عمران خان بطور وزیراعظم۔۔۔۔۔۔ کاشف حسین

عمران خان کا قوم سے خطاب آج سننے کا اتفاق ہوا۔ خان صاحب ایک مخلص اور دردمند سٹیٹس مین نظر آئے۔ زیادہ تر باتیں اگرچہ پرانی تھیں اور وہ پہلے ہی مختلف مواقع پر دہرا چکے تھے لیکن اب وزیراعظم بننے کے بعد بھی انہی وعدوں اور ارادوں کو ایک عزم کے ساتھ دہرانا اور ایک نظم کے تحت نفاذ کرنے کا اعلان معنی رکھتا ہے اور امید دلاتا ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کی آنکھوں میں امید کا یہ دیا پہلی بار اور عمران خان کی وجہ سے روشن ہوا ہے۔ خداوند ان آنکھوں اور خوابوں کو سلامت رکھے اور تعبیر سے آشنا کرے۔ جن دعوؤں، وعدوں اور ارادوں کا اظہار کیا گیا ہے پانچ سال میں اس پہ دس فیصد عمل بھی کر لیا گیا (اور پانچ سال پورے کر لئے گئے) تو ایک شاندار پیشرفت ہوگی۔

کافی لوگوں نے اس حوالے سے ان پر تنقید بھی کی کہ خارجہ پالیسی، اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز و سول حکومتوں کو ڈکٹیشن، مسئلہ کشمیر، فرقہ واریت وغیرہ کے سلسلے میں کوئی ٹھوس پروگرام یا پالیسی سٹیٹمنٹ نہیں دی گئی۔ میرے خیال میں یہ بھی ٹھیک ہی کیا۔ یہ وہ سرخ لکیریں ہیں جو دو تہائی اکثریت والی حکومتوں نے بھی عبور کرنے کی کوشش کی تو تختہ الٹ دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت تو اتحادیوں کی مرہون ہونے کی وجہ سے ویسے بھی بہت کمزور ہے۔ ملٹری و مزہب یوں بھی پاکستان میں اب مافیا بن چکے ہیں لہذا جس حد تک متنازعہ معاملات میں ٹانگ پھنسائے بغیر ڈلیور کیا جا سکتا ہے فی الحال اسی پہ فوکس کرنا چاہئے۔ کبھی کبھی دل میں ایک کمینی سی خواہش ضرور اٹھتی ہے کہ کوئی عمران خان کو ہلہ شیری دے کر ان کے اندر کا پرانا اکھڑ خان بیدار کر دے اور جرنیلوں سے سینگ پھنسا کر یہ بھی پہلے والے سول رہنماؤں کی طرح کرپٹ نااہل یا گستاخ قرار پا کر پوچھتا پھرے “مجھے کیوں نکالا”۔۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ “خان کے پیچھے آئی ایس آئی ہے تو جان بھی حاضر” والا مائنڈ سیٹ تو پھر ازلی آقاؤں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور ہم ایسے آئین کے پیروکار اور سول بالادستی کے علمبردار خان کی حکومت کا جنازہ اٹھائے پھرتے ہونگے۔ لہذا یہ موقع رسہ کشی میں گنوانے کی نسبت پرفارم کرنے کی حکمت عملی بہتر رہے گی۔ در ایں اثنا اپنے سول بالادستی والے خناس کو میں یہ تسلی دے کر ماٹھا کر رہا ہوں کہ جتنی بھی منہ زوری کر لو آخر عمران خان اور بشری بی بی کو بھی سیلیوٹ تو کرنا پڑا نا، نواز اور مریم نا سہی، عمران اور بشری سہی۔ وہ بھی سویلین ہیں اور عوام کا چہرہ ہیں- دو تین اور سویلین حکومتی ادوار خیر خیریت سے گذر گئے تو ان مہم جو جرنیلوں کو اپنی آئینی اوقات پہ یقین اور صبر بھی آ ہی جائے گا اور عوام تک جمہوریت کے ثمرات بھی پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ پھر عوام خود ہی غیر جمہوری طاقتوں سے نمٹ لے گی۔ ویسے بھی نورالہدی شاہ صاحبہ نے خوب لکھا ہے کہ “‏یہ تو طے ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں اور نوجوانوں کی اکثریت آئین، خارجہ پالیسی، اقلیت کےمعاملات، NFCایوارڈ، ملکی بجٹ پردفاعی بجٹ کے دباؤ، میڈیا کی آزادی، ملک پر دہشتگردی کا الزام، فرقہ واریت، سرحدوں پر تناؤ ،بلوچستان معاملہ، پاکستان کی عالمی تنہائی، خصوصاً ڈکٹیٹرشپ، ڈکٹیشن وغیرہ سے نہ تو دلچسپی رکھتی ہے نہ ہی سمجھ پاتی ہے” بات تو سچ ہے مگر ۔۔۔

بہرحال، آغاز تو اچھا ہے، دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔ مصرعہ بھی کیا خوب برمحل یاد آیا۔ عمران خان کا نیا پاکستان جب تک لفظوں، سوچوں اور تقریروں میں رہے گا قطرہ ہے عملی شکل پانے لگا تو گہر بن جائے گا۔ گڈ لک عمران خان ۔ گڈ لک پاکستان

نوٹ: خطاب میں میڈیا پر عائد کھلی سنسرشپ اور اقلیتوں کے مسائل کا ذکر نہیں تھا جو سنجیدہ اور فوری نوعیت کے حامل مسائل ہیں۔ امید ہے اس پہ بھی کام ہوگا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا نوٹ: اس تحریر کو جنگ بندی نا سمجھا جائے۔ عمران خان اور اس کی حکومت نے جہاں بھی بلنڈر مارا حسب توفیق و استطاعت تنقید جاری رہے گی۔ وہ دوست جو بڑی درد مندی سے زچ ہو کر کہتے ہیں کہ حکومت کو وقت دو تو عرض یہ ہے کہ تنقید کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ چار لائین تنقید کی لکھ کر ہم انہیں نا اہل قرار دے کر حکومت چھین نہیں رہے ہوتے نہ  ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ تو خاطر جمع رکھیں اور مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور مکالمہ کرنا سیکھیں۔ بلکہ یقین جانئے ہم تو بس ایک قلم کی متاع رکھتے ہیں لیکن اگر کسی طاقتور نے بھی منتخب حکومت سے حق حکومت چھیننے کی کوشش کی تو ہم سب سے پہلے ان کے خلاف کھڑے ہونگے۔۔

Facebook Comments

کاشف حسین
بزنس مین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply