مجرم کون؟؟

مجرم کون؟
نعیم الدین جمالی
اس کے چہرے پر بلا کی مایوسی تھی، اداسی کے بادل چھم چھم برس رہے تھے، اس کی آنکھوں میں اپنوں اور بیگانوں کی لاپرواہی کی ایک طویل داستان دِکھ رہی تھی، دکھ درد کی یہ دیوی میرے سامنے ایک لڑکی بن کر بیٹھی تھی لیکن ابھی وہ اپنے آپ کو لڑکی کہنے سے شرما جاتی تھی ـمیں نے بغیر کسی تمہید کے اس سے نام پوچھ لیا، اس نے نام بھی ایک عجیب سا بتایا، میں نے عمر پوچھی، اس نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگی کہ:” پچاس کے لگ بھگ ہوگی “ـ
میں نے سوال داغا: ” آپ کے بچے کتنے ہیں؟ ”
اس پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ خاموشی کا بت بن کر کھڑی ہوگئی، میں نے دوبارہ سوال کیا کہ: ” آپ کی اولاد کتنی ہے ”
اس نے سر جھکایا اور اس کے آنسو مسلسل ٹپکنے لگے، میں مزید پریشان ہوا کہ شاید بچے کسی حادثے وغیرہ میں فوت ہوچکے ہوں، لیکن میرے پیروں تلے زمین نکل گئی جب اس نے کہا: “میرے والدین نے میری شادی نہیں کروائی”
“کیوں اس عمر تک انہوں نے آپ کے ہاتھ پیلے نہیں کیے “؟ میں افسوس زدہ لہجے میں گویا ہوا ـ
جی ہاں! میری منگنی میرے کزن سے ہوئی تھی، لیکن میرے گھر والوں کی کسی وجہ سے ان سے لڑائی ہوگئی، انہوں نے رشتے کا انکار کر دیا، اور اب تک جو بھی رشتہ لینے آتا ہے تو کہیں میرے والد نہیں دیتے، اور کہیں میرے منگیتر والے دوسری پارٹی کو سخت دھمکیاں دے کر منع کر دیتے ہیں ۔
وہ بارش کے قطروں کی مانند ٹک ٹک بولنی لگی ـ
میں اپنے اس اندھے سماج کی اس رسم ِبد پر اتنا شرمندہ ہوا کہ زمیں مجھے جگہ دیتی اور زمین میں گڑ جاتا!!
یہ صرف ایک لڑکی کی داستان نہیں جو اب شادی کرنا بھی نہیں چاہتی، ایسی کتنی نوجوان نازک کلیاں ہیں جن کو ہم نے اپنی غیرت کی بھینٹ چڑھا لیا ہے، کہیں ان کی شادی اس لیے نہیں کروائی جاتی تاکہ کل وہ جائیداد کا حصہ طلب نہ کرلیں، کہیں اپنی انا کی خاطر ان کی زندگی تباہ کردیتے ہیں، کہیں وٹہ سٹہ کے بدلے طلاق دلوا کر معاشرے کا معیوب فرد بنا کرہمیشہ ذلت کے حوالے کردیتے ہیں جس کو صبح شام طلاق یافتہ طلاق یافتہ کے طعنے سننے کو ملتے ہیں، کہیں بنا سوچے سمجھے ایسے ظالم شوہروں کے حوالے کردیتے ہیں جہاں وہ ظلم کی ایک داستان بن جاتی ہیں ـیہود نصاریٰ بچیوں کو زندہ درگور کرتےتھے، ہم بھی انہیں کی طرح جیتے جی انہیں زندہ درگور کردیتے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ وہ قبر میں صرف ایک ہی بار مرتی تھیں، ہماری بچیاں روز مرتی ہیں روز جیتی ہیں ـ
سوچیے خدارا۔۔۔
پھر کبھی یہ لڑکیاں جرأت کرکے خود کہیں کورٹ میرج کرلیں یاگھر سے بھاگ جائیں توخاندان سے باغی کہلائیں، پھر اس جرم میں انہیں کاروکاری کرکے قتل کردیا جائے، یاہمیشہ ان سے قطع تعلقی کردی جاتی ہے، یاانہیں جعلی کیسوں کی نذر کردیا جائے، کہاں کا یہ انصاف ہے؟؟ میں ایسے کاموں کی حمایت نہیں کر رہا لیکن سوچیں کہ وہ ایسا کرنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟؟
خدارا!! صنف نازک کی زندگیوں کا سوچیں،وہ بھی انسان ہیں ان کا خیال رکھیں، ان کے احساسات کو سمجھیں، ان کی پسند ناپسند کا خیال کریں، اپنی انا کی خاطر انہیں قبائلی رسوم کے حوالے نہ کردیں، نکاح کو آسان کریں، جہاں مناسب رشتہ ملے بسم اللہ کردیجیے، اس میں آپ کی اور خاندان کی عزت ہے، دین ودنیا کی بھلائی ہے۔اگر ایسے نہیں تو لڑکیاں کورٹ میرج بھی کریں گی، گھر سے باغی بھی ہونگی، اپنی خواہشات کے لیے وہ غلط راہیں بھی تلاش کریں گی، پھر کسی اور کو مجرم نہ کہیں، الزام کسی اور کے سر مت تھوپیں، مجرم صرف آپ ہیں، جی ہاں!! آپ خود، سماج، خاندان اور قبیلہ!!

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مجرم کون؟؟

  1. Islam ne iss firz ko buht asan ker ke pesh keya mger hemare semaj me wo dekyanosi oor fersoda resomat ki wejah se hewa ki beti ko uss bunyadi hek se mehroom rekha jata h, jis se na serf aik sheks k zindgi ke ehsasi ketl hota h meger uske sath smaj me buhr sari burayan jnum leti h. Buht khoob semaj k kerwi sechai ki terf mutwaja keya h

Leave a Reply