معافی – ایک تہذیبی قدر /کامریڈ فاروق بلوچ

۱۔ تمہید — معافی: لفظ سے آگے کی حقیقت

ہر تہذیب کی بنیاد کچھ ایسی قدروں پر رکھی جاتی ہے جنہیں نہ آئین تحریر کرتا ہے نہ ادارے نافذ کرتے ہیں۔ یہ وہ غیر مرئی اصول ہوتے ہیں جو معاشرت کے باطن میں خاموشی سے سانس لیتے ہیں۔ معافی بھی انہی اقدار میں سے ایک ہے۔ بظاہر یہ ایک کمزور عمل ہے—جیسے کوئی مظلوم دبے لفظوں میں کہہ دے: “تمہیں معاف کیا”، لیکن باطن میں یہ سب سے طاقتور فیصلہ ہوتا ہے۔

معافی وہ خاموش اعلان ہے جو غصے کو تھام لیتا ہے، انتقام کو دباتا ہے، اور انا کو مات دے دیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی حدود سے نکل کر انسانیت کے وسیع میدان میں قدم رکھتا ہے۔ معاف کرنا بزدلی نہیں، بلکہ شعورِ کامل کی علامت ہے۔

۲۔ عفو کی تاریخ — قوت کی اعلیٰ ترین صورت

تاریخ کی کتابیں ان بادشاہوں کے قصے سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے اپنے دشمنوں کو شکست دی، لیکن وہ ابواب کم ہیں جن میں کسی غالب نے معافی دے کر عظمت کمائی ہو۔ لیکن جہاں بھی یہ واقعہ رونما ہوا، وہ لمحہ تاریخ کا چراغ بن گیا۔

فتح مکہ کا دن اس زمین پر انسانیت کا سب سے بلند دن ہے۔ جنہوں نے حضور اکرمؐ کے خلاف دشمنی کی انتہا کر دی تھی، وہ شکست خوردہ حالت میں خانہ کعبہ کے سائے میں کھڑے تھے۔ لیکن رسولِ رحمتؐ کی زبان سے وہ جملہ ادا ہوا جو رہتی دنیا تک معافی کے مفہوم کو مقدس بنا گیا:
“جاؤ، تم سب آزاد ہو۔”

یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا، یہ تہذیبِ محمدیؐ کا روحانی مظہر تھا۔ جو بدلہ لے سکتا تھا، اُس نے معاف کیا۔ جو طاقت رکھتا تھا، اُس نے درگزر کیا۔ اور جو فتح کا مالک تھا، اُس نے عاجزی سے تاریخ لکھ دی۔

۳۔ معاف کرنے والا — سب سے بڑا فاتح

سقراط نے زہر کا پیالہ قبول کیا، لیکن بددعا نہ دی۔ عیسیٰؑ صلیب پر چڑھتے وقت بھی معاف کرتے رہے۔ امام حسینؑ کے لشکر نے شمر کو روکا نہیں، اپنے ظرف کو بلند رکھا۔ یہ سب معافی کے چراغ تھے—روشنی کے سفر کے مسافر۔

معاف کرنا طاقت کی انتہا ہے، اس لیے ہر کوئی اس کا اہل نہیں۔ انتقام کا نشہ وقتی سکون دے سکتا ہے، لیکن معافی روح کو وہ بلندی دیتی ہے جس پر صرف وہی پہنچتا ہے جو دل کی سلطنت میں بادشاہ ہو۔

میری زندگی میں چند ایسے لمحے آئے جب میں بدلہ لے سکتا تھا، لیکن میں نے معاف کیا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ میں نے اپنے دشمن کو نہیں، خود کو آزاد کیا۔ میری روح کا بوجھ اتر گیا اور ضمیر نے شکر ادا کیا۔

۴۔ عہدِ جدید میں معافی — رویوں کی شکست

آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں معافی کو کمزوری، مروّت کو بزدلی، اور درگزر کو غفلت سمجھا جاتا ہے۔ جدید انسان نے اپنی انا کو خدا بنا رکھا ہے۔ وہ جھکنے کے فن سے ناواقف ہے، اور معاف کرنے کی نعمت سے محروم۔

سوشل میڈیا کے اس عہد میں معافی پبلک پوسٹ بن چکی ہے، اخلاص مجازی ہو چکا ہے، اور دل کی کشادگی محض دکھاوا۔ ہم نے تہذیب کی سب سے لطیف روشنی کو بازار کی مصنوعی روشنیوں میں گم کر دیا ہے۔ جس معاشرے میں معافی ختم ہو جائے، وہاں انصاف قہر بن جاتا ہے اور تعلقات سود و زیاں کے پلڑے میں تولے جاتے ہیں۔

۵۔ اختتامیہ — معافی: تہذیب کا سب سے نازک گلدستہ

معافی ایک خالص عمل ہے—دل کی زمین میں اگنے والا ایسا پودا جس کی آبیاری خونِ دل سے ہوتی ہے۔ یہ وہ خوشبو ہے جو وقت کے ساتھ تیز ہوتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو اندھیرے دلوں کو روشن کرتی ہے۔

تہذیبیں تلوار سے نہیں، نرم گفتار سے زندہ رہتی ہیں۔ عمارتیں اینٹ پتھر سے بنتی ہیں، لیکن قومیں معافی، مروّت، درگزر، اور بردباری جیسے اصولوں سے جنم لیتی ہیں۔

julia rana solicitors

ہمیں معاف کرنا سیکھنا ہو گا۔ نہ اس لیے کہ دوسرا شخص اس کا اہل ہے، بلکہ اس لیے کہ ہم اپنی روح کی بلندی کے اہل ہیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply