نیا وزیراعظم کون ہوگا؟

یہ بات خارج از امکان نہیں کہ میاں صاحب پانامہ کیس سے”زندہ” بچ جائیں گے۔۔۔ لیکن زبردست احتساب اور وزیراعظم کی طرف سے سازش کے ذکر کے بعد وزیرِاعظم کے عہدے کی “شہادت” کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وزیراعظم کُرسی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو وزیرِاعظم کون ہوگا؟ یہ سوال ہر طرف گردش کررہا ہے ۔ آئیے میرے ساتھ مل کر اس سوال کا جواب تلاش کیجئے۔

نیا وزیراعظم کون ہوگا؟۔۔ نیا وزیراعظم اُن لوگوں میں سے ہوگا جو وزیراعظم کے سب سے قریب ہیں ۔ وزیراعظم کے سب سے قریب لوگوں میں وفاقی وزراء ، چند ایم این ایز اور کچھ سینیٹرز ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ انتہائی قریبی ساتھی ہیں ، تاہم سینیٹر ہونے کی وجہ سے اُن کا وزیراعظم بننا ممکن نہیں۔۔ خواتین میں سے کسی کا بھی وزیراعظم بننا ممکن نہیں کیونکہ خواتین کو مخصوص نشستوں پر ایم این اے اور وزیرِ مملکت سے آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور نہ دیا جائے گا جبکہ خاتون اول کلثوم نواز اور شہزادی مریم نواز بھی اسمبلی سے باہر ہیں ۔وزیرِریلوے سعد رفیق شاہ کی وفاداری میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں، مخالفین کے ساتھ سخت زبان استعمال کرنا اُن کا وطیرہ ہے ، ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت نقطہ نظر رکھنے کی وجہ سے اُنھیں وزارت عظمیٰ کا بارِ عظیم نہیں سونپا جاسکتا ۔ خواجہ آصف صاحب کو وزیراعظم نہ بنائے جانے کی بھی یہی وجوہات ہیں ۔پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان دونوں سینیٹر ہیں اس لیے ان کے لیے بھی وزیر اعظم بننا ناممکن ہے ۔

وزیراعظم کبھی بھی اپنے داماد یا بھتیجے کو وزارت عظمیٰ دے کر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کریں گے۔رانا تنویر حسین (دفاعی پیداوار) اور خُرم دستگیر(تجارت) ، وفاقی وزیر ہونے کے باوجود پانامہ معاملے سے دُور دُور ہی رہے اور اپنی اپنی وزارتوں تک ہی محدود رہے ۔ یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ قیادت کے زیادہ قریب نہیں ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان پر کوئی بڑا”بوجھ”ڈالا جاسکتا ہے ۔جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے وزیراعظم بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ اُن کا فوجی ہونا اور کھرا ہونا ہے ۔ (فوجی کبھی ریٹائر نہیں ہوتا)اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ، راحیل شریف اُن سے راز و نیاز بھی کیا کرتے تھے ، شاید اِنہی وجوہات کی بنا پر ن لیگ کے “وقار” مخالف حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوں گے ۔برجیس طاہر (امورکشمیر) ، اور شاہد خاقان عباسی (پٹرولیم ) نہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر کُچھ سوچیں گے اور نہ ہی قیادت اُن کے بارے میں سوچے گی ۔

لہذا آئیے اب شارٹ لسٹڈ اُمیدواروں کے ناموں کا اعلان کریں ۔
ا۔ چوہدری نثار علی خان(وزیر داخلہ)
2۔ احسن اقبال (ترقیات منصوبہ بندی ، اصلاحات)
3۔ زاہد حامد (قانون و انصاف)
4۔ ریاض حسین پیرزادہ (سرحدی امور)

Advertisements
julia rana solicitors london

ا۔ وزیر داخلہ ۔
چوہدری نثار علی خان کھرے آدمی ہیں ، فوج سے بھی بنتی ہے اور پارٹی میں اپنی لابی ہے ، وزیراعظم کی نظر میں بڑی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے وزیراعظم کا عہدہ اُنھیں سونپا جاسکتا ہے ۔پی پی پی کے علاوہ پوری اسمبلی میں (بشمول پی ٹی آئی) چوہدری نثار علی خان قابل قبول ہوں گے ۔تاہم پینٹ کوٹ نہ پہننے ، اور “دیسی دیسی”لگنے کی وجہ سے چوہدری صاحب کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے۔
2۔ احسن اقبال ۔
انتہائی قابل اور محنتی وزیر ہیں ، اپنے کام کو دیانتداری سے کرتے ہیں ، ایک ایک لفظ سوچ کر ادا کرتے ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کے جانے کے بعد سب سے زیادہ خدشات سی پیک کے بارے میں ہوں گے ، اور اسی خدشے کو دُور کرنے کے لیے احسن صاحب کو وزیراعظم نامزد کیا جاسکتا ہے کیونکہ چائنیز حکام سے لے کر تمام صوبائی اور مرکزی قیادت کو ایک میز پر لانے اور سی پیک پر متفق کرنے میں سب سے بڑا کردار احسن اقبال کا تھا۔ احسن اقبال بھی ایک غیر متنازعہ اور قابل قبول نام ہوں گے ۔
3۔ زاہد حامد ۔
یہ جناب وزیر قانون ہونے کے باعث بہت سے قانونی مشوروں اور معاملات میں حکمران خاندان کے حامی رہے ہیں ، اُن کا نام سب کے لیے قابل قبول اور غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
4۔ ریاض پیرزادہ
انھیں اُسی صورت میں وزارت عظمیٰ دی جاسکتی ہے جب گورنر سندھ محمد زبیر کی طرح میاں صاحب ایک غیر متوقع شخصیت کا نام لیں ۔
پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی اور پی پی پی خورشید شاہ کو وزیراعظم کا اُمیدوار نامزد کرے گی ۔ وزیراعظم جو بھی ہو ، جمہوریت کا سفر جاری رہنا چاہیے ۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply