شَیخِ مکتب

کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ اگر کسی لمبے قد والے کے سر پر کسی بونے کو بٹھا دیا جائے تو وہ بونا اُس لمبے قد والے سے زیادہ دور دیکھ سکتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ فلاسفر کا اشارہ ”استاد“ کی طرف تھا کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو یہ گوارا کر سکتا ہے کہ کسی’بونے‘ کو سر پہ بٹھایا جائے اور صرف استاد ہی ہے جو یہ چاہتا ہے کے اُس کے شاگرد اُس سے زیادہ ترقی کریں۔ بڑے کردار، بڑے اُستاد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ قوم میں ”علامہ اقبال“ اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے جب تک ”بڑے اُستاد“ میسر نہ ہوں۔ اُستاد ہی قوموں کا معمار ہوتا ہے۔
شیخِ مکتب ہے اِک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
سن 2006 میں میں نے میٹرک کا اِمتحان پاس کیا۔ یہ وہ سال تھا جس میں مجھے بہترین اُستاد ملے۔ سر رانا نثار صاحب جو انتہا کے شفیق ہیں، انہی کی وجہ سے ہی اردو اور اسلام سے لگائوپیدا ہوا۔ میٹرک کے امتحان کی تیاری کی وجہ سے سکول سے غیر حاضر رہنے لگا تو ایک دن صبح سویرے میرے دوستوں سے راستہ پوچھتے میرے گھر تشریف لے آئے اور میرے والد صاحب سے مجھے سکول بھیجنے کا کہا۔ اُس وقت میں سکول کی فیس تقریباً آٹھ روپے ادا کیا کرتا تھا۔ ایسا بے لوث اور فرض شناس استادکسی اور کو نہ پایا۔ سر عبد الجبار صاحب سے اصول پرستی سیکھی۔ انکا ایک بیٹا میرا ہم جماعت تھا، اکثر اُسے کہتے تھے کہ ’باپ کے بیٹے ہو گے تو گھر میں ہو گے‘۔ سر رضوان صاحب سے یہ سیکھا کہ اچھا استاد، اچھا دوست بھی ہوتا ہے۔ کہا کرتے ہیں کہ اللہ کبھی کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں کرتا۔ اور سر یونس کی تو کیا ہی بات ہے۔ معاف کرنا اور رحم کرنا اِنہی سے سیکھا۔ جب بھی ملتے ہیں عزت سے، دونوں بازو کھولے ہوئے اور مسکراتے ہوئے۔ اِس تحریر کا مُحرک بھی اِنہی سے ایک ملاقات ہے۔
ایک بار ان سے ملنے گیا تو ملنے کا وہی انداز، کافی دیر گلے سے لگائے رکھا اور پھر جب اُن کی طرف دیکھا تو اُن کی آنکھوں کے کٹوروں میں نمکیں پانی کو پایا۔ استاد کی یہ حالت دیکھی تو ماحول میں افسردگی چھا گئی۔ جب کچھ دیر سر جُھکائے خاموش بیٹھا رہا تو پھر خود گویا ہوئے کہ ”بیٹا، آج کا شاگرد عزت نہیں کرتا، کہتا ہے کہ میرے ماں باپ پیسے دیتے ہیں اور جب ماں باپ سے شکایت کی جائے تو اُلٹا ہمیں سے شکایت کہ آپ صحیح نہیں پڑھاتے کہ فلاں ٹیسٹ میں بچے کے نمبر کم آئے ہیں“۔
ایک بار استاد حضرت امام جعفر صادقؒ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ بایزید بسطامیؒ فلاں طاق سے فلاں کتاب تو اٹھا لائو، آپؒ نے دریافت کیا کہ یا شَیخ! فلاں طاق کہاں ہے؟ استاد نے کہا کہ بایزیدؒ، اِتنا عرصہ ہو گیا میرے ہاں رہتے ہوئے اور ابھی تک فلاں طاق کا بھی نہیں پتہ! حضرت بایزیدؒ نے کہا کہ حضور، طاق تو کُجا، میں نے کبھی آپؒ کے روبرو آنکھیں بھی نہیں اُٹھائیں۔ امامؒ نے کہا کہ اے بایزیدؒ! تم نے جتنا علم مجھ سے لینا تھا، لے چکے ہو۔ تم مکمل ہو چکے ہو، جائوبسطام واپس چلے جائو۔ کہتے ہیں کہ استاد بادشاہ نہیں ہوتا، مگر بادشاہ بنا دیتا ہے۔
آج المیہ یہ ہے کہ ماں باپ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کوئی اخلاقی قدر سیکھیں یا نہ سیکھیں لیکن امتحانات میں نمبر اچھے ضرور آنے چاہیں، استاد کی عزت کریں یا نہ کریں، کلاس میں اول ضرور آئیں۔ جب ڈگریاں، کرداروں سے زیادہ اہم ہو جائیں تو پھر علامہ اقبال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ قصور اُن پیشہ ور افراد کا بھی ہے جنہوں نے لوگوں کو لوٹنے کے چکر میں استاد کے وقار کو برقرار نہ رکھا اور باقی کسر اُن نااہل لوگوں نے پوری کی جو اپنے طلباء کے نام تک لکھنا نہیں جانتے۔
استاد ہی ہے جو ’زندگی سے آشنا کرواتا ہے، مقصدیت بخشتا ہے اور زندگی کی ترجیحات کے تعین میں مدد کرتا ہے۔ آج، ٹیکنالوجی کے دور میں طالبعلم شائد اچھا اِس لیے بھی نہیں کہ اُس نے یہ یقین کر لیا ہے کہ انسانیت کے مقدر میں ایٹم بم کے سِوا اور کچھ نہیں۔

Facebook Comments

طلال انور
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”شَیخِ مکتب

Leave a Reply