• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وہ آنکھیں نہیں بھلائی جاتیں،اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر۔۔۔۔۔ ابصار فاطمہ

وہ آنکھیں نہیں بھلائی جاتیں،اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر۔۔۔۔۔ ابصار فاطمہ

ہسپتال میں انٹرن شپ کے دوران ڈاکٹر صاحبان کا عجیب رویہ دیکھنے میں آیا۔ سینئر ڈاکٹر حضرات ناصرف مددگار تھے بلکہ بارہا جونئیرز کو بھی سائیکاٹرک ٹریٹمنٹ کے ساتھ ساتھ سائیکو تھیراپی کی اہمیت سمجھنے پہ زور دیتے رہتے جبکہ پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کا رویہ اس کے برعکس تھا ۔وہ ہر بیماری کو دوا سے ٹھیک کرنے کی تگ و دو میں ہوتے تھے۔ ایک بیچارے عمر میں سینئر مگر پھر بھی پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر جو کہ FCPS کے پہلے سال میں کئی  برسوں سے تھے ،ان کا طریق یہ تھا کہ مجھے یا کسی بھی انٹرن یا ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹر کو اپنے ساتھ روم میں بٹھا لیتے پرچہ اور پین اسے تھماتے اور ہر مریض کو علامات سنے بغیر اکیوٹ ڈپریسیو ڈس اورڈر تشخیص کر کرکے اسی کی ادویات دیتے رہتے.۔صاف ظاہر تھا کہ وہ مزید ذہنی مسائل سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرنا چاہتے۔ بقیہ پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کا بھی تمام زور صرف ادویات دینے پہ ہی ہوتا تھا۔دو تین سینئر ڈاکٹرز اور صرف ایک پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر کی مہربانی تھی کہ بیہورل ڈس اورڈرز اور دوسرے ایسے کیسز جو مکمل طور پہ سائیکولوجیکل ہوتے تھے وہ مجھ تک کیس اسٹڈی کے لیے پہنچ جاتے ورنہ شاید میرا انٹرن شپ کرنا بالکل بیکار جاتا۔

مزے کی بات یہ کہ ایک بڑے شہر کا اہم اسپتال ہونے کے باوجود اس کے شعبہ نفسیات کے عملے میں ریزیڈنٹ ماہر نفسیات (سائیکاٹرسٹ) تو بہت سے تھے مگر ریزیڈنٹ نفسیات دان یعنی سائیکالوجسٹ کوئی نہیں تھا. بلکہ وزٹنگ فیکلٹی میں بھی نہیں تھا. اسی دوران مجھے دو خواتین سے بات کرنے کا موقع ملا  جو کہ مجھ تک بھیجی گئی تھیں. وہ بچارے مددگار پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر خود ہی بتا گئے کہ یہ اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر کا کیس ہے آپ کیس ہسٹری بنالیں اور مزید بھی کچھ گائیڈ کیا.

مریضہ خاتون نقاب میں تھیں اور صرف آنکھیں دکھ رہی تھیں. دوسری خاتون ان کی والدہ تھیں. انہوں نے دیہاتی انداز کا برقعہ پہنا ہوا تھا اور چہرے پہ سے اندر آکر نقاب ہٹا لی تھی. میری زیادہ تر بات چیت والدہ سے ہی ہوئی. والدہ کے مطابق اس وقت سے کوئی دو سال پہلے خاتون کا بیٹا جو باہر شاید نوکری کے سلسلے میں گیا تھا طویل مدت کے بعد واپس آرہا تھا. والد اسے لینے ائیر پورٹ گئے تھے. والد پہنچنے میں لیٹ ہوگئے اور بیٹا دوسرے رستے سے گھر کے لیے نکل گیا. رستے میں کسی جگہ اس کی ٹیکسی ریت کے ٹرک کے پیچھے آگئی اور وہ ٹرک الٹ گیا. جب تک والد گھر پہنچتے بیٹے کا جنازہ گھر پہنچ چکا تھا. یہاں تک کی روداد بہت سے سنے ہوئے حادثات جیسی تھی مسئلہ اس کے بعد شروع ہوا جب خاتون کے سسرال والوں نے اسے بیٹے کی موت کا ذمہ دار قرار دینا شروع کیا اور وجہ یا دلیل کچھ نہیں سوائے نحوست کے. جوان بیٹے کی موت کا صدمہ اور ساتھ سسرال والوں کا رویہ، اس خاتون کو ہر کپڑے پہ بیٹے کا خون دکھائی دینے لگا. سارا دن گھر کے کپڑے جمع کر کے دھوتی رہتی. بہت سے کپڑے دھو دھو کر پھاڑ دیئے. ہر وقت ہاتھ پانی میں رہنے کی وجہ سے ہاتھ کی جلد بالکل گل گئی تھی. یہ سب احوال سناتے ہوئے خاتون کی والدہ کی آنکھیں اتنی سرخ تھیں جیسے ابھی خون ٹپکنے لگے گا. وہ مسئلہ بتاتی جارہی تھیں اور روتی جارہی تھیں. مگر سب سے ہولناک اس خاتون کی آنکھیں تھیں جن میں کوئی جذبہ نہیں تھا بلکہ موت  کا سناٹا تھا.

آپ لوگ یقینا ً سوچیں گے کہ خاتون کا مسئلہ بیٹے کی موت کے بعد شروع ہوا لیکن ایسا نہیں ہے. نفسیاتی مسائل کی جڑیں اس سے کہیں زیادہ گہری ہوتی ہیں جتنا ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے. اس کے سسرال والے کتنے “شفیق” اور ساتھ دینے والے تھے یہ ان کے اس روئیے سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے. یعنی خاتون کے مسائل کی ابتداء بیٹے کی موت سے نہیں بلکہ اس کی اپنی شادی کے بعد سے شروع ہوئی ہوگی. بیٹے کی موت اور اس پہ سسرال والوں کا سطحی رویہ اس کے ضبط کی حد تھی. جو آخر کار ختم ہوگئی اور نتیجہ اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر کی شکل میں نکلا.

اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر کی سب سے بنیادی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں مبتلا شخص کے دل میں ایک ہی کام کرنے کی شدید خواہش بار بار جنم لیتی ہے جسے وہ دبا نہیں پاتا. کچھ کیسز میں اس کی کوئی واضح وجہ بھی سامنے نہیں آسکی مگر بہت سے کیسز میں یہ علامات کسی شدید خوف، شرمندگی یا احساس جرم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں. جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے  کیس میں. جہاں خاتون کو یہ یقین کرنے پہ مجبور کردیا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کی قاتل ہیں.

اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر جسے عام طور پہ او سی ڈی OCD کے مخفف سے جانا جاتا ہے میں مبتلا افراد کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں ، مگر ان میں ایک یکسانیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی عمل بار بار دہراتے ہیں مثلاً  بار بار دروازے کھڑکیاں چیک کرتے ہیں، بار بار گھر کی صفائی کرتے ہیں، بار بار نہاتے ہیں یا وضو کرتے ہیں، ترتیب سے رکھی چیزوں کو بار بار ترتیب سے رکھتے ہیں. اس عمل کے دو حصے ہوتے ہیں پریشان کن سوچ اور اس سوچ کے ردعمل میں کیا گیا عمل. مثلاً  پریشان کن سوچ یہ ہوسکتی ہے کہ باتھ روم سے آکر میں نے ہاتھ دھوئے مگر کیوں کہ مجھے جراثیم نظر نہیں آتے تو شاید کچھ جراثیم میرے ہاتھ پہ رہ گئے ہوں. یہ سوچ مریض کو ہاتھوں پہ علاظت کا احساس دلائے گی اب اس کا تمام دھیان ہاتھوں کی طرف رہے گا. اس کی کوشش ہوگی کہ ہاتھ کسی چیز سے نہ ٹکرائیں اور جتنا جلدی ہوسکے وہ دوبارہ ہاتھ دھو لے اور تب تک دھوئے جب تک صاف ہونے کا یقین نہ  ہوجائے.

 

دوسرے نفسیاتی مسائل کے بر عکس اس مسئلے پہ بات چیت کرنے سے ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا. یعنی سائیکو انالائسز سے آپ انہیں ان کی بار بار دہرائی جانے والی حرکت کی وجہ کسی حد تک سمجھا ضرور سکتے ہیں لیکن ان کی اس عادت پہ قابو نہیں پایا جاسکتا. تحقیق کی مطابق ایک ہی عمل بار بار دہرانے کی خواہش سیکھی ہوئی نہیں ہے اور بلکہ دماغ ایسی سوچ تخلیق کرنے پہ مجبور ہے. اسی لیے اس کے علاج میں اس پہلو پہ دھیان دیا جاتا ہے کہ مریض جس کام کو کرنے سے ڈر رہا ہے وہی کام کروایا جائے لیکن اس کے ردعمل کے طور پہ کیا جانے والا کام نا کروایا جائے. آہستہ آہستہ مریض یا فرد ذہنی طور پہ اس پریشان کن عمل سے پریشان ہونا چھوڑ دیتا ہے اور اس کا ذہن اس عمل کو خطرے کے طور پہ نہیں لیتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر یاد رکھیے  کہ ہر شخص زبردستی مریض کو ناپسندیدہ کام پہ مجبور نہ کرے. ماہرین نفسیات سب سے پہلے مریض کو ذہنی طور پہ آمادہ کرتے ہیں. ایک مخصوص ذہنی آمادگی کے بعد ہی اسے اس عمل کے لیے کہا جاتا ہے. غیر ذمہ داری کا رویہ مریض کے لیے جان لیوا حد تک خطرناک ہو سکتا ہے. لہذا سائیکو تھیراپی کی ذمہ داری ماہرین کے لیے ہی رکھ چھوڑئیے اور بحیثیت فیملی ممبر صرف مریض کی جذباتی سپورٹ بنے رہیے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply