ایک کتا قریب المرگ تھا اور اس کا مالک اس کے قریب بیٹھا رو رہا تھا۔ وہ اس قدر رویا کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ روتا بھی جا رہا تھا اور ساتھ ہی آہ و فغاں بھی کر رہا تھا کہ اس کا وفادار اور بہت پیارا کتا مر رہا تھا۔ اس کے بین سن کر ایک فقیر رک گیا۔ اس نے کتے کے مالک سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ تیرے کتے کو کیا تکلیف ہے کیا یہ بیمار ہے یا اسے کوئی ٹھیک نہ ہونے والا زخم آ گیا ہے؟مالک نے جواب دیا کہ یہ بہت بھوکا ہے اس نے کئی روز سے کھایا کچھ نہیں۔ فقیر بولا: بھائی صبر سے کام لو‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں‘ وہ صبر کا پھل ضرور دیتا ہے۔ اتنے میں فقیر نے کتے کے مالک کی پیٹھ پر کوئی شے بندھی ہوئی دیکھی جو کپڑے میں تھی اور اس کی کمر پر لٹک رہی تھی۔ فقیر نے پوچھا: اے بندہ خدا! یہ تیری پیٹھ پر کپڑے میں بندھی ہوئی کیا شے لٹک رہی ہے؟ وہ شخص بولا: مجھے اس کتے سے اتنی محبت بھی نہیں کہ سفر کے لیے جو کھانا اپنے لیے رکھا ہوا ہے اس میں سے اسے کھلا دوں۔ روٹیاں پیسوں سے ملتی ہیں اور یہ آنسو جو ہیں اس کے لیے بہا رہا ہوں یہ فالتو اور بیکار ہیں ان پر میرا کچھ خرچ نہیں ہوتا سو میں بہا رہا ہوں۔ فقیر نے کہا: لعنت ہو تیری محبت اور عقل پر۔ تیری مثال پانی کے اس مشکیزے کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوئی ہو۔ تیرے نزدیک روٹی کا ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے او ناداں! آنسو وہ خون ہے جسے غم اور صدمہ پانی کی شکل دے دیتا ہے۔ ارے ظالم ! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہو سکتی ہے۔ (حکایت رومیؒ )
ایک دوسرے کے اوپر معاشی سبقت حاصل کرنے والے موجودہ دور میں فراغت اور جذبہ ہمدردی کی شدید قلت ہے۔ ہر رشتے‘ تعلق‘ دکھ اور درد کو سرمایہ میں تولا جاتا ہے۔ جذبے ماند پڑ رہے ہیں اور مغلوب ہیں جبکہ مفادات غالب آ رہے ہیں۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں روندے جانے والے اور آس پاس گرے ہوئے نظروں سے اوجھل ہیں۔ درد دل‘ غمخواری اور ایثار جیسے الفاظ صرف محاوروں اور قصے کہانیوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ سڑک پر پڑے ہوئے زخمی اور بستر پر لیٹے بیمار شخص کی مدد‘ احوال و مزاج پرسی اور تیمارداری کے لیے وقت اور تڑپ ختم ہو رہی ہے۔ اگر کوئی غرض ہے تو صرف اپنے آپ سے‘ شاید یہی وہ دور ہے جسے نفسا نفسی کا دور کہا گیا ہے۔ اپنے نفع کے لیے دوسروں کا حق مارنا اور انہیں نقصان پہنچانا باعثِ عار نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی مصیبت اور کٹھن وقت کی زد میں آ جائے تو اقربا و شناسا ایسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ جیسے کبھی ملے ہی نہ ہوں اور مصیبت زدہ انہیں یہ یاد کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ
کبھی ہم اور تم بھی تھے آشنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
انسانیت اور اس کے تمدن کی بنیاد باہمی اشتراک اور تعاون پر قائم ہے اس دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کی مدد کا محتاج ہے ‘ اگر ایک بھوکا ہے تودوسرے پر حق ہے کہ اپنے کھانے میں سے اس کو بھی کھلائے‘ اگر بیمار ہے تو جو تندرست ہو اس کی تیمارداری کرے‘ ایک پر اگر کوئی مصیبت آئے تو دوسرا اس کا شریک اور ہمدرد بنے اور اس اخلاقی نظام کے ساتھ انسانوں کی مجموعی آبادی‘ باہمی محبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کی گرہ میں بندھ کر ایک ہو جائے‘ ہر انسان بظاہر جسمانی و مادی حیثیت سے جتنا ایک دوسرے سے علیحدہ اور بجائے خود مستقل ہے اخلاقی اور روحانی حیثیت سے فرض ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے ملا ہواور ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے اتنا ہی پیوستہ ہو۔ہر انسان خواہ وہ کسی قدر صاحب دولت اور بے نیاز ہو‘ کسی نہ کسی وقت اس پر ایسی افتاد پڑتی ہے کہ اس کو دوسروں کا دست نگر ہونا پڑتا ہے اور اس کو دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے‘ اس لیے انسانی جماعت کے ہر رکن کا فرض ہے کہ وہ اپنے ایسے مصیبت زدہ بھائی کی ہر طرح مدد کرے اور اپنی موجودہ بہتر حالت پر مغرور ہو کر کبھی کسی حاجت مند کی حاجت روائی سے بے پروائی نہ برتے اور نہ یہ سمجھے کہ اس کو کبھی کسی دوسرے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بے نیاز صرف ایک ہی ذات ہے جس نے یہ صفت کسی اور کو نہیں دی ورنہ ہر انسان غرور کے شکنجے میں پھنس جاتا۔
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا۔
اگر ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کی سکت رکھتے ہیں تو اس کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے اسے چند باتوں میں یا جھوٹی اداکاری کر کے ٹرخانہ نہیں چاہیے ۔ اس کی مدد کرنے پر دنیا و آخرت میں درجات کی بلندی کا وعدہ ہے ۔آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گاتو اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گااور جو کسی مسلمان کی کسی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور فرمائے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ اپنے بندہ کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ جب آپﷺ کے پاس کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو آپ صحابہ سے فرماتے کہ تم سفارش کرو تو تمہیں بھی ثواب ملے گا۔ ایک دفعہ ارشاد ہوا کہ اگر کچھ اور نہ ہو سکے تو بے کس حاجت مند کی مدد ہی کیا کرو یہ بھی فرمایا کہ بھولے بھٹکے ہوئے کو اور کسی اندھے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو شخص راستہ چلتے میں کوئی کانٹا راستے سے ہٹا دے تو خداوند تعالیٰ اس کے اس کام کی قدر کرتا ہے اور اس کا گناہ معاف کرتا ہے۔
(پروفائل ٹائٹل‘ ہیچمداں)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں