یومِ آزادی: تقسیم ہند کیوں ناگزیر تھی؟

آج جب ہم انڈیا کا 65واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔توکچھ لوگ اسے ہندوستان کی تقسیم کی 65 ویں برسی کے طور پر ماتم کرتے ہیں۔جس میں دس لاکھ لوگ مارے گئے اور ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو حفاظت کے لیے سرحدوں کے پار بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔

یوٹوپک کا کہنا ہے کاش تقسیم کبھی نہ ہوتی۔
جبکہ حقیقت پسندوں کے نزدیک تقسیم ہند ناگزیر تھی۔ میں ایک قدم آگے بڑھوں گا اور کہوں گا کہ یہ مطلوب تھا۔
اگر انگریز تقسیم کے بغیر چلے جاتے تو ہندو مسلم دشمنی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لیتی۔جو بالآخر ایک خونی تقسیم کی طرف لے جاتی۔ خانہ جنگی نے ہندوستان کو ہندو فرقہ پرستی اور تشدد کے گڑھ میں تبدیل کر دیا ہوتا۔ سیکولرسٹوں کو غدار یا بدتر کے طور پر نظرانداز کر دیا جاتا۔میرے نزدیک تقسیم ہند دراصل، ایک بہترین نتیجہ رہا ہے۔

کچھ نیک نیت ہندو چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک دوبارہ متحد ہو جائیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ یہ تجویز پاکستانیوں کو کتنی توہین آمیز لگتی ہے۔ پاکستانیوں کیلئے یوم آزادی دراصل ہندو تسلط سے آزادی کا دن ہے۔جو کہ برطانوی تسلط سے کسی طور کم نہیں ہے۔اُن کے نزدیک غیر منقسم ہندوستان میں واپسی کا مشورہ دینے کا مطلب ، ہندو غلبہ کی واپسی ہے۔ یہ زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے اتنا ہی توہین آمیز ہے جتنا کہ برطانوی راج کی واپسی کا مشورہ ہندوستانیوں کے لیے ہوگا۔
تقسیم ہند ناگزیر تھی۔ نوجوانوں کوبتلایا جانے والا یہ ایک افسانہ ہے کہ برطانیہ کو ہندوستان کو تقسیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سراسر غلط ہے۔ برسوں تک یہ بحث کرنے کے بعد کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
کہ جب انگریزوں نے انہیں 1946-47 کی عبوری کابینہ میں اکٹھا کیا۔تو جواہر لال نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ میں ناکام ہو گئے۔

مسلم لیگ کے وزیر خزانہ لیاقت علی خان نے کانگریسی وزراء کو اُن کی تجویز کردہ معمولی باتوں پر بھی مالی پابندیاں لگا کر ناراض کیا تھا۔ اس کے بعد لیاقت علی خاں نے 1947 میں نے دوسری جنگ عظیم میں بہت زیادہ منافع کمانے والے کاروباریوں کو بھگانے کے لیے ایک اعلیٰ ٹیکس بجٹ پیش کیا جیسے کانگریسیوں نے ایک مسلم وزیر خزانہ کے ہندو تاجروں پر حملے سے تعبیر کیا تھا۔ یہ ایک غیر ضروری، فرقہ وارانہ تشریح تھی جبکہ زیادہ ٹیکس ہندو اور مسلم کاروبار پر یکساں طور پر گرے۔ اس کے باوجود، کانگریس کے مضبوط رہنماؤں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جناح کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں۔ اور یہ کہ صاف ستھری تقسیم بہتر رہے گی۔ اسی طرح تقسیم کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے رضا کارانہ معاہدے کے ذریعے ہوئی۔
جیسا کہ آج ہم مخلوط حکومتوں کے اقلیتی شراکت داروں کی طرف متوجہ ہونے کے عادی ہیں۔ منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے 2004-09 میں اور 2009 کے بعد ممتا بنرجی نے خود کو
بائیں محاذ کی طرف جھکایا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو یہ حیرت انگیز لگتا ہے کہ نہرو اور پٹیل لیاقت خاں کی سوئی کو برداشت نہیں کر سکے۔ کُچھ لوگوں کےمطابق ،کاش اگر وہ اس وقت اپنا آپ ٹھنڈا رکھتے اور مسلم لیگ کو جگہ دے دیتے تو تقسیم ٹل جاتی اور برصغیر کہیں بہتر اور پرامن جگہ ہوتا۔

افسوس! لیکن یہ بات مسلمانوں کو اپنی ایک قوم کے لیے خواہش اور اس مقصد کے لیے بڑی قربانیاں دینے کے لیے تیار رہنے کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔
ایک پاکستانی نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ وہ جب ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں سنتے ہیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہندو تسلط اور سیکولرازم کے منافقانہ طرزِ عمل اور گھٹیا پن سے آزادی حاصل کی۔

اگر انگریز 1947 میں غیر منقسم ہندوستان چھوڑ دیتے تو مسلم لیگ اپنی علیحدگی کے لیے جدوجہد جاری رکھتی۔
1946 میں یومِ راست اقدام دراصل اس بات کا کھلم کھلا اعلان تھا کہ مسلمان ہندؤں کا غلبہ کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے۔
اور نہ ہی خاموشی سے بیٹھیں اور ہندو غلبہ کو خود پر قبول کریں گے۔ یہ تشدد انگریزوں کے بعد ہزار گنا دہرایا جاتا ۔اور بائیں جانب ہر نئے فساد کے ساتھ فرقہ واریت ہوتی۔ لہٰذا لامحالہ سیکولر قوتوں کا تختہ الٹ دیا گیا۔

اِس کی چھوٹی سی مثال یوگوسلاویہ ہے۔ جب وہاں کمیونزم اور آمریت کا خاتمہ ہوا تو سیکولروں نے جلد ہی فرقہ واریت کو راستہ دے دیا۔ جس نے کئی دہائیوں سے پرامن طریقے سے رہنے والی قوم کو الگ قومیت کی خواہش پر انھیں خونخوار قاتلوں میں تبدیل کر دیا۔ اس سے قبل مختلف برادریوں کے لوگ آپس میں شادیاں کر چکے تھے اور ساتھی رہ چکے تھے۔ لیکن ایک بار جب تشدد شروع ہوا تو اسے روکا نہیں جا سکا، اور سربی، کروشیائی اور بوسنیائی مسلمان نفرت سے بھرے تشدد کی لپیٹ میں آگئے۔ اس سے ہمیں ایک چھوٹا سا اندازہ ملتا ہے کہ ہندوستانی خانہ جنگی میں کیا ہوا ہو گا۔
ہندوستان کی طرح یوگوسلاویہ بھی مختلف مذاہب، زبانوں اور نسلوں کے لوگوں کا مرکب تھا۔ کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ مارشل جوزف ٹیٹو کی کثیر النسلی قوم کتنی نازک تھی۔ اور اسے کتنی آسانی سے فرقہ واریت کے ذریعے ختم کر دیا جا سکتا ہے۔ ٹیٹو کے بعد یوگوسلاویہ نہ صرف سربیا، کروشیا اور بوسنیا میں تقسیم ہو گیا بلکہ مقدونیہ، کوسوو اور مونٹی نیگرو میں بھی تقسیم ہوا

ہندوستان میں خانہ جنگی نے یوگوسلاویہ کی طرح متعدد تقسیم  کو جنم دیا ہوگا۔ دو ریاستوں، ہندوستان اور پاکستان کے بجائے، خانہ جنگی نے شاید ایک درجن ممالک پیدا کیے ہوں گے۔ جو کہ متعدد تنازعات اور خانہ جنگی کی تلخ یادیں ہیں۔
1947 میں ہندوستان کو قومیت یا اتحاد کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ کچھ سلطنتوں نے ہندوستان کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔
لیکن سامراجی فتح کبھی بھی اتحاد قائم نہیں کرتی۔ ہندوستان تاریخی طور پر ایک ملک نہیں بلکہ سینکڑوں بادشاہتوں کا میدان جنگ رہا ہے۔
ونسٹن چرچل  نے ایک بار کہا تھا۔
“ہندوستان صرف ایک جغرافیائی وجود ہے۔ یہ خط استوا سے زیادہ ایک ملک نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہندوستان میں اتحاد 1947 کے بعد نہرو اور ان کے ساتھیوں کی مدبرانہ حکمت عملی سے پیدا ہوا تھا۔ بہت سے برطانوی نقادوں نے طنز کیا کہ  ایک آزاد ہندوستان جلد ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔  نہرو نے ان کو غلط ثابت کر دیا۔
لیکن فرض کریں کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔ فرض کریں کہ اس کی جس وجہ سے ایک ہزار سےزائد یومِ راست اقدام اور خانہ جنگی ہوئی تھی۔ اس خون آلود گندگی میں ،کیا نہرو یا کوئی اور ہندوستان کو ایک ساتھ رکھ پاتا؟
ہندوستان کی تقسیم نے ہمیں مزید خانہ جنگی سے بچایا ہے اور اسی طرح قوم سازی کے لیے جگہ فراہم کی ہے۔
ٹھیک اسی طرح جب آج ہم آزادی کی یہ 65ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ تو ہمیں اِس تقسیم کا ماتم نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تقسیم ، متحدہ اور سیکولر ہندوستان کا ایک تعمیراتی حصہ ہے جو آج ہمارے پاس ہے۔
مصنف: Swaminathan Aiyar
مترجم: طلحہ نصیر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply