نئی حکومت سے وابستہ امیدیں۔۔۔۔ طاہر یٰسین طاہر

امید انسان کو زندہ رہنے کا سہار ا دیتی ہے۔ فلسفیانہ نکات اور سماجی حیات کی جزئیات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو بھی امید اور انعام ہی انسان کو جدوجہد حتیٰ کہ عبادات تک کرنے پر آمادہ کئے ہوئے ہے۔ پاکستان کی سیاسی حیات میں وعدوں اور امیدوں کا سلسلہ البتہ اس قدر دراز ہے کہ اس پہ لکھنے کو کئی دفتر درکار ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے ہاں دلفریب نعرے، چرب زبان ترجمان اور پرکشش منشور تو رکھتی ہے لیکن آخر الذکر پہ کبھی بھی کسی جماعت نے پوری طرح عمل نہ کیا۔ مثلاً پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان ہے، مگر ذوالفقار علی بھٹو سمیت ان کی پارٹی چار سے پانچ بار اقتدار میں آئی، لیکن اس نعرے کو کوئی خاص سمت نہ دے سکی۔ اس نعرے کو اگر ایک پالیسی کے طور اپنایا جاتا تو آج پاکستانی سماج کی حالت بہت مختلف اور بہتر ہوتی۔

اسی طرح مسلم لیگ اپنے کئی ایک جنموں سے جب مسلم لیگ نون بن کر جوان ہوئی تو اس کے ہاں بھی معیشت کی بحالی اور پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کا پرفریب نعرہ موجود تھا۔ لیکن موٹر ویز اور موٹر ویز کے سوا کوئی قابل ذکر کام نہ ہوسکا۔ ملکی معیشت کو سہارا فوجی ادروار میں ملتا رہا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے عہد میں معیشت مضبوط ہوئی۔ گذشتہ سے پیوستہ روز نگران وزیر خارجہ کا بیان تھا کہ نون لیگی حکومت جاتے ہوئے اپنے ساتھ 200 ارب روپے لے گئی، ملکی خزانہ خالی ہونے کے قریب ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں ملکی معیشت کو استحکام دینے کا کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں رکھتیں۔ اسد عمر تحریک انصاف کی بننے والی نئی حکومت کے ممکنہ وزیر خزانہ ہوں گے۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی، یہی اسد عمر معیشت کے مختلف زاویوں کا تجزیہ کرتے اور آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی تراکیب بتاتے رہتے تھے، اب جبکہ انہوں نے عہدہ ابھی سنبھالا بھی نہیں تو کہنے لگے کہ ملک کو فوری طور 12 ارب ڈالر درکار ہیں۔ بے شک تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے، جسے پہلے ہی امریکہ نے خبردار کر دیا ہے۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کا اگر آدھا حصہ بھی نئی حکومت واپس پاکستان لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک خوشحال ہو جائے گا۔ یہ رقم واپس آئے گی کیسے؟ اس کے لئے نئی حکومت کو لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا اور پہلی فرصت میں پاکستانیوں کی باہر کے ملکوں میں پڑی خطیر رقم واپس لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ تحریک انصاف کی قیادت یہ وعدے بھی کرتی رہی کہ اقتدار میں آکر نہ صرف لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے گا بلکہ ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھا کر خزانے کو بھرا جائے گا۔ عام پاکستانی کے لئے یہ ایک طرح کی بہت بڑی امید اور حوصلہ افزا بات رہی۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ بھی کہا ہوا ہے کہ اقتدار میں آکر قانون کی عمل داری کو یکساں کریں گے، یعنی امیر غریب، کمزور و طاقتور سب کے لئے قانون برابر ہوگا۔ ریاست کے سب سے بڑے مسئلے پولیس کے اندر ریفارمز لائی جائیں گی، ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔

غریب ملک کے پسے ہوئے عام آدمی کے لئے اس سے بڑی امید اور کیا ہوگی کہ اس کے بچوں کو نوکری ملے گی، ٹیکس کا لوٹا ہوا پیسہ واپس ملک میں آئے گا، بجلی سستی ہوگی، پولیس کا خوف ختم اور قانون کے احترام کا رواج جڑ پکڑے گا۔ یہ ساری چیزیں بہرحال حوصلہ افزا اور عام آدمی کی ضرورت بھی ہیں، لیکن ایسا کرنے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کو پہاڑ جیسے حوصلے اور غیر معمولی فیصلوں کا سہارا لینا پڑے گا، جہاں تک بات عمران خان کی ذات کی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل کرنے کے حوالے سے جارحانہ حکمت عملی اپنائیں گے۔ لیکن کیا تحریک انصاف کے اتحادی بھی ان کا بھرپور ساتھ دیں گے؟ کیا عمران خان صحت اور تعلیم کے میدان میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں گے؟ کیا تحریک انصاف ہمسایہ ممالک سے بہتر اور دوستانہ تعلقات قائم کر پائے گی؟ اور یہ کہ کیا ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہوسکے گا۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

میرا خیال ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے طرح تحریک انصاف کا منشور بھی دلفریب اور پرکشش ہے، لیکن تحریک انصاف کی قیادت اور دیگر جماعتوں کی قیادت میں ایک فرق ہے۔ عمران خان دھن کے پکے ہیں اور منفرد کام کر گذرنے کی لگن رہتی ہے۔ ایک اور چیز جو ان کے حق میں جاتی ہے، وہ ان کا روایتی سیاست دان نہ ہونا ہے۔ یوں ہمیں امید کرنی چاہیے کہ وہ حکومت سازی کے عمل کے بعد سیاسی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوں گے اور اگر اپنے منشور پر پورا عمل نہ بھی کرسکے تو کم از کم ملک کو ترقی و خوشحالی کی نئی ڈگر پر ضرور ڈال دیں گے۔ ملک کے لئے کوئی ایسا منصوبہ اور لائحہ عمل ضرور دیں گے، جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔ پاکستانی عوام کی خواہش بھی ہے اور نئی حکومت سے امید بھی کہ وہ 200 ارب ڈالر وطن واپس لانے کی عادلانہ سعی کرے گی، ملک کو سر سبز بنانے کی خاطر درخت لگانے کے ئیے ٹاسک فورس بنائے گی، پانی کی قلت پوری کرنے کے لئے نئے ڈیمز بنائے گی اور نوکریاں دینے کا وعدہ بھی پورا کرے گی۔ اس امید کا اگر 20 فی صد بھی پورا ہوگیا تو آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو کسی اتحادی کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو اس پارٹی کا حال بھی دیگر سیاسی جماعتوں جیسا ہی ہوگا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply