ملک میں گائے کی قربانی کامسئلہ ۔۔۔۔ بلال احمد

معاش ومعیشت انسانی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت رکھتاہے کیونکہ وجودکے بعد معاش کا مسئلہ پیداہوجاتا ہے، بطور رزق فطرتاً بہت ساری چیزیں حلال رکھیں گئی ہیں اورحرام کی نشاندہی کردی ہے۔ اللہ رب العالمین نے خلقت کے لحاظ سے مختلف جانداروں کی ساخت، قامت، بناوٹ متنو ع رکھی ہے، جانوروں میں کچھ جانور سبزی خورہوتے ہیں کچھ پھاڑ کھانے والے اور کچھ دونوں میں شامل ہیں لیکن انسان کی خلقت اور ساخت ہر اعتبار سے جانوروں سے ممتاز اورفائق ہے۔یہ سبزی خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، آدمی کے دانتوں کی بناوٹ کے اعتبار سے مانا جاتاہے کہ اس کی ہیئت میں ہرچیز جوحلال ہے کھاپی سکتاہے۔ تاہم قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ خالق کی بنائی ہوئی اسی مخلوق نے اپنی پسندکے اعتبارسے تمام چیزوں کومنقسم کردیاجس میں کچھ خودساختہ سبزی خورہیں کچھ آدم خورجبکہ ممتاز ین کے زمرے میں سبزی خوراور گوشت خور آتے ہیں۔

سبزی خوروں میں کچھ بہت ہی متشدداور متعصب واقع ہوئے ہیں جواپنی پسندناپسندتمام لوگوں پر مسلط کرناچاہتے ہیں۔ کچھ مذہبی تعصبات کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں پرفوقیت جتاتے ہیں اور کچھ سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعہ مذہبی استحصال کرتے ہیں۔ مؤخرالذکرقسم کے لوگ ہی سب سے گھناؤنے اورمتشدد ثابت ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی قدیم آبادی جنگل میں بسیراکرتی تھی، سوکھے پتے، گھاس پھوس اور شکارکردہ چیزیں ان کی ماکولات میں شامل ہوتی تھیں لیکن تطویرزمانہ اور دوسرے قوموں کی اختلاط نے انہیں تہذیب وثقافت عطاکی اور انسانیت سکھایا، تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ قدیم زمانے میں ہندوستان کے لوگ گوشت خوری کرتے تھے اور عقل پر زوردیں تو پتہ چلتا ہے کہ آخر جنگلی لوگ شکار میں یہی سب کھاتے رہے ہوں گے۔ پھر اسلام کے ورود ہندنے یہاں کی آبادیوں میں اپنی ممتاز شناخت قائم کی، لوگو ں کو عدل وانصاف، رہن سہن اور تہذیب وتمدن دیا۔

گوشت خوری ملک کی اکثریت کا بھی حصہ ہے اور اقلیت کا بھی لیکن اکثریت میں گائے کو مقدس ماننے کی صورت میں اس کا ذبح کرنا سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجاتارہاہے، اسی کے چلتے کچھ مسلم حکمرانوں کے دورحکومت میں بھی علی الاعلان گائے کے ذبیحہ پر پابندی رہی، آزادی کے بعد گائے کے ذبیحہ کے خلاف سخت قوانین وضع کیے گئے۔دراصل گائے کاذبیحہ ہندوستان میں متنازعہ فیہ رہا ہے کیونکہ ہندؤں، سکھ اور جینیوں کے یہاں اسے مقدس سمجھاجاتاہے کہ ہندؤں کے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے، جبکہ کچھ کے یہاں معیشت اوراقتصادی امپاورمنٹ کے لحاظ سے احترام کیاجاتاہے۔آئین ہندکے دفعہ 48کے تحت کئی بار ریاستوں کوگائے کے ذبیحہ پر پابندی نافذ کرنے کی وکالت کی گئی ہے، 26؍اکتوبر2005ء کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مختلف ریاستوں کے مختلف قوانین کو برقرار رکھا جس میں سے کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں پر گائے کے ذبیحہ پر کوئی پابندی نہیں ہے جن میں کیرلا، گوا، کرناٹک، اروناچل پردیش، میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ، تری پورہ بطور خاص شامل ہیں یہاں پر گائے کے ذبیحہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

ہندوستان میں گائے بیل، بھینس یااسی طرح ایسے گوشت جن میں ہڈی ہو اس کی درآمد ممنوع ہے جبکہ بکری یا اس نوع کے جانوروں کے گوشت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اترپردیش میں گائے ذبح تحفظ ایکٹ 1955ء کے مطابق گائے کو ذبح کرنا یا ریاست سے باہر نقل وحمل کرنا ممنوع اورقابل مواخذہ جرم ہے، لیکن فٹ فارسر ٹیفکیٹ کے بعد بیل یااس قسم کی اجازت لے کر سلاٹرہاؤس چلایاجاسکتاہے۔6؍جون2017ء کو یوپی کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے ریاستی پولیس کو ہدایت کی وہ نیشنل سیکوریٹی ایکٹ اورگنگیسٹر ایکٹ کے تحت گائے اسمگلنگ کرنے والوں یا پھر غیرقانونی ذبح کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرے۔

ہمارے یہاں مہاراشٹر میں جانورتحفظ ایکٹ 1976کے تحت تمام قسم کی گائے چاہے وہ کم عمر ہوزیادہ قانونی طور پر جرم شمار کیاجاتاہے تاہم بیل، بھینس، بچھڑایااس نوعیت کے جانورجودودھ دینے کے قابل ناہوں یا جواقتصادیات پر اثر انداز نا ہوتے ہوں ان کے ذبیحہ پر فٹ فارسرٹیفکیٹ کے تحت پابندی نہیں ہے۔2؍مارچ2015 ء کے بعد قانون میں ترمیم کرکے گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کی خرید وفروخت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے اور قانون کے خلاف ورزی کی صورت میں 6؍سال کی سزااور دس ہزارتک جرمانہ یادونوں عائد کیاجاسکتاہے۔اسی طرح23؍مئی2017 کو مرکزی وزارت ماحولیات وجنگلات نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے پورے ملک میں ذبح کے لیے مویشیوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریاستوں کے سابقہ قانون کو برقرار رکھاتھااور مرکز کو نیاضابطہ بنانے پرمجبورکردیاتھا۔

مذہب اسلام باطل عقائداوراوہامات ممکنہ کاخاتمہ کرتے ہوئے جن حلال جانوروں کی قربانی کا حکم دیا ہے اس میں گائے بھی شامل ہے قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
’’ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ قُلْ آلذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَیَیْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ أَرْحَامُ الْأُنثَیَیْنِ نَبِّئُونِی بِعِلْمٍ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘ (الانعام:142-143)

آٹھ اقسام، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں ؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔

بخوبی معلوم ہے کہ جب گائے کی قربانی کامسئلہ ہندوستان میں نہایت ہی متنازعہ ہے اور قانون کی خلاف ورزی کی صور ت میں سزا ہے تو ہمیں مخالفت سے اجتناب کرناچاہیے کیونکہ اسلام قانون کی پاسداری کا حکم دیتاہے، میرا ماننایہ ہے اور ہر صاحب عقل یہی کہے گاکہ ہندوستان کی جن ریاستوں میں اس کے ذبیحہ پر کوئی پابندی نہیں ہے وہاں کے مسلمان پورے تزک واحتشام کے ساتھ گائے کی قربانی کریں اورجہاں پابندیاں ہیں وہاں احتیاط برتیں۔ قربانی کے لیے جن حلال جانوروں کا ذکرقرآن وحدیث میں ملتاہے اس کی تیاری کریں یہی عین حکمت ودانشمندی ہے۔ تاہم دیکھایہ جارہاہے کہ ہمارے کچھ مسلم قائدین اکثریت کی منہ بھرائی یاپھرمفاہمت میں یہاں تک کہتے ہیں کہ گائے کو راشٹریہ جانور کا درجہ دے دیا جائے تاکہ سب اس کا احترام کریں۔

میرے اعتبار سے مفاہمت خوف اور ڈر کے مترادف ہے۔ کیاہم اتنے غیر معیاری ہوجائیں کہ اکثریتی فرقے کوخوش کرنے کے لیے غیر ضروری مطالبات کرتے پھریں۔ میں مانتاہوں کہ اکثریت اس کو ماں کے درجے میں رکھتی ہے اور اس کی پوجاپاٹ کرتی ہے، گائے کے ذبیحہ کے شبہ میں وہ انسانی خون بھی پی جاتی ہے لیکن کیاہم قانونی دائرے میں رہ کر متشددین کے خلاف چارہ جوئی نہیں کرسکتے ہیں ؟ کیاحکومت اور اس کے کارندوں جبکہ اکثریت انہیں کی ہے آئین وقانون اور اپنے اعتماد میں نہیں لے سکتے ہیں ؟؟ کیاملک کے قانون سے کوئی بالاتر ہے جوکہ پورے ملک میں افراتفری کا ماحول برپاکردے اور آزاد گھومتا پھرے؟؟؟ جن ریاستوں میں گائے کی قربانی رواہے وہاں کے مسلمان گائے کی قربانی کریں لیکن جہاں قانونی پیچیدگیاں ہیں وہاں متبادلات کااستعمال کریں، کیوں خود کو، اپنے اہل وعیال اور رشتہ داروں کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔ گائے کا ذبیحہ سیاست کی انگیٹھی کا شعلہ بن چکاہے جس میں موقع بموقع صور پھونکاجاتا ہے اور معتقدین خاص کو ورغلایااور مبہوت کیاجاتاہے۔معلوم ہوناچاہیے کہ ہندوستان پوری دنیامیں گوشت برآمدکرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈزراعت آرگنائزیشن اوریوروپی یونین کے تحت ہندوستان نے 2012میں سب سے زیادہ گوشت برآمد کیاتھا۔لیکن جاہل عوام ان سب چیزوں کااعتراف کرنے کے بجائے غبارے میں مگن ہے۔

عیدالاضحی کے موقع مسلمان کمال دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے ملک ومعاشرہ کی فضا مکدرہونے کا خدشہ ہو، ملک دشمن عناصر اسی فراق میں رہتے ہیں کہ شہ مل جائے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی درہم برہم کردیں، فضا کوسمجھیں اور ہوش وحواس سے کام لیں، بہکوائے میں نہ آئیں کیونکہ اپنے ہاتھوں کی کمائی کبھی کبھار تعذیب کا سبب بن جاتی ہے جوصرف ایک خاص شخص تک محدود نہ ہوکر قبیلہ وخاندان بسااوقات گاؤں اور علاقے کو اپنے چپیٹ میں لے لیتی ہے۔ امیدکہ ہے مسلمان اپنے آس پاس موجود تمام قسم کے ملک دشمن عناصر کوپنپنے نہیں دیں گے، خودقانون کے تحفظ کا وسیلہ بنیں گے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقراررکھنے میں ملک وآئین کا ساتھ دیں گے۔ وقت کے مطابق زندگی گزارناسیکھیں، مذہبی استحصال کا شکار نہ ہوں، آئین وقانون کی پاسداری کریں، کسی کے بہکاوے میں آکر جذباتی نہ بنیں، خود سے سوچیں اور ماحول کے حساب سے اپنی ڈائری تیارکریں۔ انسان وہی ہے جو وقت کو پہچانے اور جائز چیزوں کی پاسداری کرتے ہوئے آخرت سدھار جائے۔ اللہ ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔(آمین)

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply