• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ذبح عظیم ،قربانی حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام۔۔۔۔ حافظ کریم اللہ چشتی

ذبح عظیم ،قربانی حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام۔۔۔۔ حافظ کریم اللہ چشتی

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنْ الصبَّرِیْنَ۔اللّٰہ نے چاہاتوقریب ہے کہ آپ مجھے صابرپائیں گے
ذوالحجہ اسلامی سال کابارہواں مہینہ ہے اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کی گئی۔ذوالحجہ کا مہینہ نہایت ہی عظمت اورمرتبے والامہینہ ہے اس مہینہ کاچاندنظرآتے ہی ہردل میں اس عظیم الشان قربانی کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسکی مثال تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصرہے۔ یہ مہینہ اس جلیل القدرپیغمبرکی یادگارہے جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثال تصویرتھی یہ پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مال ومنال مویشی کافی زیادہ ہوگئے توآپ علیہ السلام کے دل میں خیال آیاکہ اللہ تعالیٰ نے دنیاکی تمام نعمتیں عطافرمادی ہیں اگراب اللہ پاک کافضل کرم ہوکہ اولادنرینہ سے سرفرازفرمائے تواس مالک کاایک اورانعام ہوگاتاکہ وہ میرے بعدمنصب نبوت ورسالت پرفائزہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعاکی جوقبول ہوئی اورایک فرمانبرداربیٹے کی خوشخبری سنائی۔ قرآن پاک میں ارشادپاک ہے۔فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلٰمِِ حَلِیْمِِ۔(ترجمہ) توہم نے اسے عقل مندلڑکے کی خوشخبری سنائی۔ (پارہ ۳۲)نورمحمدی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم جوحضرت آدم علیہ السلام سے لے کرپشت درپشت چلاآرہاتھا وہ سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کی طرف آیا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی اوروہ نورمحمدی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم آپکی پیشانی میں چمکنے لگا۔معززین کرام!دنیامیں انسان کودوچیزیں عزیزہوتی ہیں ایک انسان کوجان اوردوسری اولادعزیزہوتی ہے۔جب جان کاوقت آیاتوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے جان کی پرواہ نہ کی بلکہ اللہ کی رضاپرراضی ہوئے۔نمرودلعین جس نے خدائی کادعویٰ کیاتھااس نے آگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈالالوگ خوش تھے کہ ہمارے بتوں کوبرابھلاکہنے والاآج کے بعدکوئی نہیں ہوگا(نعوذباللہ)مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گاآخرجب آپ علیہ السلام کوآگ میں ڈالاگیا۔ شاعرمشرق علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی روح یہاں تڑپی اورکیاخوب کہا۔
؎ ؎بے خطرکودپڑاآتش نمرودمیں عشق عقل ہے محوِتماشائے لبِ بام ابھی۔
عقل ابھی تماشادیکھ رہی تھی کہ عشق نے چھلانگ لگادی اللہ پاک نے آگ کوحکم دے دیا۔(ترجمہ)اے! آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پرٹھنڈی ہوجااورسلامتی والی ہوجا۔جان کے بعداولادکی باری آتی ہے جب حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کوحکم ملاکہ وہ سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کوجنگل میں چھوڑآئیں حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی سوچ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام جنت سے ایک براق رفتارسواری لے آئے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام کواپنے پیچھے براق پربٹھایااورسرزمین مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔کافی سفرکرنے کے بعدجب سرزمین مکہ میں پہنچ گئے جہاں آجکل آب زمزم کاکنواں ہے اس مقام پرکھڑے ہوگئے جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی اللہ کے پیارے خلیل منشاء الٰہی یہی ہے کہ انہیں یہاں چھوڑدیاجائے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کووہاں ٹھہرایاکھانے کے لئے تھوڑی سی کھجوریں اورپینے کے لئے پانی دیکرانہیں واپس آنے لگے توسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے عرض کیااے اللہ پاک کے پیارے خلیل علیہ السلام کیا!یہاں ٹھہرنے کاحکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیاہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا ہاں۔سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہاکہ اب ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہم اپنے رب کی رضاپرراضی ہیں اسی پرہمارابھروسہ ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کوسرزمین حرم پرٹھہرایاتوجاتے وقت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاکی جسکاذکرقرآن پاک کے پارہ نمبر۳۱میں ہے (ترجمہ)”اے میرے پروردگارمیں نے اپنی اولادایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھرکے پاس(کعبۃ اللہ)اے ہمارے رب!اس لئے کہ وہ نمازقائم کریں۔ اے پروردگارلوگوں کے دل انکی طرف مائل کردے اورانہیں پھل کھانے کودے تاکہ وہ تیراشکرکریں“۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جاتے وقت سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کوکچھ کھجوریں اورپانی دیا سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام بھوک کے وقت کھجوریں کھاتیں اورشدت پیاس کے وقت پانی پی لیتیں یہاں تک کہ کھجوریں اورپانی ختم ہوگیا حضرت اسماعیل علیہ السلام کوپیاس لگی آپ علیہاالسلام کی والدہ ماجدہ سے بچے کی پیاس دیکھی نہ گئی آپ علیہاالسلام قریب ایک پہاڑی پرگئیں تاکہ کہیں پانی مل جائے مگرپانی کانام ونشان تک نظرنہیں آیاپھرآپ علیہاالسلام واپس بچے کے پاس آئیں اوربچے کی پیاس کی شدت دیکھ کردوسری پہاڑی پرچڑھیں مگروہاں بھی پانی نظرنہ آیاآپ علیہاالسلام جن دوپہاڑیوں پرپانی کی تلاش کے لئے گئیں ان دونوں پہاڑیاں کوصفامروہ کہاجاتاہے ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام سات مرتبہ دوڑیں اللہ رب العزت کوان انکادوڑنااتناپسندآیاکہ قیامت تک ہرآنے والے حاجیوں کوحکم فرمایاکہ وہ بھی صفاومروہ کے درمیان سات سات چکرلگائیں تاکہ میری برگزیدہ پیاری بندی سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کی سنت کوزندہ رکھیں۔ان دونوں پہاڑیوں کواللہ پاک نے شعائراللہ قراردیا(یعنی اللہ پاک کی نشانیاں ہیں)ان دونوں پہاڑیوں کاذکراللہ پاک نے قرآن مجیدفرقان حمیدکے دوسرے پارہ میں فرمایاہے ارشادباری تعالیٰ ہے۔ترجمہ۔”بے شک صفااورمروہ اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہیں ” جب سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کودوسری پہاڑی سے بھی پانی نہ ملاتوواپس اپنے بچے کے پاس آتی ہیں اورایک عجیب منظردیکھتی ہیں جہاں پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں ہیں وہاں پرپانی کاایک صاف شفاف چشمہ جاری ہے اس پانی کے اچانک ظاہرہونے سے سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کی خوشی کی انتہانہ رہی فوراََاللہ تعالیٰ کاشکربجالائیں پھریہ خیال آیاکہ اس بڑھتے ہوئے پانی کوروکناچاہیے آخرکارآپ علیہاالسلام نے اس پانی کے اردگردایک آڑبنادی پانی کوروکتے ہوئے سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کہہ رہی تھیں زَمْ،زَمْ ٹھہراے پانی!ٹھہریہی وہ آب زمزم ہے جسے کروڑوں لوگ بطورتبرک پیتے ہیں اورساتھ لے جاتے ہیں۔نبی اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ اگرسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام اس پانی کوزم زم نہ کہتیں تویہ پانی ساری کائنات کی ہرضرورت کوپوراکرنے کے لئے کافی ہوتا۔سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام پانی سے خودبھی سیراب ہوتیں اوراپنے نورنظرحضرت اسماعیل علیہ السلام کوبھی پلاتیں اسی طرح وقت گزرگیا۔آب زمزم بہنے لگادورجنگل سے پرندے اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس پرمنڈلانے لگے یہاں تک کہ قبیلہ بنی جرہم کاوہاں سے گزرہواجویمن سے آئے تھے انہوں نے اپنے میں سے ایک آدمی کوپانی کی تلاش کے لئے بھیجاجب وہ آبِ زمزم کے قریب پہنچاتوکیادیکھتاہے کہ ایک عورت وہاں پرموجودہے اوراس عورت کی گودمیں ایک بچہ ہے اس آدمی نے قبیلہ والوں کوپانی کی خبردی تووہاں ساراقافلہ پہنچ گیاانہوں نے سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام سے اجازت لی اوروہیں پرمقیم ہوگئے حتیٰ کہ ایک وقت ایساآیاکہ آبادی کاسلسلہ بڑھتاہواشہرکی شکل اختیارکرگیااورمکہ معظمہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذی الحجہ کی پہلی شب کوخواب دیکھاجس سے آپ کوندادی جارہی ہے کہ اے ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں قربانی کروجب صبح ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدارہوئے اوربہت سی بکریاں خداکی راہ میں قربان کیں پھردوسری رات کوبھی یہی خواب دیکھاجس میں آپ علیہ السلام کوحکم مل رہاہے اے خلیل علیہ السلام قربانی کروصبح ہوئی توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت سی گائیں اوربکریاں اللہ کی راہ میں قربان کیں جب تیسری رات ہوئی توآپ علیہ السلام نے وہی خواب دیکھاصبح بیدارہوکربہت سے اونٹ خداکی راہ میں قربان کیے آٹھویں ذی الحج تک یہی خواب کاسلسلہ جاری رہاکہ رات کوخواب میں حکم ہوتاکہ قربانی کروہر صبح بیدارہوکرراہ خدامیں جانورقربان کردیتے جب آٹھویں شب میں خواب دیکھااورقربانی کاحکم ہواتوآپ علیہ السّلام نے عرض کی اے میرے پروردگارکیاشے قربان کروں حکم ملاکہ اپنے لخت جگرپیارے فرزندارجمندحضرت اسماعیل علیہ السّلام کی قربانی کرویہ حکم پاکرخلیل علیہ السّلام متفکرہوگئے نویں ذی الحج کوخواب دیکھاکہ آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ سے اپنے فرزندکوذبح کررہے ہیں صبح بیدارہوئے اوریقین کرلیاکہ یہ حکم خداوندی ہے جس کی تعمیل ضروری ہے دسویں ذی الحج کی رات کوپھریہی خواب دیکھادسویں ذی الحجہ کی صبح کوآپ علیہ السلام سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کے پاس تشریف لے گئے اورسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کوحکم دیاکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کونہلادھلاکرتیارکروسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے اپنے بیٹے کونہلادھلاکرخوشبولگائی اورتیارکرکے اپنے والدحضرت ابراہیم علیہاالسلام کے حوالے کردیاحضرت ابراہیم علیہاالسلام نے انکاہاتھ پکڑاباپ بیٹاچھری اوررسی لے کرجبل عرفا ت کی طرف چل پڑے کعبہ شریف سے کچھ دورپہنچے توشیطان لعین نے آپ علیہ السلام کواس عظیم قربانی سے روکناچاہاسب سے پہلے شیطان لعین حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کے پاس آیااورکہنے لگااے ہاجرہ! آپکومعلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہایہ کیسے ہوسکتاہے کہ باپ اپنے بیٹے کوذبح کرے؟شیطان بولاحضرت ابراہیم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملاہے کہ اپنے بیٹے کی قربانی کر۔سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہااے شخص اگرخداکاحکم اسی طرح ہے تومیں اورمیرابیٹاخداکے حکم پرراضی ہیں۔شیطان جب مایوس ہوکرواپس ہواتوحضرت اسماعیل علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگاقریب جاکرکہاتجھے تیرے والدذبح کرنے کے لئے لے جارہے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایاکیوں؟شیطان نے کہاوہ سمجھتے ہیں کہ ا للہ تعالیٰ نے انہیں ایساکرنے کا حکم دیاہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیااگراللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمالے تومیرے لئے اس سے بڑھ کرکیاسعادت ہوگی۔شاعرنے کیاخوب کہا۔
ؔ ؎جان دی ہوئی اسی کی تھی حق تویہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
شیطان نے ہرممکن کوشش کی کہ حضرت ابراہیم ؑ کسی نہ کسی طرح اس عظیم قربانی سے رک جائیں۔مگراللہ تعالیٰ کے خلیل کے عزم سے بے بس ہوگیا۔اسکے بعدشیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالناشروع کیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ پاک کے خلیل تھے فوراََ پہچان گئے کہ یہ کارنامہ شیطان کاہے جواس عظیم قربانی سے روکنے کامشن پوراکررہاہے آپ علیہ السلام نے اسکودھتکارنے کے لئے پتھراٹھاکراسے مارناشروع کیااورفرمایااے شیطان لعین دورہوجامیری نظروں کے سامنے اللہ تعالی کویہ ادائے ابراہیمی اتنی پسندآئی کہ قیامت تک حج کرنے والے حاجیوں کے لئے حکم فرمادیاکہ میرے پیارے خلیل علیہ السلام کی سنت کوزندہ رکھنے کے لئے یہاں پرشیطان کوسات کنکرماریں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پہاڑکے قریب پہنچے توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا۔جوبات آپ علیہ السلام نے کہی اسکی گواہی اللہ پاک کی کتاب قرآن مجیدکاپارہ ۳۲دیتاہے۔ترجمہ: “اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھاکہ تم کواپنے ہاتھ سے ذبح کررہاہوں اب بتاتیری کیارائے ہے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیااے اباجان!آپکوجوحکم ملاہے وہ پوراکیجیے مجھے آپؑ ان شاء اللہ صبرکرنے والاپائیں گے۔علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیاخوب کہا۔
؎یہ فیضان نظرتھایامکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کوآداب فرزندی
جب باپ بیٹادونوں رضائے الٰہی پرراضی ہوگئے توباپ نے بیٹے کوزمین پرجبین کے بل لٹایاقرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے۔فَلَمَّآ اَسْلَمَآوَتَلَّہُ لِلْجَبِیْن(پارہ ۳۲)جب وہ دونوں تیارہوگئے توباپ نے بیٹے کوپیشانی کے بل لٹادیا”چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے کہااباجان میری کچھ وصیتیں ہیں قبول فرمائیں وہ وصیتیں یہ تھیں۔اباجان پہلی وصیت تویہ ہے کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں تاکہ اگر میں تڑپوں توآپکے لباس پرخون کاچھینٹانہ پڑے ذبح کرنے سے پہلے چھری کوتیزکرلیناتاکہ یہ فریضہ اداکرنے میں تاخیرنہ ہوجائے۔اپنی آنکھوں پرپٹی باندھ لیناکہیں محبت پدری کی وجہ سے آپ علیہ السلام اس فریضہ سے رہ نہ جائیں۔اورمیراخون آلودہ کُرتامیری والدہ کے پاس پہنچادیجیے تاکہ وہ اس کُرتے کودیکھ کر اپنے دل کوتسلی دے لیاکریں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی کوپوراکرتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نازک حلق پرچھری رکھی توچھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پرکندہوگئی ہے باربارچھری چلائی مگرایساہی ہواحضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری کوایک پتھرپردے ماراپتھرکوچھری نے دوٹکڑے کردیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری سے مخاطب ہوکرفرمایاکیاوجہ ہے کہ اتنے نرم ونازک گلے کوبھی نہیں کاٹتی چھری پکاراٹھی اے اللہ تعالیٰ کے خلیل علیہ السلام جسوقت آپ علیہ السلام کوآگ میں ڈال دیا گیاتھاتوآگ نے آپ علیہ السلام کوکیوں نہ جلایا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاکہ آگ کواللہ پاک نے حکم دیاتھاکہ وہ نہ جلائے چھری نے عرض کیااے حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ کوتوایک دفعہ حکم ہواکہ نہ جلانامجھے توسترمرتبہ حکم مل چکاہے کہ اسماعیل علیہ السلام کے حلقوم کونہ کاٹناحضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حلقوم پرچھری چلائی گلے پر چھری چلنے سے پہلے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام جنت سے ایک مینڈھالے آئے اسکونیچے رکھ دیااورحضرت اسماعیل علیہ السلام کواٹھالیامینڈھا ذبح ہوگیاتواللہ تعالیٰ کی طرف سے آوازآئی۔ترجمہ”بے شک ہم نے پکارااے ابراہیم تونے خواب سچ کردکھایاہم نیکوں کویونہی جزادیتے ہیں بے شک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اسکافدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیااوراسے بعدوالوں میں باقی رکھا “حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اسے یادگارکے طورپرقیامت تک باقی رکھااب ہرسال اسکی یادکوتازہ کیاجاتاہے۔علامہ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اورعلامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عینی شرح بخاری میں ذکر فرمایاہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیاکہ تونے کبھی اپنی پوری قوت بھی صرف کی ہے۔جبرائیل امین نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں نے چارمرتبہ اپنی پوری قوت صرف کی ہے۔پہلی بارجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کومنجیق میں رکھ کرآگ میں ڈالاجارہاتھاآگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے پھراللہ تعالیٰ کے خلیل آگ کی طرف جارہے تھے میں مقام سدرہ پرتھااللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہواکہ اے جبرائیل علیہ السلام جلدی جامیراخلیل علیہ السلام آگ میں جارہاہے آگ کوپرمارکرگلزاربنادے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں نے سدرۃ المنتہیٰ سے پروازکی اورخلیل علیہ السلام کے آگ میں پہنچنے سے پہلے میں آگ میں پہنچ گیااورآگ کواللہ تعالیٰ کے حکم سے گلزاربنادیادوسری بارمیں سدرۃ المنتہٰی پرتھاچھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے کی طرف آرہی تھی اس نے صرف دوفٹ کافاصلہ طے کرناتھااسکے دوفٹ کے فاصلے کوطے کرنے سے پہلے میں جنت سے مینڈھالے کرپہنچ گیا۔تیسری بارحضرت یوسف علیہ السلام کوکنویں میں ڈالاجارہاتھاوالدکاپہنایاہوالباس اتاردیاگیاتھابازومیں رسی باندھ کرکنویں میں لٹکادیاگیاآہستہ آہستہ پانی کی سطح قریب آرہی تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے ایک بھائی نے تلوارمارکررسی کاٹ دی نصف راستہ طے ہوچکاتھااورنصف باقی تھارسی کاٹ دی گئی اورمیں سدرہ پرتھاحکم ہواجبرائیل!جلدی جنت جااوریوسف علیہ السلام کے پانی میں پہنچنے سے پہلے پہلے جنتی تخت لے جااورپانی پربچھادے میں نے اپنی ساری قوت صرف کردی سدرۃ المنتہیٰ سے جنت گیااوروہاں سے تخت اٹھاکرزمین کی طرف آیاابھی حضرت یوسف علیہ السلام پانی پرنہیں پہنچے تھے کہ میں پہلے پہنچ گیا۔چوتھی مرتبہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم غزوہ اُحدمیں جب آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کادانت مبارک شہیدہواخون پاک کاقطرہ زمین کی طرف جارہاتھااللہ رب العزت کی طرف سے حکم ملااے جبرائیل! اگرمیرے محبوب پاک صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے خون کاقطرہ زمین پرگرگیاتوزمین جل کرراکھ ہوجائے گی جااورخون کاقطرہ میرے پاس اٹھاکرلے آ جبرائیل ؑ نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم آپکے مقدس خون کاقطرہ زمین پرگرنے سے پہلے میں پہنچ گیا۔اس سے ہم کویہ سبق ملتاہے کہ اللہ پاک نے ایک فرشتہ کواتنی طاقت دی ہے جسکی پروازکایہ عالم ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے ایک سیکنڈسے بھی کم وقت میں زمین پرپہنچتاہے تواس نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کورب نے کیامقام دیاہوگاجس نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے جبرائیل علیہ السلام نے پاؤں مبارک چومے ہیں۔اللہ رب العزت حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہماالسلام کی اس عظیم قربانی کے صدقے ہم پرکرم فرمائے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شفقت اورغلامی نصیب فرمائے۔عالمِ اسلام کی خیرفرمائے۔ملک پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحادکی دولت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply