پہچان

“آپ کو لوگ پہچان لیتے ہیں۔” میری بیوی اکثر یہ کہتی ہے۔
سچ کہ راستہ چلتے لوگ مجھے روک لیتے ہیں۔ کبھی میری کہانی کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی کسی فیس بک پوسٹ کو سراہتے ہیں۔ کبھی سیلفی کی فرمائش کرتے ہیں۔
“آج کے دور میں پہچان لیا جانا اچھی بات نہیں۔ آپ فیس بک سے اپنی تصویر ہٹائیں۔ اخبار کی تصویر بدلوائیں۔”
میری بیوی کئی بار یہ تقاضا کرچکی ہے۔ میں ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ میں کون سا سیلیبرٹی ہوں۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی اگر میری کوئی تحریر پڑھ کر مجھے پہچان لیتا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔ پریشانی کاہے کی؟
ایک بار میں لاہور آیا تو وجاہت بھائی (وجاہت مسعود) سے ملنے گیا۔ اجمل جامی اور بھائی احمد ولید ساتھ تھے۔
وجاہت بھائی نے گھر سے باہر آکر استقبال کیا۔ وہاں ان کے پڑوسی کئی لڑکے کھڑے تھے۔ وجاہت بھائی نے ان سے پوچھا، “اس خوب صورت نوجوان کو جانتے ہو؟ یہ دنیا ٹی وی کا مشہور اینکر اجمل جامی ہے۔” لڑکوں نے انکار میں سر ہلایا۔ وجاہت بھائی نے کہا، “اور کیا احمد ولید صاحب کو پہچانتے ہو؟ یہ سما کے کنٹرولر ہیں۔ اکثر ٹی وی پر آتے ہیں۔” لڑکوں کے چہرے پر کوئی تاثرات نہ ابھرے۔ پھر وجاہت بھائی نے کہا، “اور یہ مبشر علی زیدی ہیں۔” ایک لڑکے نے پوچھا، “سو لفظوں والے؟”
ظاہر ہے کہ اجمل جامی کو یہ بات پسند نہیں آئی ہوگی۔
ایک بار میں لاہور آیا تو عاصم بٹ صاحب نے پاک ٹی ہاؤس طلب فرمایا۔ وہاں ان کے اعزاز میں تقریب میں شرکت کی۔ پھر عائشہ بخش اور ان کے شوہر عدنان مجھے لینے آگئے۔ میں ان کے ساتھ سڑک پار کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ تین چار لڑکوں نے روک لیا اور تصویر بنوانے کے لیے کہا۔ میں نے پوچھا، “کیا آپ پاک ٹی ہاؤس سے نکلے ہیں؟ کیا لاہور سے تعلق ہے؟ مجھے کیا سمجھ کر روکا؟ انھوں نے بتایا کہ وہ لاہور کے نہیں ہیں۔ کسی دوسرے شہر سے کسی کام سے آئے ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس کا علم نہیں۔ میری کہانیاں پڑھتے ہیں۔ اتفاق سے مجھے دیکھ کر رک گئے۔ میں نے عائشہ بخش کے بارے میں بتایا۔ وہ انھیں پہچان نہیں سکے۔
عائشہ اور جامی کو لاکھوں یا شاید کروڑوں افراد جانتے ہیں لیکن ایسے اکا دکا واقعات اس لیے پیش آتے ہیں کہ کہانیاں بن سکیں۔
آج میں لاہور میں اپنے رشتے داروں سے ملنے گیا۔ میری بیوی کے تایا کی شادی میری تایازاد بہن سے ہوئی تھی۔ ان کی عمر ماشا اللہ نوے سال ہوچکی ہے۔ مجھے پرانے زمانے کے لوگوں سے باتیں کرنے، ماضی کے واقعات جاننے کا شوق ہے۔ ان سے زندگی میں صرف ایک ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ آج بہت سی باتیں کروں گا، بہت سے سوالات کروں گا۔
ان کے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ وہ بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ ان کے لیے خود اٹھنا بیٹھنا ممکن نہیں رہا۔ اس کے علاوہ ان کی یادداشت محو ہوچکی ہے۔ وہ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں لیکن پوچھتے پوچھتے بھول جاتے ہیں۔ وہ کچھ بتانا چاہتے ہیں لیکن بتاتے بتاتے بھول جاتے ہیں۔
انھوں نے میری بیوی کو دیکھ کر پوچھا، یہ کون ہے؟ مانو نے بتایا کہ میں آپ کی بھتیجی ہوں۔ انھوں نے میری بیٹی کی طرف اشارہ کیا۔ مانو نے کہا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا اور اپنا نام بتایا۔ ان کے آنکھوں میں شناسائی کی چمک نہ ابھری۔ میں پیچھے ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گیا۔
وہ کافی دیر گم صم رہے۔ ان کے خدمت شعار بیٹے نے انھیں کئی بار اٹھایا اور کئی بار لٹایا۔ دو تین بار واش روم لے کر گیا۔ اپنے ہاتھوں سے انھیں کھانا کھلایا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے گزر گئے۔
پھر انھوں نے میری جانب اشارہ کیا۔ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا۔ ان کے حلق سے ایسی آواز آئی جیسے کنویں سے کوئی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ میں نے کان لگا کر سنا، وہ کہہ رہے تھے، “تم کتابیں لکھتے ہو نا؟”
میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری بیوی نے ایک بار پھر کہا، “آپ کو لوگ پہچان لیتے ہیں۔”

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply