پاک بھارت یومِ آزادی اور کشمیری ریاست۔۔۔۔۔ثاران ملک

کشمیر کے لوگ کبھی بھی دونوں ممالک کے دشمن نہیں تھے نہ ہیں نہ ہوں گے ۔ کشمیری شہری ہونا ہمارے لیے دونوں ممالک کا اپنے مفادات کی خاطربنایا گیا وہ مسئلہ ہے جس میں ہم کشمیریوں کو فریق تک نہیں بنایا گیا ۔ یہ دنیا کا کونسا قانون ہے ۔ مانا کہ قانوں اندھا ہوتا ہے لیکن انسانیت کی تذلیل کب تک کرتے رہیں گے؟ کب تک کشمیری ریاست کے لوگ انکے ہاتھوں اپنی عزت لٹواتے رہیں گے۔ مانا کہ پاکستان کے شہری بولتے  ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہم نے تمہاری عورتوں کی عزت نہیں کم کی، لیکن  انڈین آرمی کشمیری عورتوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہے ۔ہمارے کتنے  بچے دونوں ملکوں کے مفادات کی وجہ سے یتیم ہوئے، کتنے نوجوان قتل کیے گئے ، کتنی بچیوں کا سہاگ اجڑا اس پر ہمیں  آنکھیں کھول کر سوچنا چاہیے۔لیکن  ہمارے کشمیری سیاست دانوں کی کونسی عزت کی جاتی ہے؟ ہمارے سیاست دانوں کو پہاڑی بکرا اور کیا  کچھ نہیں بولا جاتا ہے ۔ فیاص الحسن جیسوں کو کب تک پاکستان پالے   گا ؟ کب تک تذلیل ہوتی رہے گی؟ یہ تو ایل او سی کے ا س طرف کا حال  ہے اگر ایل او سی کی دوسرا طرف دیکھا جائے تو  تو کب تک ارنب گوسوامی شٹ اپ کی کال دیتا رہے گا ؟ اقوام متحدہ کب تک نیند کی گولیاں لے کر سوتا رہے گا؟ یہ تو وہ کیس ہیں جو یوٹیوب پر آپ کو آسانی سے مل جاتے ہیں ، آپ انکی منافقانہ سوچ  کا انکی فلم نگری سے اندازہ لگا سکتے ۔ کبھی یہ آزادی کے نام کی اور کبھی وہ جولی ایل ایل بی ٹو بنا کر بتا بھی دیتے  ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ یہ کر رہے لیکن  کچھ غلط ہم خود بھی ہیں کہ ہمیں   سب پتا ہونے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور نہ ہم انکی فلمز کو دیکھ کر اندازہ لگا پاتے ہیں یہ کشمیریوں کو کس نگاہ  سے دیکھتے ہیں۔

دونوں ہی اٹوٹ انگ اور شہ رگ ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ اس کو مذہب کا   نام دے کر حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ پنڈت نہرو کا تو آبائی وطن تھا کشمیر لیکن  وہ بھی کچھ نہیں کر سکے ۔ اسکے بعد والوں نے اللہ اور بھگوان کو ساکشی مان کر کشمیریوں کے  ساتھ وہ عظیم کارنامے سر انجام دیے  کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں  بھی چپ رہیں ،انکو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ پہلےانسان بعد میں کشمیری ہیں ۔ یہاں ہم رونا نہیں رو رہے بلکہ یہ احساس دلوانا چا رہے ہیں کہ ہم بھی برصغیر کا حصہ تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن  ہمارے ساتھ اپنے شہریوں جیسا نہیں تو انسانوں جیسا سلوک  تو کیا جائے کم از  کم  ، کب تک فنڈ دے کر خریدتے رہیں گے؟ اگر وہی فنڈ یہ کشمیریوں پر لگا دیں ان کی  اچھی صحت ، روزگار اور ایجوکیشن پر لگا لیتے تو کشمیری خود دونوں قابض ممالک کو دل سے قبول کر چکے ہوتے ۔ کب تک سرحد کے اس پار مقبول بٹ کو پھانسی اور سرحد کے اس پار اسکے ساتھیوں کو شاہی قلعے میں الٹا لٹکایا جاتا رہے گا۔ اسکے بعد بھی یہ دونوں   کہتے ہیں  14،15  اگست کو ہمارے جھنڈے لے کر گلیوں اور شہروں میں جلوس نکالو اور کشمیر اٹوٹ انگ ہے اور شہ رگ ہے کےنعرے بلند کرو۔ اور جو   اس کام سے خود کو الگ کرنے کی بات کرتا  ہے اس پر غدار اور دیش دروھی  کا الزام لگا دو۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم کشمیری انکی آزادی یا بٹوارے میں شریک تو نہیں ہو سکتے لیکن  ہم انکی آزادی یا بٹوارے کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ہمیں   اس میں شر یک نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے ۔ تمہیں تمہاری آزادی یا بٹوارہ  مبارک ہو۔۔۔۔۔
برصغیر ہمیشہ آباد رہے ۔ اس برصغیر پر ہر ہندوستانی ،پاکستانی، کشمیری، نیپالی، بھوٹانی، بنگالی ، مالدیپی اور سری لنکن کی زندگی قربان ۔ برصغیر کی جے ہو، برصغیر زندہ باد!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply