زخم سے محبت۔۔۔۔حبیب شیخ

گھر کا یہ اچھا ماحول دیکھ کر عظیم کبھی کبھی اپنے گھٹنے کو چوم لیتا ۔ اب سرجری میں صرف تین دن باقی تھے ۔ وہ سوچتا رہتا کہ اس کے لیے کیا بہتر تھا، ایک طرف سلمیٰ کی قربت اور اس کی معصوم مسکراہٹ جس کے لیے وہ ترستا تھا اور دوسری طرف اس کا صحت مند گھٹنا۔ سلمیٰ کے لیے کیا بہتر تھا؟ وہ بستر پر لیٹا ہوا،ا سی کشمکش میں رات کا  ایک پہر گزار دیتا ۔ پھر وہ سوچنے لگ جاتا کہ کیا وہ شام اس کے لیے اچھی تھی یا بری؟۔۔۔

وہ شام جب دسمبر کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، کبھی تیز کبھی مدھم ۔ سڑکوں پر رش قدرے کم تھا ۔ عظیم کو اس کے دوست نے گلی کے کونے پر اتارا ۔ کھمبے پر ایک ٹمٹماتا ہوا بلب چوراہے کو کچھ روشن کر رہا تھا لیکن گلی بالکل تاریک تھی ۔ کسی کسی مکان سےآتی ہوئی روشنی کی شعاع بھی اس اندھیرے میں جذب ہو جاتی تھی۔
اب وہ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی طرف جا رہا تھا ۔ دفتر میں بے انتہا کام کا دباؤ اور گھر پہنچتے ہی سلمیٰ کی شکایتیں شروع ہو جائیں گی ! پتہ نہیں کتنا عرصہ ہو گیا کہ سلمیٰ نے اس سے مسکرا کر بات کی ہو ۔ کبھی دیر سے آنے کی شکایت، کبھی خرّم کی تعلیم و تربیت میں عدم دلچسپی ، یا کار میں کسی نہ کسی خرابی کی شکایت ۔ کئی مرتبہ عظیم نے اپنی سوچ کے مطابق حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ اکثر سوچتا۔ ’کیا یہ شکایتیں  سلمیٰ کے مجھ سے دور رہنے کے بہانے ہیں؟ میں اچھے خدوخال کا آدمی ہوں۔ آمدنی بھی مناسب ہے۔ اور پھر یہ شادی سلمیٰ نے اپنی مرضی سے ہی کی ہے۔ اب مجھ میں ایسا کیا بدل گیا ہے کہ میں اسے اچھا نہیں لگتا! ۔ کب تک زندگی ایسے ہی گزرتی رہے گی !

اس کا جواب عظیم کو فوراً مل جاتا ۔ یہ اس کا بیس سال کا بیٹا جو اس کی اور شاید سلمیٰ کی بھی مجبوری بن چکا تھا ۔ عظیم سلمیٰ سے علیحدگی کے بارے میں تو سوچ سکتا تھا لیکن خرّم پر یہ پہاڑ نہیں توڑ سکتا تھا۔
عظیم احتیاط سے چل رہا تھا کیونکہ گلی کئی  جگہ سے کُھدی ہوئی تھی ۔ پھر بھی اس کا پیر اندھیرا ہونے کی وجہ سے ایک کھڈّے میں جا پڑا اور وہ اپنے دائیں جانب زمین پر گر گیا ۔ اٹھ کر اس نے اپنا بریف کیس سنبھالا اور چلنے لگا ۔ عظیم نے شکر کیا کہ اس کو کوئی چوٹ نہیں لگی تھی۔ آج پھر عظیم گھر کے سامنے پہنچ کر رک گیا اور سوچنے لگ گیا۔ ’گیٹ پر لگی ہوئی ہلکی سفید بتیّؤں کی روشنی میں لپٹا ہوا  یہ مکان کتنا اچھا لگ رہا ہے ! شکر ہے کہ سلمیٰ کو بھی یہ مکان پسند ہے۔

گھر پہنچ کر عظیم نے کچھ وقت اپنے بیٹے کے ساتھ بات چیت میں گزارا ۔ پھر کھانا کھایا اور سلمیٰ سے ایک دو باتیں کرنے کے بعد سو گیا ۔ آدھی رات کے بعد اس کے گھٹنے میں شدّت سے درد شروع ہو گیا ۔ اس نے سلمیٰ کو اٹھایا ۔ بجلی جلا کر دیکھا تو گھٹنے اور پنڈلی پر کافی سوجن تھی ۔ عظیم نے سلمیٰ کو گرنے کے بارے ميں بتايا ۔ سلمیٰ کو کافی تشویش ہوئی اور اس نے درد کی گولیاں اور پانی لا کر دیا ۔ عظیم کچھ دیر کے بعد سو گیا ۔ صبح اٹھا تو سوجن قدرے کم تھی ۔ سلمیٰ کی پریشانی بھی کم ہوگئی  تھی ۔ عظیم حسبِ معمول نہایا ، ناشتہ کیا اور کام پر چلا گیا ۔ دوپہر تک گھٹنے کی سوجن بہت بڑھ چکی تھی ۔ اب اسے ڈاکٹر کو دکھانا ہی پڑے گا ۔ ایکسرے کی رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے بتایا کہ گھٹنے پر چوٹ لگی ہے اور میسکوس ٹوٹ گیا ہے ۔ اب یہ سرجری  ہی سے ٹھیک ہو گا ۔ جب تک سرجری نہیں ہو گی درد کی گولیاں کھا کر گزارا کرنا پڑے گا ۔

عظیم ڈاکٹر کے دفتر سے لنگڑاتا ہوا گھر آگیا ۔ سلمیٰ نے جب عظیم کو لنگڑاتا ہوا دیکھا تو بہت پریشان ہوئی۔ وہ کافی فکر مند تھی اور عظیم کے لیے  جو کچھ بھی کر سکتی تھی کر رہی تھی ۔ ایک آدھ بار عظیم نے ہلکا پھلکا مذاق کیا تو وہ خلاف معمول مسکرائی ۔ عظیم نے محسوس کر لیا تھا کہ اس کی مسکراہٹ نقلی تھی ۔ لیکن وہ پوری کوشش کر رہی تھی کہ گھر کے ماحول کو آسودہ رکھے ۔
سرجن نے عظیم کو سرجری کے لیے  پانچ ہفتے بعد کی تاریخ دی تھی اور  یقین دلایا تھا کہ تقریباً پچانوے فیصد امکان ہے کہ سرجری کے بعد اس کا گھٹنا ٹھیک ہو جائے گا ۔ عظیم کو چلنے پھرنے میں الجھن ہوتی تھی اور ایک درد تھا جو گولیاں کھا کر ہلکا تو ہو جاتا تھا لیکن کبھی ختم نہیں ہوتا تھا ۔ اسے لنگڑا لنگڑا کر چلنا بہت عجیب لگتا تھا ۔ اتوار کے روز اکثر و بیشتر وہ چڑی چھکاّ کھیل لیتا تھا اب وہ بھی جاتا رہا ۔ وہ سوچتا کہ اس کی عمر ساٹھ سال کی تھی لیکن وہ بالکل صحت مند تھا ، اگر اس کا گھٹنا صحیح نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ کے لیے لنگڑا لنگڑا کر چلے گا یا بیساکھی کا سہارا لے گا ۔ اگر اس نے بیساکھی کو استعمال کیا تو شاید اس کو کام سے نکال دیا جائے ۔ اگر وہ کبھی سلمیٰ کے ساتھ گھومنے پھرنے گیا یا خریداری کے لیے گیا تو کیا وہ ایک بیساکھی والے شوہر کے ساتھ چلنا پسند کرے گی ! اس کی زندگی کافی حد تک محدود ہو کر رہ جائے گی ۔ اس کو ہر حال میں ٹھیک ہونا تھا ۔ عظیم کو وقت کے ساتھ ساتھ یہ یقین ہو گیا تھاکہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔

جب سے عظیم کو چوٹ لگی تھی گھر کا ماحول خوشگوار ہو گیا تھا ۔ سلمیٰ اس کا بہت خیال کرتی تھی ۔ کسی چیز پر نہ بحث نہ شکایت ۔ اگر وہ کبھی حسبِ عادت گھر میں صفائی کی کمی کے بارے میں شکایت کر دیتا تو سلمیٰ اس کو نظر انداز کر دیتی ۔ اب دونوں بیٹھ کر باہمی دلچسپی کی باتیں کرتے او کبھی کبھار ٹیلی ویژن پر فلم بھی دیکھ لیتے۔ سلمیٰ کبھی مسکراتی تو اب بھی پہلے کی طرح عظیم کو کتنی خوبصورت لگتی تھی۔ خرّم بھی اب اپنے کمرے میں بند رہنے کے بجائے دونوں سے بات چیت کرنے لگ گیا تھا ۔ اب عظیم کا دل چاہتا کہ جلد از جلد گھر پہنچے اور اسی لیے اس نے صبح دفتر جلدی جانا شروع کر دیا ۔

زندگی ایک خوشگوار موڑ پر آ کھڑی ہوئی تھی ۔ جس کے اس طرح ہونے کے بارے میں پہلے وہ اکثر سوچتا تھا لیکن اس کو کوئی راہ نظر نہ آتی تھی ۔ سرجری کا دن قریب آگیا تھا ۔ سلمیٰ بہت بےچین تھی کہ عظیم کی سرجری جلد از جلد ہو جائے اور وہ ٹھیک ہو جائے ۔ لیکن عظیم عجیب و غریب شش و پنج میں مبتلا تھا ۔ ’اگر میں ٹھیک ہو گیا تو پھر اس گھر سے مسکراہٹیں چلی جائیں گی ۔ وہ شکوے شکایتیں ، وہ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپسی ، وہ خرّم کا اپنے کمرے میں بند رہنا ، سلمیٰ پھر اپنی زندگی میں مگن ہو جائے گی ۔ کیا میں پھر دیر سے گھر آیا کروں گا ! سلمیٰ کوئی بات کرنے کے بجائے اپنی افسانہ نگاری کو ترجیح دے گی اور کئی  کئی  گھنٹے الگ بیٹھ کر افسانوں کی دنیا میں کھو جائے گی ! وہ دونوں کا اکٹھے بیٹھ کر فلم دیکھنا، باتیں کرنا، خرم کے چہرے کا سکون ، ان سب کا کیا ہو گا! خرم تو ایک سال کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے گھر سے چلا جائے گا ۔ کیا اس کے جانے کے بعد گھر کے حالات اور خراب ہو جائیں گے ؟

کئی  مرتبہ میں سلمیٰ کی نکتہ چینی پر صرف خرّم کی وجہ سے خاموش رہا تاکہ یہ جھگڑے میں نہ بدل جائے۔ کیا اب خرم کے جانے کے بعد میں خود کو خاموش رکھ سکوں گا ؟ ہم دونوں کے لیے  کیا بہتر ہے ؟ ایک دوڑتا بھاگتا شوہر یا ایک پرسکون گھر؟ مگر کیا ضمانت ہے کہ اگر میرا گھٹنا صحیح نہیں ہوا تو یہ گھر ایک جنت ہی رہے گا ۔ یا شاید سلمیٰ مایوس ہو کر پہلے سے بھی زیادہ چڑچڑی ہو جائے گی! کیا یہ ہمدردی عارضی ہے یا ہمیشہ کا لباس بن جائے گی ؟ کیا سلمیٰ پہلے سے بھی زیادہ جھنجلا جائے گی کہ جو کچھ کمزوریاں مجھ میں ہیں ان کے علاوه میں لنگڑا کر بھی چلتا ہوں؟ یا میں واقعی اتنا بےوقوف ہوں کہ اتنا عرصہ سلمیٰ کے ساتھ گزارنے کے باوجود اس کی ہمدردی کو محبت تصوّر کر رہا ہوں؟۔۔

عظیم کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ اسی طرح رات اس نے بے خوابی میں گزاری۔ صبح اٹھ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سرجری کا اپانٹمنٹ کوئی بہانہ بنا کر منسوخ کروا دے گا ۔ لیکن صبح آ کر شام بھی ڈھل گئی اور وہ یہ فون نہ کر سکا ۔ اگلے روز عظیم شام کے وقت اخبار پڑھ رہا تھا لیکن اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ سلمیٰ باورچی خانے میں مصروف تھی ۔ ڈاکٹر کا کلینک صرف شام کو ہی کھلتا تھا ۔ عظیم نے سوچا کہ اچھا موقع ہے، ڈاکٹر کے دفتر فون کیا اور بتایا کہ اسے سخت بخار ہے اس لیے سرجری کے اپائنٹمنٹ کو منسوخ کروادیا ۔ دوسری طرف سے سیکریٹری منسوخی کی فیس مانگ رہی تھی ۔ عظیم نے گفتگو کو مختصر رکھنے کے لیے کوئی بحث نہیں کی اور سیکرٹری کی بات مان کر فون اپنے کریڈل پر رکھ دیا ۔ فون رکھ کر اس نے بے اختیار گھٹنے کو چوم لیا۔ پھر نظر اٹھائی تو سلمیٰ باورچی خانے سے کمرے میں آ چکی تھی اور اس کا چہرہ ایک سوالیہ نشان تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“وہ ۔۔ابھی کل کے اپائنٹمنٹ کے بارے میں فون آیاتھا۔ سیکریٹری کہہ رہی تھی کہ کل سرجری نہیں ہو سکتی۔ اب وہ کچھ دنوں کے بعد کا اپائنٹمنٹ دیں گے۔”
” میں نے تو کوئی فون کی گھنٹی کی آواز نہیں سنی! اور اس میں گھٹنے کو چومنے کی کون سی بات ہے؟ ”
“جانِ من، اسی کی وجہ سے تو ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آگئے ہیں۔” عظیم کی آواز میں ہلکی ہلکی شرارت تھی۔
سلمیٰ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ چہرہ بالکل سنجیدہ اور ماتھے پر تیوریاں ۔ “لیکن میں۔۔۔”
“کیا، میں کیا؟”  عظیم زمین کے اندر دھنس رہا تھا۔
سلمیٰ آنکھیں چراتے ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply