جرمنی۔۔۔۔مبارکہ منور

یہ اتفاق ہی ہے کہ ہم ضلع عمر کوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچے تو یہاں بھی رہائش کے لئے گھر ہمارے نصیب میں ایک گاؤں میں ہی تھا. یہاں سہولتیں کتنی ہیں ان کا ذکر بعد میں سہی لیکن جس کمی نے ہمیں مارا وہ ہے “ہٹی” کی کمی  (ہٹی یعنی دیہات کی دکان) وہاں گاؤں میں ڈھولے کی ہٹی تھی جس سے روز مرہ کے استعمال کا سودا سلف لیتے یہ اور بات ہے ہم جو بھی سودا طلب کرتے اکثر نہ ملتا کیوں کہ سودا ہوتا ہی نہیں تھا. لیکن ساتھ ہی وہیں آٹا پسینے کی چکی تھی اور چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں بھی مل جاتی تھیں  اور سب سے بڑھ کر اسکول سے چھٹیوں کے دنوں میں دن چڑھتے ہی  بچے پیسوں کا مطالبہ کرتے کہ چیز لینی ہے خواہ وہاں سے ملنے والی چیز کیسی ہی  ناقص کیوں نہ ہوتی، بچے اپنی مرضی سے خریدی ہوئی چیز کو بہت شوق سے کھاتے.

لفظ گاؤں سے ہم پاکستانیوں کے ذہن میں جو تاثر ابھرتا ہے  کہ تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم پرلے کنارے پر ایک علاقہ جہاں لوگ شہری سہولیات سے محروم ہوتے ہیں جہاں زندگی دوسرے معنوں میں اپنا  آپ منواتی ہے. لیکن یہاں جرمنی میں بنیادی شہری سہولیات کے اعتبار سے شہر اور گاؤں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں بلکہ گاؤں ٹریفک اور رش سے باہر ہونے کی وجہ سے زیادہ پرسکون اور صحت افزا مقام ہے.

یہاں کی مقامی زبان ڈچ ہے جو کہ ایک مشکل زبان ہے اور زبان کی مناسبت سے اس خطے کو ڈچ لینڈ کہتے ہیں. گفتگو میں اگر کہیں انہیں اپنے ملک کا حوالہ دینا پڑے تو جرمنی کے بجائے ڈچ لینڈ کہتے ہیں. ڈچ زبان کی حروفِ تہجی تو وہی انگریزی کی ہی ہے لیکن ان کی ادائیگی اور آواز مختلف ہے . پھر یہاں وقت بتانے کا طریق بھی خاصا دلچسپ ہے مثلاً جیسے  7:30 کو ہم ساڑھے سات کہتے ہیں لیکن یہاں اسے آدھا آٹھ کہا جاتا ہے اور اس سے آگے مثلاً 7:35 کو آدھے آٹھ سے پانچ منٹ اُوپر بتاتے ہیں اور اسی طرح بتاتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ پورے آٹھ بج جاتے ہیں.

اس طرح گنتی کا شمار بھی کچھ مختلف ہے مثلاً جیسے کہ ہم کہتے ہیں بیس ایک اکیس لیکن یہاں پر پہلے اکائی شمار کی جاتی ہے پھر دہائی یعنی یہاں بیس ایک  اکیس کو ایک اور  بیس اکیس کہتے ہیں.

یہاں کے لوگوں نے ابھی تک اپنی قدیم روایات کو اپنی زندگی کے  روز مرہ معمولات میں شامل رکھا ہوا ہے ڈش، کیبل، انٹرنیٹ کے اس دور میں یہاں اب بھی کئی گھروں کی  چھتوں پر وہی پرانا ڈنڈے سے ٹنگا ہوا انٹینا دیکھائی  دیتا ہے جس سے ہم کبھی بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن پر صرف پی ٹی وی دیکھ سکتے تھے.

اس سے بڑھ کر مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب یہاں کے ٹیلی ویژن پر لالٹین کا اشتہار دیکھا رنگ و نور سے معمور دور جدید کے اس ترقی یافتہ ملک میں ٹی وی پر لالٹین کا اشتہار دکھا کر  عوام کو اس کے استعمال کی ترغیب دلانا حیرت انگیز ہے.  اسی طرح یہاں ڈاک کا نظام بھی نا صرف قائم ہے بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہے یہاں بل ڈاک میں آتے ہیں، یہاں بچوں کے اسکول کی پروگریس رپورٹ ڈاک میں آتی ہے، یہاں بے روزگار افراد کو ملازمتوں کے بارے میں اطلاع ڈاک کے ذریعے ملتی ہے، یہاں میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ ڈاک میں آتی ہے، یہاں اشتہارات کے اخبار نما بنڈل ڈاک میں آتے ہیں غرض اچھی بری سب خبر بذریعہ ڈاک دی جاتی ہے شاید ایسی  ہی صورت حال دیکھ کر مبارک صدیقی نے کہا ہو۔۔

خط اے اینے سُٹ جاندے نیں

پڑھ کے دل ہی ٹُٹ جاندے نیں.۔۔

کیونکہ بعض خطوں میں سخت سست بھی کہا گیا ہوتا ہے.
یہاں کسی مرد و زن کی تخصیص کے بغیر سگریٹ نوشی عام ہے حتیٰ کہ اسکول کے نوعمر طلبہ و طالبات کو بھی اس صحت دشمن عادت سے خلاصی نہیں. سگریٹ نوشی کے مقابلے میں یہاں سائیکل سواری کی صحت بخش عادت عام ہے یہ ضروری نہیں کہ گاڑی نہ ہونے کی صورت میں سائیکل سواری کی جائے بلکہ کئی  گاڑیوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی لوگ شوق سے سائیکل چلاتے ہیں اور اس کے لیے بھی عمر اور کسی زن و فرزند کی تخصیص نہیں.

صفائی اور سجاوٹ یہاں کا طرہ امتیاز ہے. “صفائی نصف ایمان ہے”   کی مکمل عملی تفسیر ہیں یہ لوگ۔۔گھر کے اندر باہر گلیوں، سڑکوں، پارکوں میں کہیں بھی کوئی گندگی اور کچرا نظر نہیں آتا. صفائی گویا یہاں کا قانون ہے جس پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے.

ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس سے قوموں کی عادات کا پتہ چلتا ہے. ہوا کچھ یوں کہ میں نے میڈیکل اسٹور سے دوا لی ساتھ میں میرے چھوٹی بچی تھی اس کو وہاں سے ایک ٹافی لیکر دی جسے بچی نے اسی وقت کھولنے کا مطالبہ کیا ٹافی کا ریپر الگ کیا ہی تھا کہ اسٹور کیپر خاتون نے ہاتھ بڑھا کر بڑی شائستگی سے مجھ سے وہ ریپر مانگ لیا اور کوڑے دان میں ڈال کر میرا بہت شکریہ ادا کیا.

اہل یورپ کو ہمارے یہاں مذہب بیزار کہا جاتا ہے لیکن یہاں آکر میں نے اس کے برعکس دیکھا آج بھی یہاں جگہ جگہ قد آور صلیب گڑی ہے کثرت سے پُر شکوہ گرجا گھر ہیں اور مقررہ وقت پر گھٹنے بجتے ہیں سڑکوں کے ساتھ اور چوک چوراہوں پر حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت بی بی مریم کے مجسمے نصب ہیں جن کے چہروں پر گہرا غم اور بے بسی نمایاں ہے اور قریباً ہر گھر کے باہر بڑی عقیدت کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مصلوب مجسمہ نصب ہے اور ان کے جسم پر لباس کے نام پر برائے نام سی ایک لونگی بندھی ہے جس سے بعض اوقات پوری طرح ستر پوشی بھی نہیں ہو پاتی. ستر کو تو خیر یہاں بہترویں ترجیح شمار کرتے ہوں شاید لیکن مذہب سے دلچسپی اور عقیدت ان باتوں سے نمایاں ہوتی ہے.

ان دنوں ہرا بھرا جرمنی کسی بہت بڑے سبز پوش کی طرح لگتا ہے جس نے اپنے دامن میں رنگ رنگ کے  پودوں، پھولوں، جوشبوؤں، پرندوں، تتلیوں کو بہت چاؤ سے اپنے ہاں گویا رہائش کی دعوت دی ہو اور پھر ان کی خدمت میں ہر ممکن حد تک دیانت داری سے میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہو. اور پھر اس کے ہاں بسیرا کرنے والے پرندے صبح دم آزادانہ اپنے پیدا کرنے والے کی حمد و ثنا کرتے ہیں.

یہاں جنگلات کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے کوئی بغیر اجازت بغیر موسم کے درخت نہیں کاٹ سکتا خواہ درخت خود آپ کے اپنے ہی گھر کے صحن میں کیوں نہ ہو.  یہاں بہت سے درختوں پر نیم، سفیدہ، بیری، شیشم  کے درختوں کا گماں گزرتا ہے لیکن قریب سے دیکھنے پر کوئی ایک درخت بھی شناسا نہیں نکلتا.

جب میں نے دیکھا کہ سیب کے درختوں کے نیچے پکے ہوئے سیب اس طرح گرے ہوئے تھے کہ گویا ہمارے یہاں پر ایک موسم میں نیم کی نمولیاں پک کر ازخود گرتی ہیں اور بے حساب  و بیکار پڑی ہوتی ہیں کوئی طلب گار یا حاجت مند نہیں ہوتا ان کا یہاں بھی یہی صورت حال تھی اور بالائے ستم یہ کہ قریب میں چرتے ہوئے گھوڑے بھی ان پکے ہوئے سیبوں سے بے نیاز  اپنے  من بھاتے گھاس کی تلاش میں مصروف تھے.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دیکھ کر میری جو کیفیت تھی وہ عجیب ہی تھی میں ابھی تک سمجھ نہیں پائی کہ وہ کیا احساس تھا ایک دم سے مجھے دکھ ہوا،جیلسی تھی، یا اس فروانئ نعمت پر خوشی، یا رزق کے زیاں پر افسوس بہر حال مجھے اپنا وطن اور وطن کے مفلوک الحال عوام بہت یاد آئے.!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply