• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرپشن کی جڑ: الیکشن میں ہوش ربا اخراجات(1)۔۔افتخار گیلانی

کرپشن کی جڑ: الیکشن میں ہوش ربا اخراجات(1)۔۔افتخار گیلانی

ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل بھارت کی معروف جواہر لال یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میرے ایک ساتھی کو سیاست میں شامل ہونے کا شوق چرایا۔صوبہ اترپردیش کے ایک قصبہ میں اپنے کاروبار کے ساتھ کئی برسو ں سے انہوں نے حق اطلاعات کے قانون کا سہارا لیکر مقامی طور پر کرپشن کے خلاف جنگ شروع کی تھی اور اسکے علاوہ ان کی سعی سے عوام کیلئے بنیادی ضروریات یعنی پانی ، بجلی اور سڑک کی فراہمی آسان ہو گئی تھی۔ بطور ایک آزاد امیدوار انہوں نے نگر نگم یعنی میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین کا انتخاب لڑا اور اس عہدے پربرسوں سے براجمان ایک بھاری بھرکم سیاستدان کو ہرا کر کامیابی حاصل کی۔ جب جیتنے کی خوشی اور ڈھول نقاروںکی آوازیں تھم گئیں اور ان کو اپنا دفتر سنبھالنا پڑا، تو معلوم ہوا کہ چیئرمین تو ہمہ وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے ، ملاقاتیوں کا سلسلہ اور مسائل کا انبار سانس بھی نہیں لینے دیتا ہے۔چند روز میں ہی ان کو معلوم ہوا کہ اپنا کاروبار بند کرکے پورا دن کار پوریشن کے دفتر میں بیٹھ کر ملاقاتیوں کو سنبھالنا ، معزز شہریوں کو چائے ناشتہ کروانا یا شہر کا دورہ کرنا ہی اب ان کا روز مرہ کا کام ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ چیئرمین کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا وہ حیران و پریشان تھے کہ ان کے بغل کے قصبہ کے نگر نگم کے چیئرمین کے پاس عالیشان گاڑیوں کی فلیٹ اور محل نما مکانات تھے اور یہی حال تقریباً صوبہ کی سبھی مونسپل کارپوریشنوں کے چنے ہوئے عہدیداروں کا بھی تھا۔ کوئی تنخواہ نہیں، اپنے کاروبار کیلئے فرصت نہیں اور ہر دن سینکڑوں افراد کو چائے پلانا ، آخر گزارہ ہو تو کیسے؟ خیر اس دوست کا کہنا تھا کہ اسی شش و پنج میں مہینہ گذر گیا اور وہ تقریباً تیار تھے کہ سیاست کو خیر باد کہہ کر واپس اپنی دنیا میں آجائیں، تاکہ اہل و عیال کو پالنے کیلئے حصول رزق میں جت جائیں۔ مہینہ کی پہلی تاریخ کو گھر کے دروازے پر صبح سویرے دستک ہوئی تو معلوم ہوا کہ قصبہ کے ٹھیکہ داروں کی یونین کا وفد ملنے آیا ہے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے ایک پیکٹ حوالے کیا، جس میں چند لاکھ روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کارپوریشن کے چیئرمین کیلئے ماہانہ ہدیہ ہے، جو وہ کئی دہائیوں سے دیتے آرہے ہیں، جب سے ملک میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے گراس روٹ جمہوریت نے جڑ پکڑ لی ہے۔ چند لمحوں کے بعد بیوپار منڈل اور چھابڑی فروشوں کی انجمن، غرض شام تک ایسی درجنوں تنظیموں کے نمائندے دستک دیتے رہے اور ہدیہ پیش کرتے رہے۔ ایک انجمن کے عہدیدار نے انکو کہا کہ وہ انکو جلدی فارغ کردیں، کیونکہ ان کو ممبر اسمبلی اور مقامی ممبر پارلیمنٹ کے گھر جاکر ان کو بھی ماہانہ ہدیہ عنایت کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ نو منتخب چیئرمین ان ہدیوں کو ٹھکراتے رہے۔ مگر ان کو ادراک ہوگیا کہ آخر گراس روٹ پر ڈیموکریسی کی دیوی کیسے کام کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ان بلدیاتی اداروں کا قیام اسی لئے کیا گیا ہے کہ مقامی سیاستدانوں کو انتظامیہ کے ساتھ مل کر بد عنوانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے کر پارٹی اور دیگر سیاستدانوں کیلئے رقومات فراہم کروانے کا انتظام کرایا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی ریاست کے ایک ڈویژن میں ایک اور ساتھی کا پولیس کے محکمہ میں بطور ڈی آئی جی تقرر ہوا۔ وہ بھی جے این یو کے ہی فارغ التحصیل تھے۔ سول سروس میں کامیابی کے بعد جب سے ان کو پولیس کا محکمہ دیا گیا تھا ، اپنی صاف شبیہ کی وجہ سے ان کو کسی علاقے کی کمانڈ نہیں دی گئی تھی، بلکہ ہیڈ کوارٹر میں ہی فائلوں کی کھنگالنے کی ذمہ داری پر مامور تھے۔ صنعتوں کے جال کی وجہ سے صوبہ میں یہ ڈویژن کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کیلئے پیسہ بنانے میں مشہور تھی۔ ان کی تقرری کے چند ما ہ بعد جب علاقے کے دورہ پر وزیر اعلیٰ آپہنچی، تو باقی افسران کی طرح وہ بھی ان کی خدمت میں جت گئے۔ شام کو وزیر اعلیٰ نے بغیر کسی لاگ و لپٹ کے ان کو بتایا کہ سیاسی پارٹی چلانا کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے، اس کیلئے زر درکار ہوتا ہے اور انکو کسی ضلع کے پولیس انچارج کا تجربہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس ملائی والے ڈویژن کا انچارج بنایا گیا ہے اور ابھی تک وہ ان کی پارٹی کو فنڈز مہیا نہیں کروا پا رہے ہیں۔ ان کو وارننگ دی گئی کہ اگلے دن شام تک وہ ایک کروڑ روپیہ لیکر حاضر ہو جائیں، ورنہ اپنی ملازمت اور کیرئرپر فاتحہ پڑھ لیں۔ پریشانی کے عالم میں انہوں نے صبح سویرے ان کے گھر پر آئے پولیس کپتان کو بتایا کہ ان کا تبادلہ یقینی ہے اور وہ اہم فائلوں کو نمٹانا چاہتے ہیں۔ ایس ایس پی نے ان کو دلاسہ دیا اور اور علاقے کے دس پولیس تھانوں کے سربراہوں کو فون کر کے دس لاکھ روپے فی تھانہ جمع کرنے کی ہدایت دی۔ شام تک ڈی آئی جی صاحب نے وزیر اعلیٰ کو ایک کروڑ روپے تھما کر اپنی نوکری بچا لی۔ چند برس قبل حق اطلاعات قانون اور امیدواروں کے ذریعے فائل کئے گئے حلف ناموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کی گئی دستاویزات کے ذریعے معلوم ہو اکہ ایک رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کی دولت میں پانچ سالوں میں 50ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش سے منتخب ممبر اسمبلی وشواناتھ نے 2009 ء میں دائر حلف نامہ میں اپنی آمدنی اور جائیداد چار لاکھ روپے بتائی تھی۔ پھر 2014کے انتخابات کے موقع پر دائر حلف نامہ میں آمدن اور جائیداد 14کروڑ روپے دکھائی۔ یعنی ان کی آمدن میں ہوشربا 35ہزار گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی طرح لوک سبھا کے ممبران کے حلف نامے جو میں نے چیک کئے ان کے مطابق 2009 ء اور 2014ء کے درمیان اوسطاً ایک ممبر کی آمدن میں 1200گنا اضافہ ہوا تھا۔ اگر ان کے مشاہرہ کا جائزہ لیا جائے، تو بھارت میں ایک ممبرپارلیمنٹ کو تمام الائونس اور تنخواہ کے ساتھ ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب رقم ملتی ہے۔ یعنی سالانہ یہ رقم 35 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ اب یہ کونسی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جس سے ان کی آمدن میں اس قدر ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply