• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دہشت گردی،بلوچستان پولیس کے بے مول شہید اور یوم شہداء۔۔۔۔ مدثر عمیر اقبال

دہشت گردی،بلوچستان پولیس کے بے مول شہید اور یوم شہداء۔۔۔۔ مدثر عمیر اقبال

چند روز پہلے یومِ شہدا پولیس منایا گیا۔۔۔۔اس حوالے سے ا   پنی یاداشت میں محفوظ کچھ واقعات آپ کو سناتا ہوں ۔۔۔

صحبت پور ڈیرہ اللہ یار روڈ پہ لگی وہ تصویر میں کبھی نہیں بھول سکتا جسے شاید 2009میں پہلی دفعہ دیکھا تھا ۔نام مجھے یاد نہیں ،کسی شہید ایس پی کی تصویر تھی جنہیں اپنے چوبیس ساتھیوں سمیت دہشت گردوں نےاغوا کرکے  شہید کردیا تھا۔چوبیس جنازوں کے ایک ساتھ اٹھنے کا تصور کس قدر روح  فرساتھا ۔آج بھی سوچتا ہوں تو  کانپ اٹھتا ہوں ۔وہ پورا سفر مرجھائے ہوئے دل سے ہوا۔

دل تو  اس دن بھی میرا خون کے آنسو رویا تھا جب یہ خبر سنی کہ  ڈیرہ اللہ یار میں عبدالظاہر کے والدین کو دن دہاڑے گھر میں گھس کر شہید کر دیا گیا ۔وہ عبدالظاہر جسکی ذہانت ،جسکا ادب بتاتا تھا کہ تربیت کن ہاتھوں کی ہے ۔اور وہ ہاتھ ،وہ والدین شہید کر دیے   گئے۔ کیونکہ وہ ایک فرض شناس انسپکٹر عبدالرؤ ف  کے والدین تھے ۔فرائض کی ادائیگی کی یہ سزا ملے گی کوئی تصور کر سکتا ہے ۔ قیامت ٹوٹنا کسے کہتے ہیں عبدالظاہر سے پوچھیے۔۔۔

قیامت تو  پولیس لائن کوئٹہ پہ بھی ٹوٹی تھی ،وہ بھی عید سے صرف ایک دن پہلے ۔منیر کاکڑ میرے ساتھ لیکچرار تھے وہ اپنے سارے بھائیوں اور والد محترم کے ساتھ اس دن انسپکٹر محب اللہ کے جنازے میں شریک تھا۔ انھوں نے بتایا کہ” مدثر!دھماکے سے تھوڑی دیر پہلے ہی ہم مسجد کے اندر گئے تھے اور دھماکہ مسجد کے دروازے کے قریب باہر ہوا۔” کچھ دیراگر ہم وہیں کھڑے رہتے تو ڈی آئی جی سنبل سمیت ہم سب بھائیوں نے بھی اللہ کو پیارا ہوجانا تھا ۔منیر حواس باختہ لہجے میں بتا رہا تھا ۔
“مدثر! چیخ و پکار تھی،کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ،ہر سو دہشت رقصاں تھی ، آہ و بکا کلیجہ چیر رہی تھی ۔ پولیس کالونی کے گھروں سے خواتین چیخیں مارتی باہر کو دوڑی تھیں ،کیسا پردہ ،کہاں کا پردہ ،کسے اپنا ہوش تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ موت کھڑی ہے ہر گلی میں ۔ماتم برپا ہے ہر کوچے میں ۔کتنے کڑیل جوانوں کو اس دن ہم نے قبروں میں اتارا ہمارے لئے وہ چاند رات شام غریباں تھی ۔”

میرا دوست منیر تو بچ گیا لیکن گورنمنٹ مڈل اسکول شالدرہ  کوئٹہ میں میرا کلاس فیلو عبدالسلام نہ بچ سکا ۔وہ عبدالسلام جو انسپکٹر بنا ،اس پر داڑھی بہت سجتی تھی  اسکی  وہی داڑھی والی تصویر برادر طارق بہرانی کی وال پر دیکھی شہداء پولیس کی تصاویر میں ۔ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی سفید کفن پہننے کی۔مجھے یاد ہے کہ وہ پولیس میں بہت شوق سے گیا تھا ۔

شوق تو پولیس ٹریننگ سنٹر کوئٹہ کے سانحےمیں زندہ بچ جانے والے  سبی  کے افراسیاب  خجک کو بھی بہت تھا ۔ سبی کا بہترین وکٹ کیپر بیٹسمین افراسیاب بغیر کسی سفارش کے بلوچستان پولیس کا بالآخرحصہ بن ہی گیا ۔ ابھی ٹریننگ کر ہی رہا تھا کہ ٹریننگ سینٹر پہ حملہ ہوا۔افراسیاب بفضل تعالیٰ بچ گیا لیکن بارود سے جلی ،دھاتی چھروں ،گولیوں سے  چھلنی اور لہو میں لپٹی لاشیں،اور ویگنوں کی چھتوں پہ لدے تابوت اسے تمام عمر کہاں بھولیں گے ۔

سبی کا کرکٹر سپاہی تو اپنے والدین کے ساتھ اپنی تلخ یادوں کو بھلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ڈیرہ  اللہ  یار  کے اس باکمال کرکٹر کے والدین کے دامن میں اپنے جواں سال سپاہی بیٹے کی یادوں کے سوا کچھ نہیں ہے ، جو اپنے تین ساتھیوں سمیت چکی شاہوانی سریاب روڈ پہ دہشت گردی کے ایک حملے میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔

الیکشن کے دن کی وہ تصویر کسے بھولی ہوگی جس میں سول ہسپتال کے سامنے کھڑے مستعد سپاہی کی وردی پہ لگے لہو کے دھبے چیخ چیخ کر اعلان کر رہے تھے کہ ہم لاشیں اٹھا کر بھی اپنا فرض ادا کرنا نہیں بھولتے۔شہادتوں سے جڑی یادوں کی اک لمبی داستان ہے جو بلوچستان پولیس سے وابستہ  ہر شخص کے ذہن میں محفوظ ہے۔

بلوچستان پولیس باقی معاملات میں شاید باقی پاکستان سے پیچھے ہو لیکن شہادتوں کی فہرست میں سر فہرست ہے ۔لیکن افسوس یہ شہید اس طرح ہماری توجہ نہ حاصل کرسکے جیسا ان کا حق تھا۔جیکب آباد سے کوئٹہ جاتے ہوئے راستے میں بہت سی پولیس چوکیاں آتی ہیں ۔جو کسی نہ کسی شہید سے منسوب ہیں ۔تین  ساڑھے تین سو کلومیٹر کی پٹی پہ قائم چوکیاں جہاں ایک طرف شہداء کی تعداد کی گواہی دیں گی جو اس سے کہیں بڑھ کر  ہیں، وہاں بلوچستان پولیس کو ملنے والی سہولیات کا کچا چٹھا بھی کھولتی ہیں ۔ شہداء کے خاندان کس حال میں ہیں نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کم وسائل ، ناکافی سہولیات، شاید پورے پاکستان  میں سب سے کم تنخواہ اور اس پر ہر لمحہ  موت کا سامنا ،پھر بھی اپنی چوکی،اپنے تھانے ،اپنی ڈیوٹی پہ مستعد بلوچستان پولیس کے سپاہیوں اور افسروں کو  میرا سرخ سلام۔اے میرے بے لوث محافظو! مجھے آپ پر فخر ہے!

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply