دینی مدارس کے طلباء کے لیے ایم فل/پی ایچ ڈی

دوست کا سوال ہے کہ میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوں، میرے پاس وفاق کی شہادۃ العالمیۃ ہے، میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں، اس بارے مشورہ درکار ہے۔
دینی مدارس کے طلباء کا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طرف آنا بہت ہی خوش آئند ہے اور اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ وہ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں آئیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ اسکول، کالج اور یونیوسٹی کے ماحول میں آ کر اسی رنگ میں رنگے بھی جاتے ہیں لیکن اس سے گھبرانا نہیں چاہیے کہ ایسے طلباء کی تعداد دس فی صد سے زائد نہیں ہے اور دینی مدارس کے طلباء کی اکثریت جدید تعلیمی اداروں میں دینی اقدار کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ میں تو ایسے طلباء کی بہت حوصلہ افزائی کرتا ہوں لیکن اس وصیت کے ساتھ کہ اپنے دینی سیٹ اپ اور روایت سے جڑیں رہیں ورنہ اصلاح کرنے آئیں گے اور خود کی اصلاح کروا جائیں گے۔
دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء جو ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ ایف-اے، بی-اے کر کے اس لائن میں آئیں۔ اگرچہ ایچ ای سی دینی مدارس کے طلباء کو ان کی وفاق کی اسناد کے معادلے میں ایکوئیلینس جاری کر دیتی ہے لیکن یہ ایکوئیلنس محض اعلی تعلیم کے حصول کے لیے تو کارآمد ہے لیکن ملازمت اور جاب میں نہیں، یعنی قانونی طور تو ملازمت اور جاب کے لیے بھی اس کی وہی حیثیت ہے جو اعلی تعلیم کے لیے ہے لیکن عملا ایسی اسناد والوں کو جاب اور ملازمت میں ترجیح نہیں دی جاتی ہے، اسے تعصب کہہ لیں یا جو بھی کہہ لیں، بہر حال ایٹی چیوڈ یہی ہے۔ اگر آپ کا مقصد صرف ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ہے تو ایکوئیلنس کی بنیاد ہر کسی بھی یونیورسٹی میں ایم فل یا پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیں کہ یونیورسٹیوں کا مقصد کاروبار ہے نہ کہ تعلیم، وہ فیسیں لے کر ڈگری دینا چاہتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ آپ کو اس ڈگری کا کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں ایکوئیلینس کی بنیاد پر ایڈمشن دیتی ہیں اور کچھ نہیں دیتی ہیں۔
لیکن اگر آپ کا مقصد ڈگری کے حصول کے بعد اسکول، کالج اور یونیوسٹی میں جاب کرنا ہے تو پھر ایف۔اے، بی۔اے کر لیں کہ مارکیٹ میں کمپٹیشن بہت زیادہ ہے۔ جب آپ جاب کے لیے اپلائی کرین گے تو انٹرویو پینل میں بیٹھے لوگ ایف۔اے، بی۔اے کی ڈگریاں رکھنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے قانونی طور آپ کی ڈگری کی حیثیت ان کے برابر ہی کی تسلیم کی گئی ہو۔ اور یہ صرف دنیاداروں میں نہیں ہے بلکہ دینداروں میں بھی ہے۔ اور کوشش کریں کہ سرکاری یونیورسٹی سے ڈگری لیں کہ اکثر پرائیوٹ یونیورسٹیوں کی ڈگریاں اپرووڈ نہیں ہوتیں، تھوک میں داخلے دے دیتے ہیں، اور ان کے پاس فیکلٹی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اتنے بچوں کو مقالے کروا سکے لہذا بعد میں پریشانی ہوتی ہے اور اسٹوڈنٹس رل جاتے ہیں۔
میں نے جب 2003ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایڈمشن کے لیے ٹیسٹ دیا تھا تو تقریباً 150 لوگوں میں سے 16 نے ٹیسٹ پاس کیا تھا اور سیٹیں 15 تھیں، اب ایک بندہ انھوں نے فارغ کرنا تھا اور وہ مجھے ہی کیا گیا کہ میرے پاس وفاق کی سند تھی اگرچہ اس کے لیے پنجاب یونیورسٹی ہی کا ایکوَیلینس تھا، اور میں میرٹ میں بھی کافی اوپر تھا اور میرے پاس پنجاب یونیورسٹی کی ایم۔اے کی سند بھی تھی لیکن عربی میں تھی، اور پری انجینیئرنگ کے بعد میری گریجویشن بھی ڈبل میتھس کے ساتھ پنجاب یونیوسٹی ہی سے تھی، بس اسلامیات میں ایکوئیلینس سے کام چلانے کی کوشش کی لیکن مجھے یہ بتلا کر ریجیکٹ کیا گیا کہ آپ کے پاس ایم اسلامیات کی ڈگری نہیں، ایکوئیلنس ہے۔
بعد میں شیخ زاید اسلامک سنٹر میں پی ایچ ڈی کے ایڈمشن کے لیے ٹیسٹ ہوا تو 5 سیٹیں تھیں لیکن تقریبا 150 میں سے ہی 3 افراد نے صرف ٹیسٹ پاس کیا جن میں سے ایک میں بھی تھا، دوسرے میرے برادر ان لاء تھے، تیسرے میرے استاذ تھے۔ یہ واقعہ اس لیے بیان کر دیا کہ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ آپ جتنے قابل بھی ہو جائیں، یا میرٹ پر آ جائیں، محض مدرسہ کی ڈگری آپ کے کیریئر میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس لیے اگرچہ رستہ تھوڑا لمبا ہے لیکن سیدھا رستہ اختیار کریں اور ایف۔اے، بی۔اے کے ساتھ اس میدان میں آئیں۔ اور اس سے آپ کا ایکسپوئیر بھی بڑھے گا اور لوگوں کو اعتراض کا موقع بھی نہ ملے گا، ورنہ تو یہاں اتنا رش لگا ہوتا ہے کہ انہیں بس انگلی رکھنے کا موقع ملنا چاہیے کہ آپ کو پیچھے کر دیں۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply