عظیم ادیب عطاء الحق قاسمی صاحب کے نام ایک خط

محترم قاسمی صاحب!

بعد از سلام عرض ہے کہ بندہ تازہ تازہ مسلمان ہوا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بندے کو معلوم پڑا کہ اسلام کا قلعہ تو پاکستان ہے۔ چنانچہ بندے نے اپنا مادر وطن ولایت چھوڑا اور یہاں سکونت اختیار کر لی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بندے کو یہ بھی پتا چلا کہ اسلام کے قلعے کی سرکاری زبان اردو ہے۔ لہذا وہ بھی سیکھی۔ بندے کی مادری زبان انگریزی ہے اس لیے پیشگی معذرت، اگر اس محبت نامے میں کسی قسم کی غلطی یا کمی رہ گئی ہو۔بندے نے اردو آپ کی معرکتہ الآرا تصانیف پڑھ پڑھ کر سیکھی۔ مثلاً غیر ملکی سیاح کا سفرنامہ لاہور، گوروں کے دیس میں، دنیا خوبصورت ہے، شوقِ آوارگی، ملاقاتیں ادھوری ہیں، عطائیے، اور دیگر بہت ساری تحریریں۔

کیا بتاؤں دل پر کیا گذرتی تھی آپ کی تحریریں پڑھ کر۔ کمال کے جملے لکھے آپ نے۔ کیا کاٹ ہے آپ کے قلم کی۔ قسم ہے بسنت کی شیشہ لگی ڈور بھی کچھ نہیں اس کے آگے جو سینکڑوں لوگوں کی شہہ رگ کاٹ چکی ہے۔ بہترین مزاح لکھاہے آپ نے حضور۔اپنا شیخ پیر Shakespeare کیا بیچتا ہو گا آپ کے آگے! بس من ہی من میں آپ کو ہی ادب کا خدا مان لیا اور دل ہی دل میں آپ کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ یقین مانیے اس وقت ساری کائنات میں اس نا چیز سے بڑھ کر آپ کا پجاری کوئی اور نہ ہو گا۔

بندہ آپ کو یہ خط لکھ کر کبھی بھی آپ کا قیمتی وقت ضائع نہ کرتا کیونکہ اس حقیر پر تقصیر کو اندازہ ہے کہ جتنی دیر میں آپ یہ خط پڑھیں گے اتنے وقت میں آ پ کسی لازوال تحریر کا مرکزی خیال سوچ لیتے ہیں۔ پر کیا کروں آپ کی شہرت و عزت بیچ چوراہے پر نیلام ہوتی نہیں دیکھ سکتا۔ مجبوراً یہ پروانہ محبت روانہ کرنا پڑا۔مجھے معلوم ہے آپ درویش انسان ہیں۔ یہ انٹرنیٹ ، سماجی رابطوں کی فضولیات سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی رفعت سے سجی تخیلاتی چیز تحریر کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا آپ کے علم میں ہوتا ہی نہیں کہ آپ کے حاسدین، دشمن اور بیر ی آپ کی پیٹھ پیچھے کیا کیا گل کھلا رہے ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں تو میں نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن آج کے بعد پانی سر سے اونچا ہو گیا تو یہ خط لکھنا پڑ گیا۔

حضور کوئی بہت ہی بڑے لیول کا چاپلوس ہے جو آپ کا ہم نام ہے: یعنی عطا الحق قاسمی۔ انتہائی پرلے درجے کا خوشامدی ہے۔ کافی عرصے سے حکمران طبقے کی جی حضوری میں لگا ہوا ہے۔ آئے دن کوئی اخبار ہے War نامی اس میں حکمرانو ں کے نام کی مالا جپنے میں لگا رہتا ہے۔اول اول تو میں نے اس چمچے کو نظر انداز کیا لیکن آج تو حد ہی ہو گئی۔ حضور آج اس درباری نے جو جھوٹ گھڑا ہے حکمرانوں کی شان میں اللہ معافی۔ آج تو شیطان بھی کانپ اٹھا ہو گا۔ حضور جانتے ہیں کیا لکھتا ہے آج؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ مجھے تو پڑھ کر ہی ابکائیاں آنا شروع ہو گئیں:

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت کو کچھ ہوتا ہے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ملک ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے گا۔ گزشتہ چند روز سے مجھے ہزاروں فون اور میسجز موصول ہورہے ہیں جن سے پاکستانی عوام کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔میں محسوس کرتا ہوں کہ نواز شریف سے صرف سیاسی سطح پر نہیں ذاتی سطح پر بھی بہت محبت کرتے ہیں، شاید اس کی وجہ ان کی طبیعت کا انکسار، ان کے خاندان کا مشرقی روایات سے جڑا ہونا، ان کی خدا ترسی اور دوسری انسانی صفات جن کی وجہ سے پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں ایک ہیرو کے روپ میں دیکھتی ہے۔

اخبارات اور میڈیا سے مختلف النوع خبریں اور تجزیے دیکھنے والے ایک اسی طرح کے عاشق کا فون مجھے لاڑکانہ سے آیا، آپ یقین کریں اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اس نے بتایا کہ وہ تین دنوں سے سو نہیں سکا۔ میں نے اسے کہا، ’’دوست، مسئلہ حل بھی جاگتے رہنے ہی سے ہونا ہے، اگر تو نے آنکھ جھپکی تو منظر مزید ڈراؤنا ہوجائے گا۔یقیناًآپ کو بھی شدید متلی ہوئی ہوگی۔ میں چشمِ تصور میں آپ کا قالین خراب ہوتے دیکھ سکتا ہوں۔ حضور اس بے لحاظ کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیے۔ اپنا خود کا نام استعمال کرتا نہیں۔ آپ کے نام سے لکھتا ہے تا کہ مشہور ہو جائے۔

پر گدھا اگر شیر کی کھال اوڑھ لے تو کیا شیر ہو جاتا ہے؟ اگر چناؤ میں کسی گیدڑ بھگوڑے کو شیر کا انتخابی نشان الاٹ ہو جائے تو کیا وہ شیر ہو جاتا ہے؟ حضور ہو سکتا ہے اس سوانگیے کا نام واقعی عطاء الحق قاسمی ہو۔ مگر یہ تو تصویر بھی آپ کی لگاتا ہے۔پر حضور ہندو مت میں کہتے ہیں کہ بھگوان نے ایک ہی شکل و صورت اور کاٹھی کے سات انسان اس دنیا میں پیدا کئے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی شکل بھی ہو بہو آپ ہی کی طرح ہو۔حضور ا یک نامی ویب سائٹ نے تو اسی تہی ذوق کا مضمون دوبارہ چھاپ دیا ہے۔

بس پھر کیا تھا۔ جو خبر دبی رہی تھی، جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔سائٹ نے اس ٹوڈی کے مضمون کو ‘بشکریہ War‘ لکھ کر اپ لوڈ کر دیا اور اسے فیس بک کے ساتھ نتھی کر دیا۔بس پھر کیا تھا۔ ہر ایرا غیرا اس کو آپ کا مضمون سمجھ کر تبرابازی کر رہا ہے۔ رائے دیتا ہے مضمون پر اور فیس بک پر الم نشرح ہو جاتا ہے! پھر اس رائے پر آراؤں کے بھرمار لگ جاتے ہیں۔ حضور میرا دل بہت دکھتا ہے یہ تماشا دیکھ کر۔ میری مودبانہ گذارش ہے کہ آپ اپنا نام تبدیل کر لیں کیونکہ یہ ناہنجار تو غلام ابن غلام، خوشامدی ابن خوشامدی، درباری ابن درباری اور بہروپیا ابن بہروپیا ہے۔

یہ تو بدلے گا نہیں اپنا نام۔ نہ ہی چاپلوسی سے باز آئے گا اور اگر آپ کا نام استعمال کر رہا ہے تو اس کو یہ اخلاقیات سکھانا فضول ہے کہ بھائی قاسمی صاحب کے نام کا غلط استعمال نہ کرو۔اور آپ بھی ایسے درویش ہیں کہ نہ تو War نامی اخبار اور نہ ہی کسی سائٹ سے احتجاج کریں گے۔ لہذا حضور آج ہی سے اپنا نام تبدیل کر لیں یا پھر یہ وضاحت ہر خاص و عام تک پہنچا دیں کہ آپ ایسا عظیم لکھاری جو ادب کی شان ہے ایسے گھٹیا کالم نہیں لکھتا۔ عین نوازش ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر اندیش
محمد شہزاد!
بشکریہ ایک روزن

Facebook Comments

محمد شہزاد
اس بدنصیب ملک میں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سینئر صحافی ہے۔ بندہ روزِ اول سے لکھنے ایسے خوبصورت فن کا طالب علم ہے اور ہمیشہ طالب ہی رہنا چاہتا ہے۔ رابطہ: facebook.com/writershehzad

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply