کہا یہی جائے گا کہ میرا دلت،اور تیرا دلت

کہا یہی جائے گا کہ میرا دلت اور تیرا دلت
حفیظ نعمانی

ملک کی سابق اسپیکر مسز میرا کمار پانچ بار پارلیمنٹ کی ممبر رہ چکی ہیں اور پانچ سال لوک سبھا کی اسپیکر رہیں ۔ لوک سبھا کا اسپیکر عام طور پر ایسے ممبر پارلیمنٹ کو بنایا جاتا ہے جس کی دستور پر گرفت مضبوط ہو اور پارلیمانی امور سے وہ زیادہ سے زیادہ واقف ہو اور اس سے یہ توقع ہو کہ وہ اسپیکر بن کر وہ نہیں کرے گا جو اس کی پارٹی کے حق میں ہوگا بلکہ وہ کرے گا جو برحق ہوگا۔ 2004 ء سے 2009 ء تک کمیونسٹ لیڈر سوم ناتھ چٹرجی اسپیکر رہے اور انہوں نے اصولوں پر پارٹی کے تعلق کو قربان کردیا۔ لیکن میرا کمار ہوں یا اب موجودہ اسپیکر ان میں کوئی سوم ناتھ چٹرجی کے قریب بھی نہیں ہے۔ مسز میرا کمار اپنی سماجی حیثیت میں کہیں سے کہیں تک دلت نہیں ہیں لیکن وہ اسے کیا کریں گی کہ وہ بابو جگ جیون رام کی بیٹی ہیں جو پاسی تھے اور گاندھی جی کے زمانہ میں ہریجن تھے اور کانشی رام کے زمانہ میں دلت ہوگئے لیکن نام بدل گیا ذات وہی رہی جو بابو جی کی تھی۔ اور ہندوستان میں جب تک برہمن، ٹھاکر، چھتریہ کائستھ ہیں اس وقت تک وہ دلت ہی رہیں گی؟

ملک میں مسلمان، دلت (کوئی بھی ذات ہو) خواتین اور سکھ یہ وہ ہیں جو صدر وزیر اعظم یا کسی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے خود کھڑے ہوکر اپنے بل پر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ اسی وقت کامیاب ہوں گے جب اعلیٰ ذات کے ہندو اُن کی مدد کریں ۔ اسی لئے برہمن، ٹھاکر بنیا وغیرہ میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے تو اس کی ذات تذکرہ میں نہیں آتی۔ لیکن مسلمان، دلت، خاتون یا سکھ خود کھڑا نہیں ہوگا بلکہ کھڑا کیا جائے گا جیسے ایک دلت کو وزیر اعظم مودی نے کھڑا کیا ہے اس کے جواب میں سونیا گاندھی نے میرا کمار کو کھڑا کردیا جو دلت بھی ہیں اور خاتون بھی۔ میرا کمار ناراض ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ذات پات کو گٹھڑی میں باندھ کر دفن کردیا جائے اور یہ نہیں سوچتیں کہ ہندو دھرم کی بنیاد ہی ذات پات پر ہے ہندوستان میں اسے دفن نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر کوئی بتائے کہ ذات پات کی گٹھڑی پاتال میں دفن ہے تو وہاں سے یا پہاڑ پر رکھی ہے تو وہاں سے لے آئیں گے۔

1966 ء میں اندرا گاندھی نے صدر کے عہدہ کے لئے نیلم سنجیوا ریڈی کی مخالفت کی اور کانگریس کو توڑ دیا۔ انہوں نے وی وی گری کو اُمیدوار بنایا۔ گری صاحب آزاد اُمیدوار نہیں تھے بلکہ اندرا کی کانگریس کے اُمیدوار تھے جس کا ایک ایم ایل اے بھی اُترپردیش میں اس وقت نہیں تھا۔ اندراجی نے ’’ضمیر کی آواز پر ووٹ دو‘‘ کا نعرہ دیا۔ وی وی گری جب لکھنؤ آئے تو صرف ایک آزاد ایم یال اے جگدیش گاندھی ان سے ملنے آیا اور وہ آخر تک ان کے ساتھ رہا اور اس کا یہ فیصلہ ہی تھا جس نے اسے آج ایک بہت بڑا آدمی بنا دیا۔ اندرا گاندھی نہرو کی بیٹی تھیں ملک کی اکثریت ان کے ساتھ آگئی اور انہوں نے کانگریس کے سرکاری اُمیدوار کو ہرا دیا۔ میرا کمار خود نہیں کھڑی ہوئی ہیں ان کو سونیا گاندھی نے کھڑا کیا ہے۔ اور اب ملک میں نہرو کا نہیں موہن بھاگوت کا سکہ چل رہا ہے اس لئے ضمیر کی آواز کون سنے گا ہر ضمیر پر ترشول بنا ہوا ہے۔

ملک میں ایک مقام وہ ہے جو مرد یا خاتون اپنے بل پر حاصل کرے وہ آئی اے ایس ہوجائے پھر ترقی کرتے کرتے کسی بھی پوسٹ پر آجائے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے اس نے کھڑا کیا تھا۔ میرا کمار پارلیمنٹ کے ممبر کے علاوہ جو کچھ بھی رہیں وہ اپنے بل پر رہیں لیکن جب وہ اسپیکر کی یا صدر کی اُمیدوار بنیں تو خود نہیں بنیں ان کو سونیا گاندھی نے بنانے کے لئے میدان میں اُتارا۔ انہوں نے پانچ سال اسپیکر بن کر دیکھ لیا کہ اس کے علاوہ کیا کرسکیں جو سونیا گاندھی نے چاہا اور اب اگر صدر بن گئیں تو ملک کے لئے تو کیا دلتوں کے لئے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں کرپائیں گی کہ کسی کو راجیہ سبھا کا ممبر بنوا دیں یا کوئی اعزاز دے دیں ؟ ڈاکٹر ذاکر حسین پہلے مسلمان صدر تھے وہ ذاکر حسین جو 22 لاکھ اُردو والوں کے دستخطوں کا میمورنڈم صدر جمہوریہ راجن بابو کے پاس لے گئے تھے۔ اور راجن بابو ان سے اور ان کے 24 ساتھیوں سے کہا تھا کہ آپ سب انتہائی لائق اور پڑھے لکھے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں صرف دستوری صدر ہوں آپ جو لائے ہیں اسے میں جواہر لال نہرو کے پاس بھیج دوں گا اور وہ جو کہیں گے وہ کردوں گا۔

اس کے بعد بھی جب ڈاکٹر ذاکر حسین صدر ہوئے تو حیرت تھی کہ انہوں نے یہ عہدہ کیوں منظور کیا؟ ایک سکھ سردار ذیل سنگھ بھی صدر بنائے گئے جو دستور کے اعتبار سے تینوں فوجوں کے سربراہ تھے لیکن اندرا گاندھی نے ہوائی اور بر ّ ی فوج کے افسروں کو بلاکر ’’آپریشن بلیو اسٹار‘‘ کا منصوبہ بتایا اور خود امریکہ چلی گئیں فوج کے افسروں نے پوری طاقت سے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا اندر بند سینکڑوں سکھوں کو توپ کے گولوں سے بھون دیا اور گرودوارہ کی عمارت کا ایک حصہ بھی اُڑا دیا۔ سردار ذیل سنگھ صدر تھے ان کی یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ اُڑکر امرتسر جاتے اور فوج کے تمام افسروں کا اور جوانوں کا کورٹ مارشل کراتے۔ انہوں نے دھون کے ذریعہ اندراجی سے اجازت مانگی کہ وہ امرتسر جانا چاہتے ہیں ۔ جس کا جواب یہ آیا کہ میں امریکہ سے آجاؤں تو چلے جائیے گا۔ یہ تھی حیثیت صدر جمہوریہ کی۔ جب وہ صدر رہے تھے تو جاہل سکھوں نے نعرے لگائے تھے کہ ہم نے مانگا خالصتان ہم کو ملے گا ہندوستان ست سری آکال۔

اجودھیا میں بابری مسجد گرائی جاتی رہی فوج کے ہزاروں جوان فیض آباد میں شراب پیتے رہے اور صدر جمہوریہ محل میں بیٹھے رہے۔ 2002 ء میں صدر نے گجرات فوج بھیج دی وزیر اعلیٰ مودی نے اسے گجرات میں نہیں گھسنے دیا اور بے گناہ قتل ہوتے رہے ،صدر کچھ نہ کرسکا۔ ایسے عہدہ کے لئے کیوں میرا کمار نے سونیا گاندھی کی بات مانی جبکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ آج کے ہندوستان میں جیت نہیں سکتیں ۔ آج ہر طرف زعفرانی اُڑ رہا ہے۔ مودی جی کو تو اپنی سہارن پور کی ٹھاکر نوازی کی قیمت چکانا تھی جہاں ان کے ایم پی اور سابق ایم ایل اے نے دلتوں کے گاؤں کے گاؤں جلا دیئے لیکن ان کے خلاف پولیس کو کچھ نہیں کرنے دیا کیونکہ اُترپردیش میں ایک سنیاسی کی سرکار ہے جس میں دلت بھی ہیں تو برہمنوں کی ہر بات پر ’’جی سرکار‘‘ کہنے کے لئے ہیں اور سڑک کے گڈھوں میں مٹی ڈال کر یہ کہنے کے لئے ہیں کہ ہماری سرکار نے تین مہینے میں وہ کردیا جو 15 برسوں میں نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی جس دلت کو صدر بنائیں گے وہ بھی دلتوں کی زبان بند کرنے کے لئے بنائیں گے۔ اگر مودی جی کو دلتوں سے بہت محبت تھی تو اُترپردیش کا وزیر اعلیٰ اس موریہ کو بناتے جسے دلتوں کے ووٹ لینے کے لئے یوپی بی جے پی کا صدر بنایا ہے۔ اور اب وہ نائب وزیر اعلیٰ ہے اور ایسا نائب کہ جب قائم مقام نائب وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہو تو دوسرا نائب وزیر اعلیٰ موجود ہے۔ وزیر اعلیٰ صرف وزیر اعلیٰ ہوتا ہے نائب کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ نائب ہوں ایسا تو پورے ملک میں شاید کہیں نہیں ہوا یہ صرف دلتوں کو بے وقوف بنایا ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply