خواتین کے حقوق کا محافظ کون۔۔غلام مرتضیٰ

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
8 مارچ کو ہر سال عالمی سطح پر خواتین کا دن منایا جاتا ہے_ تحریک آزادی ء نسواں کی علمبردار خواتین بڑے جوش و خروش سے جلسے جلوس کا اہتمام کرتی ہیں۔ جس میں وہ طرح طرح کے مطالبات کرتی نظر آتی ہیں، اگر غور وفکر کیا جائے تو وہ نعرہ تو حقوقِ نسواں کا لگاتی ہیں، مگر اس کے درِپردہ وہ ایک خفیہ مشن کی تکمیل کرنا  چاہتی ہیں۔

اسلام نے خواتین کو جو حقوق فراہم کیے ہیں، اسلام سے پہلے ان کو دیکھنا تو درکنار سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، کیوں کہ عورت کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں تھی، پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا،بنتِ حوّا کے وجود کو ناپاک اور باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا، مگر اسلام نے  صنفِ نازک کو ہر لحاظ سے فضیلت و مقام سے نوازا، کبھی ماں کی عظمت کی صورت میں، کبھی بہن کے احترام کے لحاظ سے، کبھی بیٹی کے تقدس کے اعتبار سے، کبھی بیوی کے رتبے کی شکل میں۔

مگر افسوس کہ آج تہذیب سے ناآشنا عورتیں مغربی پروپیگنڈے  سے متاثر ہوکر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ مغربی تہذیب وتمدن نے بنتِ حوّا کو مرد کے روایتی استحصال سے نجات دلائی ہے، لیکن اگر عقلِ سلیم سے غور وفکر کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی مانند واضح ہو جاتی ہے کہ مغربی کلچر نے عورت کو اسکے گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر اسکی عزت و ناموس کو سرِ بازار رسوا کر دیا ہے۔اگر مکتبۂ محمدیہ کی تعلیمات کا سرسری نظر سے ہی سہی مطالعہ کریں تو آپ کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ “اسلام خواتین کا حقیقی محافظ ہے” دنیا کے  تمام مذاہب میں اگر کسی مذہب نے صحیح معنوں میں عورت کو احترام بخشا ہے تو وہ دینِ اسلام ہے، کیوں کہ مذہبِ اسلام نے تو مرد سے تین گنا زیادہ عورت کا حق رکھا ہے، کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں، کہ ایک شخص نے آ کر کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) لوگوں میں سے میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا، پھر کون؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے کہا اسکے بعد کون؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ_
(صحیح البخاری)
دینِ اسلام عورت کو اس قدر احترام دیتا ہے کہ اس کا مذاق اڑانا تمسخر کرنا اور بُرے ناموں سے پکارنے کو بھی منع کرتا ہے۔
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے ،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ، نہ ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے پکارو، ایمان کے بعد فسق ہونا بُرا نام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی وہی اصل ظالم ہے۔
(سورۃُ الحجرات)

Advertisements
julia rana solicitors

حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور اہلِ مغرب کی نظر میں عورت کا مقام ایک مارکیٹ پروڈکٹ یا ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے وہ تو چاہتے ہیں کہ آج بنت ِحوا کی معصومیت، شرم و حیا، اور عفت و پاکدامنی سرِ بازار رُسوا ہو۔یہ انسانی تاریخ کا عظیم المیہ ہے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نہ  زن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہا دین سے گر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply