فیض احمد فیض : بچپن سے اسیری تک ۔۔۔۔۔اسلم انصاری

فیض احمد فیض سیالکوٹ کے ایک جاٹ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 13 فروری 1911ء کو سلطان محمد کے گھر گائوں ’’کالا قادر‘‘ نزد نارووال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان محمد معروف وکیل تھے۔ فیض کے ذہن پر ان کے والد کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔ ان کے والد ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ انہیں علم و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ اپنے عہد کی نامور ہستیاں شیخ عبدالقادر‘ علامہ سید سلیمان ندوی، صاحبزادہ آفتاب احمد خان وغیرہ سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ ان کی دو انگریزی تصانیف عبدالرحمن کی سوانح عمری اور افغانستان کے دستوری قوانین مشہور ہیں۔

آپ کی والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا جو دیندار خاتون تھیں۔ فیض احمد فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز روایتی طریقے سے ہوا اور والدہ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ فیض نے تین سپارے بچپن میں حفظ بھی کئے تھے مگر آنکھوں میں تکلیف ہونے لگی اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا اور اس سعادت سے محروم رہے۔ 1916ء میں فیض کو مولانا ابراہیم کے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے ابجد پڑھی‘ عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ان سے لیا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد 1921ء میں اسکاٹ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور جماعت چہارم سے میٹرک تک یہاں پر تعلیم حاصل کی۔ فیض کو ابتدا ہی سے ادب سے لگائو تھا اور سکول کے زمانے میں ہی وہ عبدالحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول پڑھ چکے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ داغ‘ میرؔ اور غالبؔ کا کلام پڑھنے سے ان میں شعری ذوق پیدا ہوا۔

میٹرک تک بہت سے انگریز ادیبوں کو بھی پڑھ چکے تھے۔ 1927ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے 1929 میں ایف اے کے امتحان میں بھی اول آئے۔ اس کالج میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولوی میر حسن سے فیض حاصل کیا۔ ایف اے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم ان کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ ان کے والد معروف وکیل تھے مگر انہوں نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا تھا جو کچھ گھر پر موجود تھا اس کو بیچ کر مختلف افراد کا وہ قرض جو فیض کے والد کے ذمہ تھا ادا کیا گیا اور گھر پر رکھے گئے چالیس کے قریب ملازمین کو بھی فارغ کر دیا گیا۔

فیض نے ان حالات میں معاش کا سلسلہ چلانے کے لیے ایک کاروباری ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے رہے۔ 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج میں دوران تعلیم انہیں کامل اساتذہ پطرس بخاری اور لینگ ہارن کی تلمندی کا شرف حاصل ہوا۔ شاعری میں صوفی غلام مصطفی تبسم سے اصلاح لیتے تھے۔ فیض گورنمنٹ کالج لاہور کے پطرس بخاری کی قائم کردہ ادبی مجلس ’’بزم احباب‘‘ کے روح رواں تھے۔ گورنمنٹ کالج کی دوسری ادبی تنظیم بزم سخن کے بھی سرگرم کارکن تھے اس ادبی مجلس میں ان کے ساتھ ن م راشد‘ امتیاز علی تاج‘ چراغ حسن حسرت جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی شامل تھیں۔ 1934ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا اور یہ امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1935ء میں ایم اے او کالج امرتسر سے تدریسی خدمات کا آغاز بطور انگریزی استاد کیا۔

اس کالج کے وائس پرنسپل معروف ترقی پسند ادیب محسود الظفر تھے۔ یہاں پر فیض کی ملاقات بیگم رشید جہاں‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور سجاد ظہیر سے ہوئی اور ان کے خیالات میں ایک واضح انقلاب رونما ہوا 1936ء میں سجاد ظہیر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی تو فیض نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور لاہور میں اس کی بنیاد رکھی۔ لاہور آ کر فیض کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا وہ ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیرمقرر ہو ئے۔ 1940ء میں ہیلے کالج آف کامرس لاہور میں استاد مقرر ہوئے۔ یہاں پر دو سال تک ملازمت کی۔ اسی دورانیے میں 1941ء میں آپ کی شادی ڈاکٹر ایلس جارج کے ساتھ انجام پائی۔ یہ شادی اسلامی طریقے سے ہوئی۔ ان کے ہاں دو بیٹیاں سلیمہ اور منیزہ پیدا ہوئیں۔

فیض 1942ء سے دسمبر 1946ء تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ رہے۔ آپ نے کیپٹن کے عہدے پر ملازمت شروع کی اور 1943ء میں میجر کے عہدے پر ترقی پا گئے اس سال انہیں فوجی خدمات کے صلے میں ایم بی ای کا خطاب ملا اور 1944ء میں کرنل کا عہدہ تفویض ہوا۔ 1946ء میں فوج سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ صحافت کی طرف آ گئے اور میاں افتخار الدین کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز اور اردو اخبار روزنامہ امروز کے مدیر ہو گئے قیام پاکستان کے بعد سیاست کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ 947ء سے 1951ء تک اس تنظیم کیلئے کام کرتے رہے۔ 1948ء میں سان فرانسسکو (امریکہ) میں ہونے والی مزدور تنظیم کے مدوبین میں شامل تھے۔

اس سال انہیں عالمی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا اور یہ رکنیت 1971ء تک برقرار رہی۔ 1951ء میں آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر ہو گئے۔ اس سال ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ آیا جس نے ان کی خانگی و مجلسی زندگی کو بہت متاثر کیا اور انہیں سخت مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ ان کی نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتاری کا واقعہ تھا۔ آپ کو اس کے تحت 9 مارچ 1951ء کو گرفتار کیا گیا۔ اس کیس کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 22 فروری 1951ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل اکبر خاں کے گھر میٹنگ ہوئی جس میں فیض بھی موجود تھے اس میں جنرل اکبر نے حکومت کا تختہ الٹتے کی سکیم دی جسے مبینہ طور پر حاضرین نے کئی گھنٹے کی بحث و تمحیص کے بعد مسترد کر دیا اور طے کیا گیا کہ حاضرین میں سے کوئی بھی شخص کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کرے گا۔ یہی میٹنگ راولپنڈی سازش کیس کی بنیاد بنا دی گئی اور دو ہفتے بعد فیض‘ جنرل اکبر خاں‘ بیگم جنرل اکبر خاں‘ سجاد ظہیر اور چند دوسرے افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ فیض احمد فیض چار سال دو ماہ تک مختلف جیلوں میں قید رہے دوران قید پہلے تین ماہ قید تنہائی کی سزا ملی حتیٰ کہ کاغذ قلم استعمال کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قید تنہائی کے خاتمے کے بعد 1955ء میں دیگر اسیروں کے ساتھ رہا ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  اردو کلاسیک

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply