انسانی نفسیات کا پیٹرن عہد در عہد۔۔۔فاروق

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا۔ الیکٹرانک میڈیا چینلز اور اخبارات موجود نہیں تھے۔ فون یا موبائل فون جیسے رابطے کے تیز ترین ذرائع بھی موجود نہیں تھے۔ آسمانوں میں اُڑتے ہوائی جہاز، سڑکوں پر فراٹے بھرتی بڑی بڑی لینڈکروزریں نہ تھیں۔ برق رفتار ریل گاڑیوں اور میٹرو بسوں کا وجود تک نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود اُس عہد کے بادشاہوں اور وڈیروں نے نوح علیہ السلام کے خلاف رائے عامہ اس قدر ہموار کر لی تھی کہ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ کردارکُشی کرتے تھے۔
ہم وہاں موجود نہ تھے لیکن ہمارے عہد کی نفسیات وہاں موجود تھی۔ ہمارے رویے وہاں موجود تھے۔ بغیر تحقیق کے کوئی بھی بات سُن کر مان لینے والی ہماری روش اُس عہد میں بھی موجود تھی۔ ہم نے اُس وقت بھی پراپگنڈا کا شکار ہو کر نوح علیہ السلام کی کشتی بنانے کے عمل کا مذاق اُڑایا تھا۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر عہد میں انسانی نفسیات کا ایک مخصوص پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ وہی پیٹرن عہد در عہد ہمارے زمانے تک پہنچا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود کی خدائی کا ڈنکا تھا۔ اُس عہد میں بھی انہی نفسیاتی الجھنوں کا شکار لوگ ، ہمارے جیسے لوگ، بنا تحقیق کے کسی بھی فاسق کی باتوں کو مان لینے اور آگے پہنچا دینے والے لوگ، موجود تھے۔ جب حصرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو تماشا دیکھنے والے کون لوگ تھے؟ وہ سارے کا سارا مجمع کس نظام کے ساتھ کھڑا تھا؟ وہ رائے عامہ جو اُس وقت ہموار ہو چکی تھی اُس کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جانا درست تھا کہ غلط؟ اس کا جواب ہر عہد کی طرح ہمارے زمانے میں بھی موجود ہے۔
ہر زمانے کی نفسیات، انسانی نفسیات، اور انسانی رویوں کی ہیئت ایک جیسی رہی ہے۔
زبانیں مختلف تھیں۔ جغرافیہ اور طرح کا تھا۔ لیکن سروں پر موجود نیلا آسمان اور انسانی قدموں تلے موجود یہ دھرتی وہی تھی۔ اُس وقت بھی وڈیرے اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی موجود تھے۔ اُس وقت بھی مجبور و محکوم، غلام طبع، شکست خوردہ نفسیات والے موجود تھے۔ اُس دور میں بھی بغیر تحقیق کے ، محض اپنی ذاتی انا اور تعصب کے زیر اثر کسی بھی بات کو مان لینے والے اور آگے نشر کرنے والے موجود تھے۔ وہ عہد بھی گالم گلوچ اور سنگ زنی سے آشنا تھا۔ پراپگنڈا اُس دور میں بھی موجود تھا۔ اور اس پراپگنڈے کا شکار ہونے والے لوگ بھی اکثریت میں تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر عہد میں انسانی نفسیات کا ایک مخصوص پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ وہی پیٹرن عہد در عہد ہمارے زمانے تک پہنچا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مصر کا طاقتور فرعون رائے عامہ کو کس طرح ہموار کرتا تھا؟ کیا فرعون کے ساتھ اُس وقت کی مذہبی پیشوائیت نہ تھی؟ کیا فرعون اُس دور کی معاشیات اور خزانوں کا مالک نہ تھا؟ کتنے لوگ تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کھڑے تھے؟ بہت تھوڑے۔ قلیل تعداد۔ باقی سب رعایا فرعون کے ساتھ تھی۔ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے۔ جان بوجھ کر یا انجانے میں۔ وہ دور ہمارے دور سے نفسیاتی حوالوں سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ ہم وہاں ہوتے تو اللہ جانے ہم کیا کرتے کہ ہر عہد میں انسانی نفسیات کا ایک مخصوص پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ وہی پیٹرن عہد در عہد ہمارے زمانے تک پہنچا ہے۔
حضرت مریم سلام اللہ علیہا جیسی پاکدامن عورت پر اُس دور کے نادانوں نے کیا کیا بہتان نہ لگائے ہوں گے؟ بغیر باپ کے کسی بچے کی پیدائش کسی بھی عہد کی عورت کے لئے کیا کم آزمائش ہو گی؟ اُس دور میں الیکٹرانک و سوشل میڈیا ہوتا تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے یہ سوچ کر کہ ہماری کتنی بڑی تعداد جانے انجانے میں حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی کردار کُشی کر چکی ہوتی۔ استغفراللہ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ماسوائے چند حواریوں کے کون ساتھ کھڑا تھا؟ ہم اُس دور میں ہوتے تو کیا ہم حواری ہوتے؟ جذباتی جواب کچھ اور ہوتے ہیں عقلی اور استدلالی جواب کچھ اور۔ جب کوئی دور گزر جاتا ہے تو اُس دور پر تنقید آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن اُسی دور کے سبھی پیٹرن ہمارے دور میں موجود ہوتے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ پاتے کہ ہم جانے انجانے میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہورہے ہیں یا نہیں۔ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ رائے عامہ کو ہموار کرنے والی مشینیری نے ہر دور میں کمال مہارت سے لوگوں کی سوچوں پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔
سرکار نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کی نفسیات کیا تھی؟ پتھر مارنے والے نادان لڑکے کون تھے؟ اُن کے ہاتھ میں سوشل میڈیا جیسا طاقتور اور موثر پلیٹ فارم ہوتا تو اُن کی پوسٹیں کیسی ہوتیں؟ سوچیں گے تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ اُس دور کے جاہلوں نے جانتے بوجھتے صادق اور امین انسان صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ کیا؟ گالیاں دیں۔ پتھر مارے۔ الزامات لگائے۔ بہتان تراشے۔ دیس نکالا دیا۔ اکثریت نے اُس وقت کے وڈیروں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ہم اُس دور میں ہوتے تو بہت بڑی آزمائش سے گزرتے۔ لیکن ہم اپنے دور میں ہیں تو کہاں کھڑے ہیں؟ ہم اپنے موجودہ رویوں کو سمجھ لیں تو ہمیں ہر دور کے انسانوں کے رویوں کی سمجھ آ سکتی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر عہد میں انسانی نفسیات کا ایک مخصوص پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ وہی پیٹرن عہد در عہد ہمارے زمانے تک پہنچا ہے۔
واقعہ کربلا ہمارے انہی نفسیاتی رویوں کا عکاس ہے۔ صرف بہتر لوگ ساتھ چلے۔ رائے عامہ ہموار تھی کہ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ باغی ہیں۔ اُن کے مقابلے میں آنےوالے لوگ کون تھے؟ کیا مجبوریاں تھیں؟ ہم اُس دور میں ہوتے تو کس طرف کھڑے ہوتے؟ بہت آسان ہے کوفہ والوں کو گالیاں دینا۔ ہم کوفہ میں ہوتے تو ہماری برین واشنگ ہوتی کہ نہیں؟ اس کا جواب ہمارے دور میں موجود ہے۔ اگر ہم آج عقل استعمال نہیں کرتے، اگر ہم اپنےدور میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہو جاتے ہیں تو ہم کسی دور میں ہوتے یہی کرتے کہ ہر عہد میں انسانی نفسیات کا ایک مخصوص پیٹرن دکھائی دیتا ہے۔ وہی پیٹرن عہد در عہد ہمارے زمانے تک پہنچا ہے۔
اللہ اکبر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply