ایک اور جھوٹ ۔۔اظہر سید

جھوٹ کا جو سبق نواز شریف کو ٹھکانے لگانے کیلئے پڑھایا جاتا تھا وہ جاری ہے نو منتخب وزیراعظم نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں قرضوں کے متعلق جو جھوٹ بولا ہے اس سے عام لوگوں کو تو گزشتہ پانچ سال سے احمق بنایا جا رہا ہے ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ریاست کا سربراہ بن کر بھی وہی بات کی گئی ہے ۔جو لوگ حقائق جانتے ہیں عالمی مالیاتی ادارے معاشی ماہر اور مختلف ممالک کے چیدہ لوگ سب ہنستے ہونگے ۔

وزیراعظم نے قوم کو خبر دی قرضہ چھ ہزار ارب تھا پھر 15 ہزار ہوا اور اب 28 ہزار ہو گیا ہے ۔قرضوں کی بات کاش سابق حکومت کو بدنام کرنے تک محدود رہتی تو ٹھیک تھا لیکن یہ تو ریاست کے سربراہ کی تقریر تھی۔پاکستان کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں یہاں تیل نہیں نکلتا اور دیگر وسائل بھی نہیں عمران خان کچھ بھی کر لیں قرضہ انکی حکومت میں بھی بڑھے گا اور سابق حکومت سے زیادہ بڑھے گا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پاکستان میں پیٹرولیم کے نئے ذخائر نہیں مل جاتے یا پھر برآمدات درآمدات سے نہیں بڑھ جاتیں ۔

گزشتہ حکومت میں قرضہ 15 ہزار ارب سے 28 ہزار ارب کیسے ہوا اس کا جواب خود تحریک انصاف کے معاشی ماہرین کے پاس بھی ہے لیکن جس عمارت کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی ہو وہاں نومنتخب وزیراعظم جھوٹ نہیں بولے گا تو کیا فروخت کرے گا۔سابق حکومت کے دور میں چار سال کے دوران 30 ارب ڈالر کی سی پیک سے منسلک اضافی درآمدات ہوئیں اگر سی پیک پر کام کا آغاز نہ ہوتا تو یہ درآمدات بھی نہ ہوتیں اور بیرونی اخراجات کا خسارہ بھی نہ بڑھتا اور اضافی قرضے بھی نہ لینے پڑھتے اور قرضوں میں بے پناہ اضافہ کا جھوٹ بھی نہ بولا جاتا۔ہم سمجھتے ہیں اس ملک کے اصل غدار وہ لوگ ہیں جو نجی ٹی وی کے پالتو اینکرز کو بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار دیتے تھے اور جانتے تھے سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے پاور پلانٹس مشنری اور دیگر اضافی درآمدات ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور اضافی قرضے لینے پڑ رہے ہیں ۔

قوم کو تو احمق بنا لیا چینیوں کو کیسے بناتے وہ شدید ناراض ہیں اور سی پیک پر کام روک چکے ہیں ۔سی پیک مستقبل کے معاشی مسائل کی چابی ہے اگر اضافی درآمدات ہوئی تھیں تو اس کے بے شمار فوائد بھی حاصل ہوئے تھے ملکی معیشت کی شرح نمو میں اضافہ ہو گیا تھا عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معاشی ریٹنگ بڑھا دی تھی حصص بازار میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی لیکن حب الوطنی کے پہاڑوں نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا اور اب بھی جھوٹ بولنا بند نہیں کیا جا رہا۔ کم از کم وزیراعظم کے عہدے کے تقدس کا خیال رکھا جاتا کسی ماہر معیشت کو تقریر دکھا دی جاتی اور پوچھ لیا جاتا کہ قرضوں میں روپیہ کی قیمت کم ہونے سے کتنا اضافہ ہوا ہے اور کیا غیر ملکی شراب کے کینٹنر منگوانے کی وجہ سے قرضے بڑھے تھے یا پھر پلانٹس مشنری کی درآمدات میں اضافہ اس کی وجوہات تھیں ۔

قرضے برے نہیں بلکہ اچھے ہوتے ہیں اگر سی پیک ایسے منصوبوں کیلئے حاصل کئے جائیں تو قرضے بہت زیادہ اچھے ہوتے ہیں آپ دوسروں کے پیسے استمال کر کے اپنی ترقی کا سفر کرتے ہیں قرضے اگر غیر ترقیاتی کاموں کیلئے لئے جائیں تو پھر معاشی بوجھ بنتے ہیں ۔سابق حکومت نے شراب کے کینٹنر نہیں بلکہ معاشی منصوبوں کیلئے قرضے لئے تھے ۔
کاش کوئی وزیراعظم کو بتاتا کہ قرضوں کو جی ڈی پی کے تناسب سے جانچنا جاتا ہے حجم سے نہیں پاکستان کے قرضے آج بھی جی ڈی پی کے تناسب سے 71 فیصد کے لگ بھگ ہیں امریکیوں جاپانیوں اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کے قرضے انکی جی ڈی پی کے 90 فیصد سے 100 فیصد تک ہیں لیکن جس ملک میں خاص مقاصد کیلئے جھوٹ بولا جائے وہاں ترقی اور معاشی خوشحالی نہیں بلکہ دھوکہ اور فراڈ ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تقریر میں ایک بہت خوفناک بات بھی تھی ۔۔۔۔ وہ یہ کہ ،مختصر مدتی قرضے اچھے ہوتے ہیں مثال جرمنی کی دی ہمیں ڈر ہے کسی سازش کے تحت عالمی ساہوکاروں سے کم مدتی قرضے نہ لے لئے جائیں ، کم مدتی قرضے مہنگے ہوتے ہیں اور شرائط سخت اگر عالمی مالیاتی اداروں سے ڈیڑھ سے دو فیصد قیمت پر قرضہ ملتا ہے تو عالمی کیپٹل مارکیٹ سے سات سے 12 فیصد کی قیمت پر کم مدتی قرضہ حاصل ہوتا ہے اور جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اگر کم مدتی قرضے لئے تھے تو ریاستی ضمانت امریکہ کی تھی جرمنی کی نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply