رویے اور تعلقات

باہمی ہمدردی ، احساس اور احترام کا جذبہ تو انسان کی فطرت میں موجود ہی ہے لیکن ضروریات زندگی پورا کرنے میں بھی ایک دوسرے پہ انحصار اجتماعی زندگی کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں علاقائی اور مذہبی راوایات اس اجتماعی زندگی کی مختلف صورتوں پہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں جس کی ایک شکل خاندان ہے جس میں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس کا ڈھانچہ انہی بنیادوں پہ استوار ہونے کی وجہ سے مختلف ہے جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپی معاشروں میں سنگل پیرنٹ فیملی کا کانسپٹ بھی وجود میں آیا بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی یہ تبدیلی کے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے ۔

یہاں معاشرہ جوائنٹ فیملیز اور extended فیملیز (جس میں چچا ، خالہ ، ماموں ، پھوپھو وغیرہ کے خاندان بھی شامل ہیں) سے تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح انسان کے لیے سب سے اہم بات coexistence کو سیکھنا ہے کہ اکٹھے رہتے ہوئے معاملات اور معمولات زندگی کو کس طرح بہ احسن خوبی چلانا ہے .آپس میں ہونے والے اختلافات اور اٹھنے والے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے ۔ آپس مٰیں friction بعض اوقات نیچرل ہے لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ اسے address کیسے کیا جائے ۔ کیا اس مسئلے کو اچھے طریقے سے ختم کیا جائے یا اس سے مزید مسائل کو جنم دیا جائے۔

معاشرت اور آپس کے تعلقات جن سے سب کا واسطہ ہے اس میں در آنے والی خرابیوں سے انکار کسے ہے۔ہم اپنے مشرقی خاندانی نظام پہ فخر تو کرتے ہیں لیکن اس بات سے کسے انکار ہے کہ شریکا، فیملی پالیٹیکس، اور کھینچا تانی بھی یہیں مشرق میں زیادہ ہے اور مغربی معاشروں میں ان کا وجود بہت حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک دوسروں سے ملنا بھی اور دلوں میں بغض بھی ، چچا، تایا، پھوپھو، خالہ ماموں جیسے پیار بھرے رشتوں میں دلوں میں زہر رکھنا اور ایک فیملی میں دوسری فیملی کی برائیوں کو ڈسکس کرنا ایک محبوب مشغلہ ہے ۔کسی خوشی یا غمی کے موقع پہ بھی کسی دوسرے کی کوتاہی یا کمی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا ،ہر موقع پہ تشبیہ ، استعاروں ، اشاروں ،کنایوں اور لہجوں سے دوسروں کو ذلیل کرنے کی مذموم کوشش کرنا ۔۔اور اسی تناظر میں لفظ پھوپھو کو جس طرح سے گالی کے مصداق بنا دیا گیا ہے، ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ایک دوسرے سے حسد، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بلکہ دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا بھی ہے۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی کا اثر پھر یوں ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ رگوں میں گھولا جانے والا زہر رشتوں کا قاتل بن جاتا ہے اور رشتہ داریاں بھی باقی نہیں رہتی
اس سے اگلی بات تو یہ ہے کہ جن فیمیلز میں یہ عادات و اطوار اپنے زوروں پہ ہوتی ہیں وہاں ان کا اثر اور انجام یہیں تک نہیں رہتا بلکہ رشتہ داروں کے خلاف باتیں بچوں میں سوچ کے زاویے تشکیل دیتے ہیں اور ان کے اپنے بچے اگلی نسل میں آپس میں ۔۔ویسے ہی رویوں کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر وہی والدین اپنی اولاد کے اختلافات دیکھ کے دکھی ہو رہے ہوتے ہیں ۔۔حالانکہ وہ وہی کاٹ رہے ہوتے ہیں جو انہوں نے بویا تھا۔
ہمارے اس معاشرے میں کسی کے لیے معافی اگر ہے تو وہ اس کی موت کے بعد کہ ہم نے اسے معاف کیا جسے زندگی بھر معاف نہیں کیا ۔

Facebook Comments

حمزه صديق
Free thinker , a bit rebellious , social person , Love to connect to more and more thirsty souls

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”رویے اور تعلقات

  1. Thats was really interesting column ever i read. We need to focus on these kind of topic .This article develop realization among every individual belongs or represent families that how draw a line between right and wrong beliefs.

  2. حمزہ صدیق، ایک بہت اچھا، آپ نے معاشرے کے ایک انتہا ئ اہم مسلے کی نشاندہی کی ہے. آپ اس پہ مزید لکھے.

Leave a Reply