خودکشیاں۔۔۔۔قربَ عباس

شاید ہی کوئی دن گزرے کہ ہمیں کوئی ایسی بریکنگ نیوز سننے کو نہ ملے:
“بدھ کی آدھی رات کے وقت علاقے کے لوگ گولی کی ہیبت ناک آواز سے جاگ اٹھے۔ گولی کی آواز سننے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی، دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ فیروز نامی ایک شخص خون میں تر تھا۔ ہاتھ میں وہ پستول موجود تھا جس سے اس نے اپنی جان لی تھی۔”

“معلومات کے مطابق ستاون سالہ فیروز ایک کامیاب انسان تھا اور ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ ابھی تک خودکشی کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آئی۔”

کون سا ایسا بھیانک دکھ، نامعلوم کرب، ڈھکے ہوا زخم اور چھپا ہوا درد ہوتا ہے کہ جو اس طرح کے متوقع طور پر ‘خوشحال ‘ لوگوں کو خودکشی کے لیے مجبور کر دیتا ہے؟ ہم ڈھونڈتے ہیں، ناکام محبتوں کے مفروضے لگاتے ہیں، ہم ان کی مالی مشکلات کے بارے میں سوچتے ہیں مگر جب کوئی بھی سبب ہمارے ذہن میں نہیں آتا تو ہم ان لوگوں کی موت کے واقعات کو نارساں کتابوں کے درمیان “پراسرار موت” کی مہر لگا کر رکھ دیتے ہیں۔

پچھلی رات اسی قسم کی “پُر اسرار موت” کے بعد میز سے پستول کے ساتھ رکھا ایک خط بھی ملا۔ ہم جو مفروضے اندازے لگاتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی وجہ اس خط میں بیان نہیں کی گئی تھی، اس میں تو مختصر سی زندگی کے کچھ ناہموار واقعات کا تسلسل تھا، ایک ذات تھی جسے تنہائی کی دیمک نے بھربھرا کر دیا تھا، جس کے خواب کسی نامعلوم دنیا میں کھو چکے تھے۔۔۔ ایسی “پُراسرار اموات” کے لیے کچھ اسی قسم کی ہی وجوہات ہوتی ہیں اور یہ سب صرف شکستہ لوگ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

آپ بھی اس خط کو پڑھ لیجیے:
“آدھی رات بیت چُکی ہے۔ یہ خط مکمل کرتے ہی میں اپنے آپ کو بھی ختم کر لوں گا۔ کیوں؟ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس ‘کیوں’ کا جواب دے سکوں، ان کے لیے نہیں جو اس خط کو پڑھ رہے ہیں بلکہ میں یہ سب لکھ کر اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں، میں خود ان اسباب پر غور کرنا چاہتا ہوں۔ اس بجھتی ہوئی ہمت کو حوصلہ دینا چاہتا ہوں۔ اپنے آپ پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے لیے اپنی اس زندگی سے گزر جانا کیوں ضروری ہو چکا ہے۔

میں سیدھے سادے ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا تھا، جنہوں نے ہمیشہ آنکھیں بند کرکے سماج اور دین کے ہر اصول کو تسلیم کیا، کبھی کوئی سوال نہ اٹھایا۔ میں بھی انہی جیسا تھا کہ کبھی کسی سوال پر غور نہ کیا۔

میرے اندر میرے خواب اپنی بھرپور زندگی جیتے رہے لیکن پھر اچانک آنکھوں کے سامنے معدوم ہونے لگے۔

پچھلے کچھ سال سے میرے اندر ایک عجیب و غریب قسم کی تبدیلی نمایاں ہورہی ہے۔ وہ تمام لمحات جن کی بنیاد پر میری زندگی میں ایک دمک تھی، چمک تھی، آہستہ آہستہ نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں اور تلخ سچائیاں پوری سفاکی کے ساتھ میرے رو بہ رو کھڑی ہیں۔ محبت کی اصل وجہ نے مجھے اس بیان کردہ شاعرانہ جذبے کے لیے بھی نفرت کی طرف دھکیل دیا:
‘ہم ایسے احمقانہ مگر پُرکشش فریبِ نظر کے فانی کھلونے ہیں جو مسلسل تجدید کر مراحل میں رہتے ہیں۔’

آج، عمر کے اس حصے میں جب رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی میں نے زندگی کی بھیانک اسراریت کے سامنے اپنی تمام تر مزاہم قوتوں کو ناکام پایا اور ہر شے کے لامحدود خلاء میں یہ ایک نئی روشنی پھیلی تو مجھے اپنا وجود بہت زیادہ ناکارہ محسوس ہوا۔

ماضی میں ‘میں بہت خوش تھا۔ ہر ایک شے مجھے تسکین پہنچاتی تھی؛ کسی خاتون کا میرے قریب سے گزر جانا، گلیوں کا نمودار ہونا، وہ جگہ جہاں میں رہتا ہوں، مجھے اپنے لباس میں بھی بہت دلچسپی تھی مگر ان تمام نظاروں کی تکرار نے مجھے اب بہت تھکا دیا ہے۔ یہ سب بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی انسان روز ایک ہی تھیٹر میں جا کر ایک ہی ڈرامہ بار بار دیکھتا رہے۔

پچھلے تیس سال سے میں ایک ہی وقت پر جاگ رہا ہوں، تیس سال سے ایک ہی ریسٹوراں میں کھانا کھا رہا ہوں، میرے سامنے مختلف شکلوں میں ویٹرز ایک ہی طرح کے کھانوں کو بار بار لا کر رکھ رہے ہیں۔

میں نے اس وحشت کو مٹانے کے لیے مختلف جگہوں کا سفر کیا تو مجھے اپنا آپ ہی اجنبی محسوس ہونے لگا، سب جگہیں مجھے ناآشنا محسوس ہوئیں اور میں اس کے درمیان بہت بونا سا لگنے لگا، اسی احساس سے گھبرا کر میں واپس گھر آنے پر مجبور ہوگیا۔

لیکن تیس سال سے ایک ہی جگہ پر رکھا یہ بے حس و حرکت فرنیچر، ہر رات میرے گھر کی ایک ہی مہک، اس قسم کی اور چیزوں کے سکوت نے مجھے میری اپنی ہی ذات کی عدم موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے اور میں اپنے آپ کو ایسی حالت میں لاغر سا محسوس کرنے لگا ہوں۔

ہر ایک شے اپنے آپ کو مسلسل دوہرا رہی ہے۔ جیسے میں روز اپنے تالے کو چابی لگاتا ہوں، وہ جگہ جہاں سے میں گھر کی روشنیاں جلاتا ہوں، وہ چیزیں جنہیں میں گھر روشن ہوتے ہی دیکھتا ہوں، یہ سب کچھ مجھے اکساتا ہے کہ میں فوراً کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا کر ان تمام تاریک و مدھم واقعات سے گزر جاؤں جن کو ہم چاہ کر بھی کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔

ہر دن۔۔۔ ہر ایک دن، جب میں شیو کرتا ہوں تو میرے اندر خواہش ابھرتی ہے کہ میں بلیڈ اپنے گلے پر پھیر دوں اور اپنا چہرہ جسے روز ایک چھوٹے سے آئینے میں دیکھتا ہوں، ہر روز ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے، گالوں پر جھاگ لگی رہتی ہے اور وہ جس طرح سے یاسیت کا نمونہ بنا ہوا ہوتا ہے مجھے مزید کمزور کر جاتا ہے۔

اب تو مجھے ان لوگوں سے بھی ملنا ناگوار لگتا ہے جن سے بہت گرم جوشی کے ساتھ ملا کرتا تھا۔ ان سبھی کو تو اب میں اتنی باریکی سے جاننے لگا ہوں کہ آپ کو ان کے الفاظ ادا کرنے سے پہلے بتا سکتا ہوں کہ وہ کیا کہنے والے ہیں اور یہ بھی کہ میں جواب میں کیا کہوں گا۔ دماغ ایک سرکس جیسا ہے جس کے اندر چند ایک گھوڑے ایک ناتمام دائرے میں چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں صرف چکر ہی تو کاٹنا ہے، ایک ہی طرح کے نظریات کے گرد، ایک ہی طرح کے خیالات کے گرد، ایک ہی جیسی خوشیوں کے گرد، ایک ہی جیسی مسرتوں کے گرد، ایک ہی جیسی عادتوں کے گرد، ایک ہی جیسے عقائد کے گرد۔۔۔ اور معدوم ہو جانے کے ایک ہی طرح کے احساس کے گرد۔۔۔

آج شام دھند بہت ظالم دکھائی دے رہی تھی۔ ساری مرکزی شاہراہیں ویران ہو چکی تھیں اور کھمبے پر لگی روشنیاں شمع کے گرد منڈلاتا دھواں محسوس ہو رہی تھیں۔ ایک عجیب سے بوجھ نے مجھے مزید پریشان کر دیا۔ شاید میری آگہی کا یہ بُرا مقام تھا۔

مثبت آگہی زندگی میں سب کچھ ہے۔ یہ آرٹسٹ کو اپنی آرٹ کی طرف مائل کرتی ہے، نوجوانوں میں ایک جوش پیدا کرتی ہے، مفکروں کی سوچ کو واضح سمت دیتی ہے، ہر ایک کی زندگی میں خوشی بھرتی ہے اور اس کے علاوہ کھانے کے دلدادہ کو اپنے شوق کے مزید نزدیک کر دیتی ہے (جو کہ یقیناً بہت سرور دیتا ہے)۔ جو معدہ درست نہ ہو وہ شک و شبہات کو جنم دیتا ہے، ڈراونے خوابوں سے ملواتا ہے اور مرنے کی تمنا کے قریب لے جاتا ہے۔ میں نے اکثر اس حقیقت پر بہت غور کیا ہے۔ ممکن تھا کہ میں خود کو نہ ختم کرتا اگر میرا معدہ بھی اِس شام درست ہوتا۔
آج جب میں اسی کرسی پر بیٹھا جہاں پر پچھلے تیس سال سے بیٹھ رہا ہوں تو میں نے اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی، سب کچھ بہت بھیانک سا لگا اور میں بُری طرح سے ایک سکتے کی زد میں آگیا کہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے مکمل طور پر پاگل ہوجاؤں گا۔

میں نے کوشش کی کہ میں اپنے آپ سے کہیں دور بھاگ جاؤں لیکن ہر ایک شے نے مجھے بُری طرح سے اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا، اسی دوران میرے ذہن میں نجانے کیا خیال آیا کہ اٹھ کر اوراق کو ایک ترتیب دینے لگا۔

ایک عرصے سے اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں اپنے میز کے تمام درازوں کو خالی کر دوں جس میں تیس سال سے متواتر اپنے بل، خطوط وغیرہ پھینکتا آ رہا ہوں اور اس انبار کی وجہ سے مجھے کئی مرتبہ اچھی خاصی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اپنی ازلی کاہلی کی وجہ سے چیزوں کو منظم کرنے جیسا خیال بھی بے کار لگا۔

سو آج میں نے اپنا دراز کھولا اور اس میں سے اکثر ناکارہ صفحات کو ضائع کر دیا۔

پہلے تو میں نے ان پرانے، بوسیدہ، پیلے پنوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی لیکن پھر نجانے کیوں ان میں سے ایک کو اٹھا لیا۔

آہ! اگر آپ کو اپنی زندگی پیاری ہے تو کبھی پرانے خطوط کے قبرستان کو ہاتھ مت لگائیے گا۔

اور اگر کبھی، غلطی سے بھی آپ نے ایسا کر لیا ہے تو فوراً ان کو مٹھی میں دبوچ لیں، اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ ایک بھی لفظ، ایک بھی لفظ نہ پڑھ پائیں، آپ کسی لکھائی کو نہ پہچان پائیں جو آپ کو ماضی کی بھولی بسری یادوں کے سمندر میں دھکا دے سکتی ہو، ان کاغذوں کو آگ کی جانب لے جائیں، ان کو جلا دیں اور جب ان کی راکھ بن جائے تو اس راکھ کو بھی مسل کر اس کا پاؤڈر بنا ڈالیں۔۔۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو آپ خود کہیں کھو جائیں گے۔۔۔ بالکل میری طرح، جیسے میں ایک گھنٹے کے لیے کھو گیا تھا۔

جو خطوط میں نے شروع میں پڑھے، ان میں میرے لیے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، وہ سب زندہ لوگوں کی جانب سے لکھے گئے تھے، وہ لوگ جو اب بھی مجھے اکثر ملتے رہتے ہیں اور ان کی موجودگی میرے لیے کچھ خاص خوشی کا باعث بھی نہیں ہے۔ لیکن پھر مجھے ایک لفافے نے اپنی طرف کھینچ لیا، میرا نام بڑے اور موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا، لکھائی دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ وہ خط۔۔۔ میرے سب سے عزیز ترین دوست کی جانب سے لکھا گیا تھا، دوست میری جوانی کا، میری امیدوں کا، خوابوں کا راز داں، میرا ساتھی۔۔۔ وہ اچانک اپنی خوبصورت مسکان کے ساتھ میرے سامنے ظاہر ہوگیا، میں اس کو واضح دیکھ سکتا تھا۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر اٹھی۔۔۔ جی ہاں، ایک مردہ میرے سامنے تھا۔ ہماری ان یادوں کی دنیا اس پوری کائنات میں سب سے زیادہ خوبصورت رہی ہے اور اب اس کا کہیں بھی وجود نہ تھا۔

کانپتے ہاتھوں اور ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ میں نے ان تمام باتوں کو دوبارہ پڑھا جو اس نے مجھے ماضی میں بتائی تھیں۔ اپنے گرفتہ دل میں ‘ میں نے ایک ایسا درد محسوس کیا جیسے کسی کی ایک ایک ہڈی ٹوٹ رہی ہو اور وہ دھاڑیں مار کر رو رہا ہو۔

بس پھر۔۔۔ اس کے بعد میں نے اپنے ماضی کے ساتھ اسی طرح چلنا شروع کر دیا جیسے کوئی دریا کے کنارے کنارے چلتا چلا جاتا ہے۔ لوگ پہچان میں آنے لگے، کچھ کے چہرے یاد تھے مگر نام نہیں۔۔۔ اپنی ماں کے خطوط میں ‘میں نے اپنے پرانے ملازمین کے چہرے بھی دیکھے، اپنا گھر دیکھا، اس کی چھتیں، درودیوار جو ذہن میں موجود تھے سامنے دکھائی دینے لگے۔

ہاں! اپنی ماں کی سبھی پرانی پوشاکیں، وہ سبھی مختلف انداز کے کپڑے، میری ماں کے بال جیسے وہ باندھتی تھیں اور پھر وہ سلک کی قمیص جس کے کناروں پر ایک لیس لگی ہوئی تھی، مجھے بہت لبھاتی تھی، مجھے یاد آنے لگا کہ میری ماں نے جب وہ پہنی تھی تو مجھ سے کہہ رہی تھیں:
‘فیروز! بیٹا اگر تم نے سیدھی طرح کھڑا ہونا نہ سیکھا تو دیکھ لینا پوری عمر ایسے ہی جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ پھرتے رہو گے۔’

اور پھر میں نے ایک اور دراز کھولا تو اس میں سے مجھے مزید کچھ یادیں ملیں، جذبات کا جوش، ٹوٹا ہوا گھنگھرو، تہہ لگا رومال اور ایک کمربند بھی، بالوں کو لگانے والا ایک کیچر اور کچھ سوکھے پھول۔ اسی کے ساتھ میری جوانی کے وہ میٹھے محبت میں مخمور دن بھی لوٹ آئے، وہ گہری گھنی بھوئیں، وہ جوان آنکھیں، وہ حسین چہرے، وہ گھنگھریالے بال، وہ رسیلے ہونٹ۔ ہاتھوں کا لمس، نگاہیں جو بات کرتی تھیں، دل جو دھڑکتے تھے، وہ وعدے، وہ نبھا۔۔۔ سب کچھ، سب کچھ لوٹ آیا تھا۔۔۔

گزری ہوئی محبت کو نئے سرے سے اپنے ہاتھوں میں لیے تھا اور پھر اس کو میں نے بھینچ لیا، سینے سے لگا لیا۔۔۔ جب میں پوری طرح سے ایک گھنٹے کےلیے اپنے آپ کو ماضی کی ظالم لہروں کے سپرد کرچکا تھا اسی دوران میں نے ایک ایسا کرب، دکھ، اذیت، درد محسوس کیا جو کہ کبھی جہنم کی کہانیوں میں بھی نہیں بیان کیا گیا ہوگا۔

ایک آخری خط نے مجھے یاد دلایا کہ وہ میں نے پچاس سال پہلے اپنی استاد کی مدد سے لکھا تھا ۔ وہ کچھ ایسے تھا:
‘میری پیاری امّی
آج میں سات سال کا ہوچکا ہوں۔ یہ عمر سیکھنے کی ہے اور میں اس میں بہت کچھ سیکھتا رہوں گا۔
مجھے اس دنیا میں لانے کے لیے بہت بہت شکریہ۔
آپ کا بیٹا جو آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔
فیروز۔’

سب ختم ہوگیا! میں بالکل ابتداء میں جا کر کھڑا ہو چکا تھا اور جب میں نے نگاہ اٹھا کر آگے دیکھا تو ایک تنہا، بدصورت اور بوڑھی زندگی تھی جو بیماریوں اور ناتوانیوں کے ساتھ الجھ رہی تھی۔۔۔ سب کچھ ختم ہوچکا تھا، سب کچھ جا چکا تھا اور میرے پاس کچھ نہ تھا، کوئی نہ تھا۔

پستول میرے سامنے ہے، اس کو میں لوڈ کرنے والا ہوں۔۔۔ بس ! اپنے پرانے خطوط کبھی مت پڑھیے گا۔”

اور ایسے لوگ اپنے آپ کو ختم کر دیتے ہیں اور ہم ان کی موت کے پیچھے بڑے بڑے اسباب، پریشانیاں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قُربِ عبّاس
(موپاساں کی کہانی Suicides سے ماخوذ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply