شہر کے معزز۔ اسامہ ریاض

چاندنی رات میں ویران راستے پر چلتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ اُسے سب سے زیادہ چاند اور ستارے ہی تو جانتے ہیں کیونکہ ان سے ہمکلام ہوتے ہوئے وہ اپنی تہیں تک کھول دیتی تھی۔ایک چاند اور ستارے ہی تو ہیں جو اُسے سمجھ پاتے ہیں۔اُس کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسوں کے ساتھ ستارے بھی ٹمٹا رہے تھے۔۔
آج سے ٹھیک پندرہ سال پہلے ایسی ہی دسمبر کی ایک خاموش، سنسان اور چاندنی رات میں اُس کی جنم دئے باپ نے دھکے مار کر یہ کہتے ہوئے گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ اب اُس کی غیرت اور عزت پر دھبہ ہے۔ وہ اپنی جسم کو ٹٹول رہی تھی کہ وہ دھبہ کہاں ہے تاکہ وہ اُس کو اپنے اندر سے نکال سکے لیکن ایک آٹھ سال کی بچی کو کیا پتا تھا کہ وہ نقص تو اب ساری زندگی کے لیے اُس کے اندر روح کی طرح گھل مل چکا تھا اور وہ چاہ کر بھی یہ نقص ختم نہیں کر سکتی تھی۔وہ ترستی نگاہوں سے اپنے باقی بہن بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جو ماں کی گود میں سر رکھے جنت کی ہواوں میں میٹھی نیند سو رہے تھے۔ پھٹی قمیض، بغیر ڈوپٹے ، ننگے پاوں آخری جاہ پناہ سے دھکارے جانے کے بعد اب بچا ہی کیا تھا۔۔۔۔
دسمبر کی وہ رات تھی کہ کیا غضب ! سردی بھی کہہ رہی تھی کہ بس میں نے ساری آج ہی برس جانا ہے۔ وہ اپنے معصوم قدموں سے چلتی ہوئی چاندنی رات میں سنسان سڑک پر بنے بنچ پر آکر لیٹ گئی۔ اس ظالم دنیا میں انہی چاند ستاروں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جو تب اُس کے آنسو پونجھ سکتا، اُسے سہارا دے سکتا۔۔۔۔ دن گزرے گئے بھوک بڑھتی گئی۔ بھوک بھلا عمر کہاں دیکھتی ہے۔ بھوک تہذہب کے آداب بھلا دیتی ہے۔۔ اُس نے آہستہ آہستہ سڑکوں پر بھیک مانگنا شروع کر دی۔۔ پھر اُسے اُس کے جیسے معاشرے کے ظلم و ستم کے پسے زندہ دل اعلی ظرف ساتھی مل گئے۔۔ انہوں نے اُسے سینے سے لگایا لیکن بھلا ماں کی گود اتنی جلدی کہاں بھولتی اسے؟
دن گزرتے گئے وہ جوان ہوتی گئی۔ وقت دس سال کے پر لگا کر کب اُڑ گیا اُسے پتا بھی نا چلا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے رہتے وہ بھی ان جیسی ہو گئی تھی۔ پھر اُس نے ناچ گانا سیکھانا شروع کیا۔ پانچ سال میں وہ اپنے ساتھیوں میں سب سے بہترین بن گئی۔۔۔
گرو نے آکر بتایا کہ آج شہر کے ایک معزز کے بیٹے کی شادی پر ناچنے اُسے جانا ہے۔۔ وہ خوش تھی۔۔ دسمبر کی ایک چاندنی رات، ناچ شروع ہوا۔۔ اُسی عمر رسید معزز نے شراب کے نشے میں اُس کے ڈوپٹے اور قمیض کو نوچ ڈالا۔۔اُسے معلوم تھا اُس کے جسم کو تارتار کرنے کے بعد یہ معزز، معزز ہی رہے گا لیکن وہ چاہ کر بھی اُسے روک نہ سکی۔۔معزز اپنی ہوس کو مٹاتے ہوئے اُس کے جسم کے ایک حصے پر آکر رک گیا ، وہاں ایک نشان تھا۔۔ ایک پیدائشی نشان۔۔۔
معزز نے اُسے گلے سے پکڑ کر پوچھا ’’ تم سکینہ ہو کیا ؟ ‘‘
وہ بولی ’’ہاں‘‘۔۔
معزز غصے سے غرا کر بولا ’’میں نے تمہیں پندرہ سال پہلے گھر سے نکال دیا تھا، تو تم ہماری زندگی برباد کرنے واپس کیوں آئی ؟ ‘‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply