نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ۔۔۔۔ محمد شاہزیب صدیقی/قسط1

کائنات کے پیش و خم کو انسان نے جب سے سمجھنا شروع کیا تب سے اُسے یہ زمین ایک ذرے کی مانند دکھائی دی اور یہ انسانی فطرت ہے کہ زمین اگر ذرے جتنی محسوس ہوگی تو اس میں رہنے والی مخلوق اِس قید خانے سے نکلنے کے جتن بھی کرے گی۔ زمین نے کشش ثقل کی بیڑیوں میں ہر شے کو جکڑا ہواہے،ان بیڑیوں کو انسان نے سب سے پہلے تب توڑا جب روسی سائنسدان یوری گیگرین نے خلاء میں پہنچ کر پہلا انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سفر میں اگلی منزل چاند کو تسخیر کرنا تھا جسے 1969ء میں نیل آرمسٹرانگ نے قدم رکھتے ہی پالیا، یکے بعد دیگرے مزید 9خلاء بازوں نے چاند پر قدم رکھ کر نسل انسانی کو نئے سنگ میل کے نشانات فراہم کیے۔

آج انسانیت کی اگلی منزل مریخ ہے۔ یہاں پر زیادہ مشکل صورتحال اس وجہ سے ہے کہ ہمارا مشن اب مریخ کو صرف تسخیر کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر آبادکاری بھی ہے جو کہ یقیناً کئی صدیوں پر محیط عمل ہوگا،چونکہ زمین کے قریب ترین اجسام کی فہرست میں چاند اور زہرہ کے بعد مریخ کا تیسرا نمبر ہے جس کے باعث یہ شروع سے ہی انسان کے لئے حیرت کا منبع بنا رہا ہے۔ کبھی اس کو “دیوتا” کہا گیا تو کبھی اس کو “دُنیا کے خاتمے کی نشانی”کہا گیا، لیکن تحقیق کے سفر کے دوران انسان کو سمجھ آنا شروع ہوا کہ یہ توکوئی دیوتا نہیں بلکہ ایک “ستارہ” ہے جو ایک مقررہ راستے پر گامزن ہے۔

آج ہم جانتے ہیں سورج سے بہت دُور ہونے کے باعث مریخ کا سورج کے گرد محور (orbit)زمین سے دُگنا ہےجس وجہ سے مریخ تقریباً ہر دو سال بعد retrograde motion ظاہر کرتا ہے یعنی ہر دو سال بعد مریخ کچھ ہفتوں کے لئے مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی جانب سفر کرتا ہے،مریخ کے اس عجیب وغریب محور کا اندازہ انسان نے آج سے 3500سال پہلے ٹھیک ٹھیک لگا لیا تھا جبکہ 2500 سال قبل جدید بابلی سلطنت کے دور میں انسان نے دیگر سیاروں کے مدار بھی ٹھیک طرح معلوم کرلیے تھے۔کائنات کے اسرار و روموز کو پانے کی پیاس بڑھتی رہی ، اسی دوران 2400 سال پہلے (تقریباً400 قبل مسیح) میں ارسطو نے دیکھا کہ مریخ چاند کے پیچھے چھپ گیا جس سے ہمیں پہلی بارمعلوم ہوا کہ مریخ تو چاند سے بھی زیادہ دُور ہے،اس دریافت نے تجسس میں مزید اضافہ کیا، جسکے بعد 500صدی عیسوئی میں بھارتی فلکیات دان نے پہلی بار مریخ کا diameterناپنے کی کوشش کی۔

اس کے ہزار سال بعد تقریبا 16 صدی میں ٹیلی سکوپ جیسی نعمت انسانوں کو میسر ہوئی تو جیسے یوں لگا کہ فلکیات کے میدان میں طوفان برپا ہوگیا ہے،400 سال پہلے سائنسدانوں نے مریخ کا زمین سے فاصلہ ناپنے کی پہلی بارکوشش کی۔ 1840ء میں میڈلر نے دس سال تک مریخ کو ٹیلی سکوپ کے ذریعے observe کیا جس کے بعد اس کا پہلا نقشہ تیار کیا گیا،چونکہ مریخ کی atmosphereہلکی ہے جس کے باعث اس پر شہابیوں کی bombardment ہوتی رہتی ہے لہٰذا مریخ پر بھی چاند کی طرح کے دھبے موجود ہیں۔جیسے جیسے ٹیلی سکوپ کی ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ویسے مریخ کے mapsمیں نکھار آتاگیا۔ شروع میں فلکیات دانوں کو ٹیلی سکوپ سے مریخ کو دیکھنے ،طوفان آنے اور موسموں کے تغیر کے باعث یہ گمان ہوا کہ وہاں پانی کی نہریں اور زندگی کے واضح نشانات موجودہیں، جس وجہ سے ایک عرصے تک مریخ کو اہمیت حاصل رہی اور یقین رہا کہ وہاں کسی قسم کی خلائی مخلوق موجودہےلیکن یہ حسین خواب اس وقت چکنا چور ہوا جب 70 سال پہلے پہلا ایک غیرانسانی مشن مریخ پر بھیجا گیا جس نے قریب سے اس کا جائزہ لے کر ہمیں اس سیارے کی “حقیقت” سے آگاہ کیا ۔

اب تک مریخ پر درجنوں خلائی مشنز بھیجنے کے بعد انسان کو معلوم ہوچکا ہے کہ جسے ہم آباد اور سرسبز وشاداب سمجھ رہے تھے وہ تو دراصل بنجر و بیابان سیارہ ہے،چونکہ وہاں دریاؤں کے بہنے کے نشانات آج بھی موجود ہیں، سویہ ہوسکتا ہے کہ آج سے لاکھوں سال پہلے مریخ پردریا بہتے ہوں اور اُس وقت زندگی کی کوئی قسم وہاں موجودہو ۔آج مریخ پر تقریباً 8 مشنز موجود ہیں جو ہمہ وقت زمین کے باسیوں کو اُن کے پڑوسی سیارے کی معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں، ان 8میں سے 6 مشنز مریخ کے مدار میں موجود ہیں جبکہ 2 خلائی گاڑیاں مریخ کی سطح پر موجود ہیں۔یہ دونوں خلائی گاڑیاں ناسا کی جانب سے بھیجی گئی ہیں اور مختلف آلات سے لیس ہیں ،ان آلات میں on-board drill،لیزر ،سپرے اور دیگر تجرباتی آلات شامل ہیں، جن کے ذریعے مریخ کی سطح میں معمولی کھُدائی کرکے ان میں موجود معدنیات کو جانچا جاتا ہے۔مریخ کا سائز ہماری زمین سے تقریباً آدھا ہےجبکہ اس میں کشش ثقل کی قوت زمین کی کشش ثقل کی قوت کے مقابلے میں 33 فیصد ہےیعنی اگر آپ کا وزن زمین پر 60 کلو گرام ہے تو مریخ پر 20 کلو گرام ہوگا، چونکہ اس پر آئرن آکسائیڈ کی بھرمار ہے جس وجہ سے اس سیارے پر سنہری اور لال رنگ نمایاں ہے،

یہی وجہ ہے کہ زمین سے دیکھنے پر یہ سیارہ سُرخ دکھائی دیتا ہے ۔مریخ پر کسی قسم کی مقناطیسی فیلڈ موجودنہیں ہےلہٰذا اگر آپ مریخ پر جائیں گے تو وہاں قطب نما (compass) کام نہیں کرے گا،ہمیں تحقیق کی بدولت آج یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ زمین اور چاند کی طرح مریخ پر بھی زلزلے آتے رہتے ہیں۔مریخ کی آدھی سے زیادہ سطح گڑھوں سے بھری پڑی ہے، ان شہابیوں کے گرنے کی بدولت مریخ پر پڑنے والے گڑھوں میں سب سے بڑا گڑھا تقریباً10600 کلومیٹر وسیع ہے، اندازہ ہے کہ تقریباً 4 ارب سال پہلے مریخ کا پلوٹو جتنی جسامت کے کسی سیارے سے تصادم ہوا تھا جس کے باعث یہ گڑھا پڑا ،اس نامعلوم بونے سیارے نے مریخ کی جغرافیائی تبدیلیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یاد رہے کہ مریخ پر ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا پہاڑ بھی موجود ہے جسے Olympus Mons نام دیا گیاہے ، اس پہاڑکی اونچائی 25 کلومیٹر ہے( ہماری زمین پر موجود سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8.8 کلومیٹر ہے) Olympus Mons آج سے تقریباً 3 ارب سال قبل وجود میں آیا اُس دوران مریخ مکمل طور پر لاوے سے ڈھکا ہوا تھا۔اگر سُرخ سیارے کی سطح پر موجود دونوں خلائی گاڑیوں سے ملنے والے ڈیٹاکو پرکھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ زمین کی طرح مریخ پر میگنیشم، سوڈیم، پوٹاشیم اور کلورین کافی مقدار میں ہے،یاد رہے کسی بھی سیارے پر زندگی اپنی روانی کے لئے ان عناصرپر انحصار کرتی ہے،جس کے باعث شک گزرتا ہے کہ مریخ پر کبھی زندگی رہی ہوگی، یا پھر وہاں زندگی “اُگائی” جاسکتی ہے۔ ان خلائی گاڑیوں کے ذریعے کھُدائی کرکے ملنے والے سیمپلز سے معلوم ہوا ہے کہ مریخ کی مٹی میں پانی بھی موجود ہے جس کے ظاہر ہوتاہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے پانی کے وسیع ذخائر ہوسکتے ہیں، بلکہ جدید تحقیق یہاں تک کہتی ہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے پانی کے اتنے وسیع ذخائر ہونے کے کے امکانات ہیں جن کی گہرائی 200 سے ایک ہزار میٹر تک ہوگی،چونکہ مریخ پر زندگی کی تلاش کے لئے سب سے اہم عنصر پانی ہے،

لہٰذااس ضمن میں مریخ کے مدار میں موجود اسپیس کرافٹس سے ملنے والی معلومات بھی حیران کن رہی ہیں کچھ دن پہلے معلوم ہوا کہ مریخ کے قطب میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی برف کے نیچے 20 کلومیٹر طویل پانی کی جھیل موجود ہے، اس دریافت کے بعد مریخ پر زندگی کے آثار کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں، کیونکہ سائنسدانوں کے خیال میں جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی موجود ہوگی لہٰذا اب دوبارہ یہ خیال کیا جارہاہے کہ بظاہر بنجر دکھائی دینے والا یہ سیارہ ہوسکتا ہے کہ اپنی سطح کے نیچے زندگی کی مختلف اقسام سموئے بیٹھاہو۔مریخ کے قطبین میں پانی برف کی صورت میں اس قدر تعداد میں موجود ہے کہ اگر ہم اس تمام پانی کو پگھلا کر مائع حالت میں کردیں تو یہ پانی پورے مریخ کو ڈھانپ لے گا اور اس کی بلندی11 میٹر (36 فٹ)تک ہوگی۔ہم نے اوپر سمجھا کہ مریخ پر موجود کئی مقامات پرtraces سے معلوم پڑتا ہے کہ کبھی اس سیارے پر بھی ندی نالے اور دریا موجود تھےاور یہ ابھی چند لاکھ سال پہلے کی ہی بات ہے، لیکن آج atmospheric pressure بہت کم ہوجانے کے باعث مریخ پر پانی یا تو گیس کی صورت میں رہ سکتا ہے یا پھر برف کی صورت میں، مائع حالت میں بالکل نہیں رہ سکتا۔

یہاں پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ پھر یہ سارا پانی کہا گیا؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ پانی آج بھی مریخ پر موجود ہے مگر مریخ کی سطح کے نیچے ہے، اوپر atmospheric pressure زیادہ ہوجانے کے باعث پانی مائع حالت میں اب صرف مریخ کی سطح کے نیچے ہی موجود ہے۔مریخ کی سطح پر جپسم،jarosite, hematite اور goethiteنامی مادنیات کی موجودگی بھی اس امر کی جانب اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ یہ معدنیات پانی کی موجودگی کے بغیرنہیں بن سکتیں۔ 28ستمبر 2015ء کو ناسا کے اسپیس کرافٹ نے مریخ کے ایک حصے میں غار کے قریب نمکین پانی کی بارش کے تازے نشانات بھی دیکھے۔ہماری زمین پر عموماً طوفان ایک مخصوص علاقے میں آتا ہے اور ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رہتا مگر آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ مریخ کی سطح پر طوفان آتے ہیں اور کئی کئی ماہ رہتے ہیں، یہ طوفان ایک چھوٹے سے علاقے سے شروع ہوتے ہیں اور پورے مریخ کو ڈھانپ لیتے ہیں،ان طوفانوں کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی کئی ماہ مریخ کی سطح تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، مریخ مکمل اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔

آجکل بھی سُرخ سیارہ ان طوفانوں کی لپیٹ میں ہے، چونکہ مریخ اور زمین کا مدار ایسا ہے کہ یہ کچھ عرصے بعد ایک دوسرے کے قریب آتے رہتے ہیں، آجکل مریخ زمین کے انتہائی قریب آیا ہوا ہے جس وجہ سے رات کو آسمان پر جنوبی سمت میں بہت واضح چکمتا دکھائی دے رہا ہے۔یاد رہے 2003ء میں مریخ زمین کے اس حد تک قریب آگیا تھا کہ سائنسدانوں نے کیلکولیشنز کے ذریعے انکشاف کیا کہ اتنا قریب مریخ آخری مرتبہ 62000 سال پہلے آیا تھا۔ آج 2018ء میں مریخ زمین کے جتنا قریب ہےدُوبارہ اتنا قریب 260 سال بعد آئے گا لہٰذا باہر نکل کے آسمانی پردے پر دکھائی دینے والے ان مناظر سے لازمی لطف اندوز ہوں، مریخ انسانوں کا اگلا ٹھکانہ ہے، ہوسکتا ہے 260 سال بعد دوبارہ جب مریخ اور زمین ایک دوسرے کے اتنا قریب آئیں تو ہماری نسلیں مریخ پررہتے ہوئے آسمان پہ زمین کو ایک نقطے کی صورت میں دیکھ رہی ہوں۔بہرحال مضمون کے اس حصے میں ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ مریخ پر پانی کے وسیع ذخائر موجودہیں، کہاجاتا ہے کہ پانی اور زندگی لازم وملزوم ہیں، اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہےکہ مریخ پر زندگی کی کوئی قسم لازمی طور پر موجود ہوگی،

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ایسا ہے تو ذہن کے دریچوں پر سوال دستک دیتا ہے کہ وہ زندگی ہمیں دکھائی کیوں نہیں دے رہی؟ مریخ ہمارا پڑوسی سیارہ ہے ، ابھی ہم نے اپنی کائنات کو سمجھنے کا آغاز کیا ہے کہ زندگی کے امکانات ہمیں پڑوس سے ملنا شروع ہوگئے ہیں، تو سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیا بقیہ کائناتی گوشوں میں بھی زندگی موجود ہے؟اگر ہاں تو ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ آنے والے حصے میں اس کو سمجھیں گے، جب تک آپ نسل انسانی کے مستقبل کے گھر (مریخ) کو آسمان پہ دیکھیے جو زمین کی دہلیز پر ہمیں خوش آمدید کہنے پہنچا ہوا ہے!
(جاری ہے!)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply