2018 الیکشن ۔ خیر کا پہلو۔۔۔۔۔طارق احمد

بنیادی طور پر میں ایک پر امید اور رجائیت پسند شخص ھوں۔ خوش رھتا ھوں۔ اور اس تصور کا مالک ھوں۔ کہ اس دنیا میں جو بھی ھوتا ھے۔ بہتری اور مثبت تبدیلی کے لیے ھوتا ھے۔ اگرچہ دنیا میں بدی ھے۔ اور شر کی قوتیں طاقتور ھیں۔ لیکن نیکی اور خیر کی قوتیں زیادہ طاقتور ھیں۔ اور یہی وجہ ھے۔ کہ یہ دنیا اور یہ کائنات چل رھی ھے۔ میری اس پر امید اور رجائیت پسند سوچ کو تاریخ کے اوراق سے انگیخت ملتی ھے۔ اگر ھم صرف انسانی تہذیب کے سفر اور اس کی ترقی کو ھی دیکھ لیں۔ تو بات سمجھ آ جاتی ھے۔ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز جنگلوں ، غاروں اور پہاڑی گپاوں سے کیا۔ اور آج تہذیب انسانی فلاحی ریاست کی معراج پر پہنچی ھوئ ھے۔ اسی طرح انسانی ریاستی نظام بادشاہوں، آمروں، جرنیلوں اور انسانی سروں کے مینار بنانے والے فاتحین کے ادوار سے نکل کر جمہوریت، صل کل، بقائم باھمی، امن اور انسان دوستی کے اعلی و ارفع آدرشوں پر استوار ھو چکا ھے۔ قانون قدرت ھے۔ جو انسان ، معاشرہ اور ریاست بدلتے نظام، ترقی کرتی سوچ، اور انسانی فلاح و فوائد کے ساتھ نہیں چلتی۔ اور پیچھے رھ جاتی ھے۔ قدرت اپنے حساب سے اسے اس ترقی کرتی انسانی تہذیب کا حصہ بنا دیتی ھے۔ یہ نہیں ھو سکتا ۔ اگر دنیا کی ایک بڑی آبادی ترقی کے اجتماعی فوائد سمیٹ رھی ھے۔ تو اسی دنیا کا ایک حصہ ان فوائد سے محروم چلا آ رھا ھو۔
یورپ نے جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کرنا شروع کی۔ تو دنیا کی بیشتر ریاستیں صدیوں پرانے بادشاھی نظام کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئ تھیں۔ اور پھر نوآبادیاتی نظام شروع ھوا۔ اور یورپ کی ترقی اس نوآبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئ۔ بر صغیر ھندو پاک میں آج بھی انگریزوں کے بناے گئے نظام اور انفراء سٹرکچر سے فائدہ اٹھایا جا رھا ھے۔ اسے آپ قدرت کا وہ پراسرار طریقہ واردات کہہ لیں ۔ جس کے ذریعے وہ ترقی پذیر نسل انسانی کے تمام معاشی و فلاحی فوائد محروم طبقوں تک پہنچاتی ھے۔ چناچہ یہ کیسے ممکن ھے۔ جبکہ ساری دنیا جمہوریت اور آزادی رائے کے فوائد انجواے کر رھی ھو۔ پاکستان آج بھی ایک کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور نیم نوآبادیاتی نظام کے ہاتھوں یرغمال بنا ھو۔ اس جعلی اور  قوت کے بل بوتے نافذ کردہ نظام کو آخر ایک دن ٹوٹنا ھے۔ اور ختم ھونا ھے۔
2018 کے انتخابات کو میں اسی نظام کے خاتمے کی جانب ایک قدم فارورڈ سمجھتا ھوں۔ بات یہ ھے۔ تحریک انصاف کے فالوورز اور عمران خان کے لوورز کو لے کر ہمارا معاشرہ ایک شدید تقسیم کا شکار ھو چکا تھا۔ تحریک انصاف کے مثالیت پسندی والے رویے کو وجہ سمجھ لیں۔ مخالفین کی کردار کشی کہہ لیں۔ خوابوں اور امیدوں کی فراوانی سمجھ لیں۔ آئیڈیلزم کی انتہا کہہ لیں۔ لیکن یہ حقیقت ھے۔ عمران خان کے فالوورز اور ان کے مخالفین کے درمیان تناو اور کشمکش نے ہمارے  معاشرے کو بری طرح نفرت ، غصے، فریسٹریشن اور مایوسی کا شکار کر دیا تھا۔ مسئلہ سیاسی مخالفت سے آگے ملک دشمنی کے الزامات تک پہنچ چکا تھا۔ تحریک انصاف کے فالوورز دل و دماغ سے یہ سمجھتے تھے۔ پاکستان کی بربادی کی وجہ تمام سیاستدان ھیں ۔ اور صرف عمران خان ھی اب اس ملک کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتا ھے۔ یہ تک خواہش  کی گئ۔ کہ عمران خان کو بھی ایک موقعہ ملنا چاھیے۔ میں ایک استاد ھوں ۔ عمر میں بڑا ھوں۔ لیکن میں خود اپنے شاگردوں اور فیملی کے نوجوان بچوں کی نفرت کا شکار ھوا۔ جن پر کسی قسم کی کوئ منطق،  دلیل ، عقل یا تاریخی حوالہ کارگر ثابت نہ ھوتا تھا۔ ایک رومانیت تھی۔ جس میں یہ طبقہ بہے چلا جا رھا تھا۔
عمران خان کے جیسے بھی یہ الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کی وجہ سے ھمارے معاشرے کے اس بے قرار اور مثالیت پسند طبقے کو آرام آ جاے گا۔ اور نفرت اور غصے پر مبنی یہ معاشرتی تقسیم ٹوٹنا شروع ھو جائے گی۔ اپوزیشن اور حکومت کے معاملات اور طریقہ کار بلکل مختلف ھوتے ھیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کا اسقدر جابر اور طاقتور تسلط قائم ھو، وہاں اپنی مرضی کی پالیسیاں بنانا سہل نہیں ۔ میرا یقین ھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں ایک سول حکومت کو کبھی بھی قابل قبول نہیں ھو سکتیں۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے الٹ ھوتی ھیں۔ اسٹیبلشمنٹ جو کچھ سول حکومت سے چاھتی ھے۔ وہ سول حکومت کر نہیں سکتی۔ اور جو ایک سول حکومت اپنے عوام کے لیے کرنا چاھتی ھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کرنے نہیں دیتی۔ اسٹیبلشمنٹ یہ تو چاھتی ھے۔ سول حکومت کشتی پار لگا دے۔ لیکن سول حکومت کشتی کے بغیر ھوتی ھے۔ اور ھاں یہ مت بھولیے۔ ابھی امریکہ بھی اپنے تمام مطالبات سمیت ھمارے سر پر آ بیٹھا ھے۔ ایک بار آپ آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج تو لیں۔
چناچہ یہ تضاد اندرونی ھے۔ تحریک انصاف جیت گئ۔ عمران خان کے فالوورز کو کچھ چین آ گیا۔ آجکل تحریک انصاف حکومت بنانے کے لیے جو خریداری کر رھی ھے۔ آئیڈیلزم کا خاتمہ شروع ھو چکا ھے۔ اب عملی اور زمینی حقائق شروع ھو رھے ھیں۔ اور بہت کچھ کرنے والا ھے۔ اور یہ بہت کچھ تحریک انصاف نے خود بیان کر رکھا ھے۔ چناچہ نہ کیا تو مزید آئیڈیلزم ٹوٹے گا۔ لوٹی ھوئ دولت واپس لانی ھے۔ ملک کے قرضے اتارنے ھیں۔ پچاس لاکھ گھر بنانے ھیں۔ ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنی ھیں۔ ڈیمز بنانے ھیں۔ کلبھوشن کو پھانسی دینی ھے۔ بھارت کو کشمیر کے تصفیے کے لیے مجبور کرنا ھے۔ تعلیم ، صحت اور صاف پانی میں انقلاب لانا ھے۔ انفراء سٹرکچر کو ترقی دینا ھے۔ گیس اور بجلی کے منصوبے بنانا ھیں۔ ھیومین ڈویلپمنٹ کرنی ھے۔ پولیس اور پٹوار ٹھیک کرنا ھے۔ بنیادی ضرورت کی چیزیں سستا کرنی ھیں۔ پارلیمانی ریفارمز لانے ھیں۔ خارجہ ، دفاع ، داخلہ، بھارت، افغان اور طالبان پالیسیاں وضع کرنی ھیں ۔ سی پیک مکمل کرنا ھے۔ عدالتی نظام درست کرنا ھے۔ اور مدینہ کی ریاست قائم کرنی ھے۔ اور جیسے میں نے اوپر لکھا ۔ اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ھے۔
اگر یہ سب ھو گیا۔ اور ھماری دعا ھے یہ ھو۔ کیونکہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ھے۔ تو ھم عمران خان کے ساتھ کھڑے ھوں گے۔ اور اگر نہ ھوا۔ اور اسٹیبلشمنٹ نے نہ کرنے دیا۔ یا تحریک انصاف کی اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی وجہ بنی۔ تو عمران خان کے فالوورز ھمارے ساتھ کھڑے ھوں گے۔ اور ھم سب مل کر سول سپریمیسی کے حق میں کوئک مارچ کر رھے ھوں گے۔ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا۔ جو بھی ھوتا ھے۔ اچھے نتیجے کے لیے ھی ھوتا ھے۔ اور اسی لیے میں پر امید اور رجائیت پسند ھوں۔ آج تحریک انصاف کے فالوورز وھاں کھڑے ھیں۔ جہاں ن لیگ کے فالوورز نبے کی دھائی کے شروع میں کھڑے تھے۔ پیپلزپارٹی کے کارکن اسی کی دھائی کے شروع میں کھڑے تھے۔ کچھ دیر جاتی ھے۔ جلد آن ملیں گے۔ چاک گریبان سے دامن چاک

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply