• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلوچ سیاست، ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے آسیب کا شکار

بلوچ سیاست، ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے آسیب کا شکار

مورخہ 5 جولائی کو بلوچستان کے ایک مؤقر روزنامہ نے اپنے اداریہ میں این اے 260 کے انتخابات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ اس نشست پر بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کو مشترکہ امیدوار لانا چاہیے تھا۔ اداریہ میں نیشنل پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل کی بجائے جمعیت کی حمایت کر کے ایک المیہ کا شکار ہے۔ اداریہ میں مزید لکھا گیا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی نے خضدار کی قومی اسمبلی کی نشست پر جمعیت کی حمایت کر کے بی این پی مینگل کا راستہ روکا تھا۔ اداریہ میں بی این پی مینگل کے این اے 260 کے امیدوار کی مبینہ گٹھ جوڑ اور ہار کے خدشہ کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔

اداریہ میں جو بھی لکھا گیا ہے اس کے اثرات 15 جولائی کے بعد معلوم ہوں گے لیکن اگر بلوچ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہ جاننا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا کہ بلوچ سیاست ہمیشہ سے ہی تناؤ کا شکار رہی ہے۔ جس میں انا پرستی کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔حیدرآباد سازش کیس میں گرفتار نعپ کی قیادت کی جیل اور پھر جیل سے رہائی کے بعد راستے جدا ہونے کی ضرور دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن انا پرستی کی چھاپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بی ایس او کی تشکیل اور پھر تقسیم بھی انا پرستی کے اثرات سے شاید پاک نہ ہو۔

میر غوث بخش بزنجومرحوم کے بعد بلوچستان کو کوئی ویژنری رہنما نصیب نہیں ہوا ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بلوچستان کے ہر چپے کی یاترا کی تاکہ اپنے عوام کی شعوری تربیت کی جائے۔ بلوچ سیاست لیڈر شپ کے حوالے سے ہنوز بانجھ پن کا شکار ہے، مستقبل کا پتہ نہیں۔سردار اختر اپنی لندن آمد کے بعد بی این ایم کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن پھر ان کی راہیں جدا ہوتی ہیں۔ ایک اور سیاسی تقسیم بلوچ عوام کا مقدر ٹھہر جاتی ہے۔ بزنجو مرحوم کی سیاسی جماعت اور سردار اختر کی پارٹی میں ادغام ہوجاتا ہے اور متحدہ بی این پی کی تشکیل ہو جاتی ہے۔ متحدہ بی این پی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے جس کے بعد سردار اخترمینگل وزیر اعلیٰ بھی بن جاتے ہیں یہ حکومت کچھ مہینوں کی مہمان ہوتی ہے۔ حکومت کے خاتمہ کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ اس وقت کی حکومت اتحادیوں کے درمیان چپقلش بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔”میں کمبل کو چھوڑتا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا” کے طعنے بھی گونجتے رہے ہیں، جسے اناپرستی کے پیرائے میں بھی پرکھا گیا تھا۔

سردار اختر مینگل کی حکومت کے خاتمہ کے بعد متحدہ بی این پی تقسیم ہو جاتی ہے جس کے بطن سے بی این ڈی پی اور بی این پی عوامی کا ظہور ہوتا ہے۔ ایک اور تقسیم بلوچ سیاست کے سینہ میں پیوست ہو جاتی ہے۔2013 کے عام انتخابات میں بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد کی امید کی جا رہی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ نیشنل پارٹی کے کلیدی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک اس حوالے سے پیش پیش بھی رہے۔ 2013 کے انتخابات میں نیشنل پارٹی کو خلافِ توقع کامیابی ملی۔اس وقت سردار اختر مینگل اپنے سابقہ سیاسی حریف بی این پی عوامی کے ساتھ زیادہ قربت رکھتے ہیں۔ لیکن بی این پی عوامی کی قیادت سردار اختر مینگل کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سردار کےساتھ کھڑی نہیں رہی تھی۔

بی این پی مینگل نے بلوچستان میں 2008 میں بننے والی سرکار کو بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، جس میں بی این پی عوامی بھی شامل تھی۔ اب قربتیں بڑھنے کے بعد سردار اسرار اللہ زہری کی کوششوں سے سردار اختر کو سابقہ صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس قدر ناقد بڑے اور چھوٹے سردار کے بی این پی عوامی کے چیدہ چیدہ رہنما تھے، شاید بزنجو برادران نہیں تھے۔ واقعی سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا۔ ماضی کے دشمن کو آپس میں دوست بنتے دیر نہیں لگتی۔ جس طرح عمران خان نئے پاکستان کی بات تو کر رہے ہیں مگر ساتھ ان لوگوں کا بھی ہے، جن پر انگلیاں بھی اٹھائی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

این اے 260 کے حالیہ انتخابی دنگل میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا اپنی حیثیت میں حصہ لینا میرے نزدیک دراصل اناپرستی کا شاخسانہ ہے۔ ممکن ہے میرے اس خیال سے کوئی بھی اتفاق نہ کرے۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، جب دونوں ہاتھ ملیں گے تو تالی بجانے کا عمل مکمل ہو گا۔ این اے 260 کے انتخابی دنگل کے حوالے سے کسی ایک کو ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔ بلوچ سیاست میں اناپرستی، تناؤ اور رسہ کشی ہمارے تاریخی سیاسی ورثہ کا حصہ ہے جس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔۔۔۔تو، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ تالی کے حصول کے لیے دونوں ہاتھوں کا ملاپ ضروری ہے۔ بلوچ سیاست ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے آسیب کا شکار ہے، جس کو غارت کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply