• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری حکومت کے درمیان مناسب ورکنگ ریلیشن شپ کا میکنزم۔۔۔۔۔ غیور شاہ

اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری حکومت کے درمیان مناسب ورکنگ ریلیشن شپ کا میکنزم۔۔۔۔۔ غیور شاہ

پاکستان کو آزاد ہوئے اب 71 سال پورے ہو چکے ہیں — یہ سارا وقت ہم نے آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے گزارا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نسلی تعصبات اور فرقہ پرستی کا شکار ریوڑ تو بن چکے ہیں مگر وہ ایک قوم نہیں بن سکے جو پوری دنیا میں اہنا تعارف فخریہ انداز میں “پاکستانی دی گریٹ” کہہ کر کروا سکے

اسٹیبلشمنٹ کوئی دوسری یا تیسری مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہم جیسے دوسرے پاکستانی ہیں اور ہمارے آپ کے عزیز و اقارب میں سے چند ایک ہیں — وطنِ  عزیز میں واضح طور پر مقتدر طاقتوں اور عوام میں بڑی خلیج نمایاں ہے — اگر مقتدر حلقوں میں عوامی نمائندوں کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے تو عوامی نمائندگان بھی مقتدر حلقوں کے بارے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

یہ تو اب طے ہے کہ ملک چلانے کے لئیے جمہوریت کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن ہے ہی نہیں — یہ دور گلوبل ویلج کا ہے اور ہم 1977ء کی جگہ 2018ء میں جی رہے ہیں — سیاستدانوں اور مقتدر طاقتوں کو فی الفور یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ اب جمہوری فریم ورک میں رہتے ہوئے اور اسے مضبوط بناتے ہوئے باہمی تعاون اور اعتماد کی فضاء کو پیدا کرنا وقت کی اشد ترین ضرورت ہے

جیسے سیاستدانوں کو شکایات ہیں کہ مقتدر طاقتیں جمہوری نظام میں دخل اندازی کرتی ہیں اور جمہوریت کو اپنے مخصوص نظام کو قائم رکھنے کے لئیے چلانے کی کوشش کرتے ہیں بالکل ویسے ہی مقتدر طاقتوں کو بھی شکوہ ہے کہ سیاستدان اداروں کو اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی دباؤ کے تحت زیرِ  نگیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں —

سیاست اور تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے راقم نے 1984ء میں اپنی کالج لائف کے آغاز سے ہی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی آپسی کھینچا تانی کے سلسلہ کا مشاہدہ کیا ہے — ملک کی بنیادوں کے ان دو اہم ترین ستونوں میں کیسے ہم آہنگی اور اعتماد کو فروغ دیا جا سکتا ہے ؟۔۔۔۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئیے ہمیں مہذب ممالک میں اہم اداروں اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ, اداروں کے سربراہان کی تقرری کا طریقہ کار اور اداروں کو بغیر سیاسی دباؤ کے آزادانہ کام کرنے کے ماحول کا عمیق مطالعہ درکار ہے

مختلف ممالک میں موجود ان معاملات کو دیکھنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ مہذب جمہوری دنیا کی طرح ہمارے یہاں بھی اداروں کے سربراہان کا تقرر وزیر اعظم اور ان اداروں کی بجائے پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا جائے۔۔۔۔مثلا” ہائی کورٹ کے ججز کے تقرر کے لئیے پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانونی امور میں حکومت و اپوزیشن کے مساوی اراکین شامل کر دیں جن کی سفارشات پر ہائی کورٹ کے ججز کا تقرر کیا جائے .. اس سلسلہ کو ہائی کورٹ کے ججز کے تقرر تک ہی محدود رکھا جائے اور وہی ججز مخصوص مدت کے بعد سنیارٹی لسٹ کے حساب سے ترقی پا کر سپریم کورٹ کے ججز و چیف جسٹس بن سکیں —

اسی طریقہ کار کو آرمی, نیوی, ائیر فورس چیف صاحبان, چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی, ڈی جی ایس پی ڈی, ڈی جی آئی ایس آئی, ڈی جی ملٹری انٹیلی جینس, ڈی جی آئی بی, صوبوں کے آئی جی پولیس صاحبان, چئیرمین نیب اور صوبوں کے چیف سیکریٹری صاحبان و پراسیکیوٹر جنرل وغیرہ کے لئیے بھی اختیار کیا جائے — ہائی کورٹ کی ماتحت عدالتوں اور ان اداروں کے ماتحت شعبہ ہائے جات کی تقرریاں پارلیمنٹ سے منتخب شدہ صاحبان کے ذمہ قرار دے دی جائیں۔

چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے اعلی عہدے دار فردِ  واحد یعنی وزیر اعظم, وزیر اعلی اور متعلقہ وفاقی/ صوبائی وزیر کو سپیرئیر ماننے سے گریزاں ہوتے ہیں تو پارلیمنٹ کی یہی متعلقہ کمیٹیاں ہی اداروں کے بجٹ, ان کے آڈٹ, ان کی کارکردگی اور ان کے چیف صاحبان کی معطلی و برطرفی کا اختیار رکھتی ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ طریقہ کار ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ میں اعلی عہدوں پر فائز شخصیات اور جمہوری لیڈروں کے مابین معقول ورکنگ میکنزم قائم ہو سکتا ہے — نیز ان اداروں کی خود مختاری بھی قائم رہ سکتی ہے اور ان اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے باز رکھا جا سکتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply