مگر خوش قسمتی سے یہاں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام جاری ہے اور اسی سلسلے میں سویڈش دارالحکومت سٹاک ہوم کے نزدیک واقع چھوٹے شہر نیشوپنگ میں سالانہ تبلیغی اجتماع کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس اجتماع میں دنیا کے بہت سے ملکوں کے مسلمان شرکت کر رہے ہیں۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ جہاں ہم ساری زندگی دنیاوی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں وہاں ایسی مذہبی تقریبات میں بھی شرکت کی جائے جن میں اسلام کے پھیلاؤ اور مسلمانوں کی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کے نافذ ہونے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جائے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم نے بھی ایک عدد میٹریس، چادر، تکیہ، اور ایک چھوٹے سوٹ کیس میں کچھ استعمال کی چیزیں رکھ کر ایک دوست کے ساتھ نیشوپنگ شہر جہاں یہ اجتماع ہو رہا ہے، کی طرف رخت سفر باندھا۔
نماز عصر کے وقت ہم مقررہ جگہ جو نیشوپنگ کا ایک بہت بڑا سپورٹس ہال ہے، پر پہنچ گئے۔ تقریباً ایک ہزار کے قریب مسلمان مختلف جماعتوں پر مشتمل یہاں پر پہنچے ہوئے تھے۔ یہ تبلیغی جماعتیں، پاکستان، ملائیشیا، فلسطین، چند افریقی ملکوں، فرانس اور برطانیہ سے یہاں پہنچی تھیں۔ یہاں عربی بولنے والے لوگ زیادہ تھے اور پاکستانی سب سے کم تعداد میں موجود تھے۔ ہال کے ایک طرف کھانا پکانے کا بہت وسیع انتظام کیا گیا تھا۔ ہر فرد کے لیئے لازمی تھا کہ وہ تین دن کے کھانے کی مناسب قیمت دے کر کوپن پہلے سے خرید لے تاکہ بقیہ دن کھانے کا مسئلہ آسانی سے حل ہو جائے۔
یہاں عصر کی با جماعت نماز کے بعد عربی زبان میں تبلیغی بیان شروع ہوا۔ جن لوگوں کو عربی نہیں آتی تھی ان کیلئے ہال کی اطراف میں چھوٹے سپیکروں پر انگریزی، صومالین، ملائیشین، اور سویڈش زبانوں کے مترجم بٹھائے گئے تھے جو اس بیان کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے جاتے تھے۔ بیان کےبعد کھانا کھانے کا اعلان ہوگیا۔ کھانا زمین پر چٹائیاں بچھا کر لگایا گیا تھا جسے دور سے دیکھتے ہی سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑی وہ چاولوں کی پلیٹوں پر گوشت کے سالن کیساتھ چمچ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔
چمچ کے نہ ہونے کا احتجاج کیا گیا مگر نگار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند کسی نے راقم کی آواز پر کان نہ دھرے اور چاروناچار سنت طریقہ سمجھ کر ہاتھ کی انگلیوں سے ہی آلو گوشت اور ابلے سفید چاول کھائے گئے۔
کھانے کےعد نماز مغرب ادا کی گئی اور مغرب کا تبلیغی بیان ہر زبان میں علیحدہ علیحدہ منعقد ہوا اور پاکستان سے تشریف لائی تبلیغی جماعت میں سے ایک صاحب نے اردو میں تقریر کی، جس میں حسب معمول مختلف واقعات کا سہارا لیکر حاضرین کو گرمایا گیا اور آخر میں انہیں موٹی ویٹ کیا گیا کہ چالیس دن یا چار مہینے کیلئے اپنا نام لکھوائیں۔ اس طاقتور آفر کو راقم نے انشااللہ کہہ کر قبول کیا، یعنی اگر اللہ نے چاہا تو ضرور جائیں گے۔ عصر سے عشاء تک دو طویل بیانات ہو چکے تھے جنہیں شدید آتی ہوئی نیند کے باوجود سنا گیا، جس سے آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ رات بارہ بجے بیانات اور نمازوں سے فارغ ہوئے تو اعلان ہوا کہ پونے تین بجے فجر کی نماز اور بیان بھی ہوگا۔ چونکہ صرف ڈھائی گھنٹے رہ گئے تھے اسلئے وہ وقت باقی انسانی ضروریات اور وضو تازہ کرنے میں لگایا گیا۔ نماز فجر کے بعد انگریزی زبان میں بیان منعقد ہوا جسے نیند کے غلبے کے باوجود ثواب سمجھ کر سنا گیا۔ اتنی دیر تک صبح کے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ اب سونے کیلئے روشنیاں بند کی گئیں مگر اتنا عرصہ نیند پر جبر کر کے نمازیں پڑھیں اور بیانات سنے گئے تھے، اسلئے نیند غائب ہو چکی تھی۔
کچھ کروٹیں لیں مگر نیند آتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہ تگ و دو ابھی جاری ہی تھی کہ ایک ہزار کے قریب لیٹے ہوئے تبلیغی بھائیوں نے خراٹے لینے شروع کردئیے۔ ہر بندے کے خراٹے مختلف اقسام اور طاقت کے تھے۔ کوئی موٹرسائیکل چلا رہا تھا تو کوئی سائیکل، کوئی بغیر سائلنسر والا آٹو رکشہ تو کوئی بھاری ٹرک۔ چاروناچار لمبے لمبے تبلیغی بیانات کی طرح ان لگاتار خراٹوں کو بھی ثواب سمجھ کر سننا شروع کیا اور نیند لانے کی کوشش کی مگر اتنی دیر میں سورج روشن دانوں کے اوپر آ چکا تھا جسکی تیز دھار روشنی ڈائریکٹ آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔
نیند ٹوٹی ہے تو احساس زیاں بھی جاگا
دھوپ دیوار سے آنگن میں اتر آئی ہے

Facebook Comments

طارق محمود
سویڈش پاکستانی ویب ڈویلپراردو لکھنے کا شوق ہے اور اردنامہ ڈاٹ ای یو کا اڈیٹر انچیف اور سٹاک ہوم سویڈن میں رہائش ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply